بعض دفعہ بچوں کیلئے اپنے والدین کی وراثت اتنا بڑا بوجھ بن جاتی ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی جان نہیں چھڑا سکتے۔انسان چند چیزوں کا انتخاب نہیں کرسکتا۔ اسے تقدیر کے فیصلے قبول کرنا پڑتے ہیں۔وہ کب‘ کہاں پیدا ہوگا‘ماں باپ‘ بھائی بہن‘ رشتہ دار کون ہوں گے‘اور تو اور وہ اپنا نام بھی نہیں رکھ سکتا۔ ملک‘ نسل‘ رنگ یا زبان کا چوائس اس کے پاس نہیں ہوتا۔یہ چند ایسی بنیادی چیزیں ہیں جو اس کے بس سے باہر ہیں۔ اسے جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر زندگی گزارنی ہے۔ انہی رشتوں کیساتھ ہی ایڈجسٹ کرنا ہوگا۔ لیکن جن چیزوں پر انسان کو کنٹرول ہے وہ دو ہیں: دوست اور بیوی/میاں کس کو بنانا ہے۔یہ سب باتیں مجھے بلاول بھٹو کی تقریر سن کر یاد آرہی ہیں۔ انہوں نے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے واحد کلین نوجوان سیاستدان ہیں جن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں‘ لہٰذا اگر انہیں وزیراعظم بنایا جائے تو وہ پاکستان کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ یقینا بلاول خود کلین ہوں گے لیکن وہ یہ بات اپنے والد یا پارٹی لیڈروں بارے نہیں کہہ سکتے۔
بلاول آج کل بار بار خود کو وزیراعظم کے طور پر پیش کررہے ہیں‘ حالانکہ انہیں علم ہے کہ ابھی انکا وقت نہیں آیا۔یہ بات آپ اور میں نہیں کہہ رہے بلکہ بلاول کے والد آصف زرداری کہہ رہے ہیں کہ ابھی ان کا بیٹا انڈر ٹریننگ ہے۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ بیٹا وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار ہے اور باپ کہتا ہے کہ اس کی باتوں کو سیریس نہ لیں‘ بچہ ہے۔ شاید بلاول کے ذہن میں اپنی والدہ بینظیر بھٹو اور نانا ذوالفقار علی بھٹو کی تاریخ موجود ہے۔ دونوں جوانی میں ہی وزیراعظم بن گئے تھے۔ بھٹو اگر چالیس‘ اکتالیس سال کی عمر میں وزیراعظم بنے تو بینظیر بھٹو پینتس‘ چھتیس برس کی عمر میں۔ مطلب بھٹوز چالیس سال تک پہنچتے ہی وزیراعظم بن جاتے ہیں۔ ممکن ہے بلاول کے ذہن میں اپنی والدہ اور نانا کی عمریں ہوں جب وہ وزیراعظم بنے تھے‘ لیکن کیا حالات اس طرح کے ہیں کہ وہ اگلے چند برس میں‘ چالیس سال کی عمر تک وزیر اعظم بن چکے ہوں گے؟ابھی تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس بات کا ادراک کسی اور کو ہو یا نہ ہو آصف زرداری کو ضرور ہے کہ اس وقت گیٹ نمبر چار پر ان کا نام اندر جانے والوں میں شامل نہیں ۔اس وقت وہاں موجود رجسٹر پر کسی اور کا اجازت نامہ موجود ہے‘ لہٰذا بلاول اب اشاروں کنایوں میں کہہ رہے ہیں کہ ہم گیٹ نمبر چار والے نہیں ہیں۔ کبھی اس گیٹ کی چوکیداری کا ٹھیکہ شیخ رشید نے لے رکھا تھا اور بڑے فخر سے اپنا تعلق بتا کر اپنے سیاسی مخالفوں کا تراہ نکالتے تھے اور پیر پگاڑاکی خالی کی ہوئی سیٹ پر قبضہ کر کے اس انداز میں سیاسی پیش گوئیاں کر کے اپنا کام چلاتے تھے‘ لیکن اب لگتا ہے بدلتے وقت کے ساتھ شیخ رشید گیٹ کے چوکیدار کے بجائے خود کو مالک سمجھ بیٹھے اور گیٹ کے مالکوں کے مخالفوں کیساتھ پینگیں بڑھا بیٹھے ‘ یوں انہیں چلہ کاٹنا پڑ گیا۔ اب بلاول کو پتہ ہے کہ گیٹ چار پر کسی اور کی انٹری ہونی ہے لہٰذا وہ اس وقت افورڈ کرسکتے ہیں کہ نواز شریف کیمپ پر حملے جاری رکھیں۔ یوں وہ اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر کرسکتے ہیں۔ وہ سب کو تاثر دے سکتے ہیں کہ وہ مقتدرہ کے سائے تلے سیاست نہیں کررہے‘ جس کا الزام نواز شریف پر لگ رہا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ نواز شریف ہوں یا ان کا کیمپ‘ وہ بھی اس تاثر کو دور کرنے کی بالکل کوشش نہیں کررہے بلکہ وہ ہر بات پر جواب دیتے ہیں ''ساڈی گل ہوگئی اے‘‘مطلب یہ کہ وہ بیوروکریسی اور میڈیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ ہماری بڑوں سے بات ہو گئی ہے‘ آئندہ حکومت ہماری ہے لہٰذا بہتر ہے کہ ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے اور رکاوٹیں کھڑی نہ کریں۔ اس لیے جو لوگ (ن) لیگ کے لیڈروں کے اس بیان کا مذاق اڑاتے ہیں کہ ان کا منشور آج کل ایک ہی ہے کہ ساڈی گل ہو گئی اے‘ وہ بیوقوف ہیں۔ اس ڈیل کے تاثر کا انہیں بڑا فائدہ ہوگا جو الیکشن کے دنوں میں نظر آئے گا کیونکہ بیوروکریسی کو میسج جارہا ہے کہ فروری کے بعد انہوں نے ڈپٹی کمشنر ‘ ڈی پی او یا سیکرٹری لگنے کیلئے کس کو انٹرویو دینا ہے یا کسی کی سفارش پر پوسٹنگ یا پروموشن ہونی ہے لہٰذا تعاون کریں۔ میڈیا بھی ایسے مواقع پر ہوا کا رُخ دیکھ کر چلتا ہے۔ عوام بھی ہوا کا رُخ دیکھتے ہیں کہ کس کی حکومت آرہی ہے جس میں ان کے کام ہوں گے۔ یوں ایک تیر سے کئی شکار کیے جا رہے ہیں کہ ساڈی گل ہوگئی اے۔بلاول کو بھی علم ہے کہ نواز شریف کی بات ہوگئی ہے لہٰذا وہ اب نئی گفتگو کررہے ہیں کہ وہ واحد سیاستدان ہیں جو کرپٹ نہیں۔
تو کیا بلاول یہ بات اپنی پارٹی کے لیڈروں سمیت اپنے والد بارے بھی کہہ رہے ہیں جن پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں یا نواز شریف ہی ان کا نشانہ ہیں؟ بینظیر بھٹو نے بھی سنگین الزامات کا سامنا کیا۔ جنیوا تک ٹرائل ہوا۔ نواز شریف ہوں یا مریم نواز انہوں نے بھی جیلیں بھگتی ہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز منی لانڈرنگ کیس میں کئی ماہ جیلوں میں قید رہے‘ شہباز شریف نے جس دن وزیراعظم کا حلف اٹھایا وہ اس کیس میں ضمانت پر تھے۔ عمران خان کبھی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ اکیلے سیاستدان ہیں جو کرپٹ نہیں ہیں‘ ان کے مخالفین ان پر ہر قسم کے الزام لگاسکتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھاکہ وہ مالی طور پر بدعنوان تھے۔ لیکن پھر توشہ خانہ کیس اور القادر ٹرسٹ سکینڈلز نے عمران خان کا یہ امیج بھی توڑا کہ وہ واحد کلین سیاستدان ہیں۔
بلاول کی بات اپنی ذات تک تو مانی جاسکتی ہے لیکن وہ جس سیاسی وراثت کو لے کر سیاست میں آگے بڑھ رہے ہیں‘ اسے کرپشن فری نہیں کہا جا سکتا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ بلاول کا کوئی قصور نہیں اگر زرداری پر کرپشن کے مقدمات بنتے رہے‘ لیکن کیا کریں بلاول ہی اس تمام جائیداد کے مالک ہیں‘ وارث ہیں‘ جس کی بنیادپر زرداری کو کرپشن مقدمات کا سامنا تھا۔ اگر بلاول بھٹو کے گوشوارے دیکھ لیں تو اندازہ ہوگا کہ انہیں اپنے والدین سے وہ سب جائیداد ملی ہے جس پر سنگین سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ اب بلاول میں اتنی جرأت یقینا نہیں تھی کہ وہ اپنے باپ کی دی ہوئی جائیداد سے یہ کہہ کر پیچھے ہٹ جاتے کہ اس دولت پر بڑے سنگین الزامات ہیں۔ اگرچہ بہت سے لوگ کہیں گے کہ یہ کیا بیوقوفانہ سی بات ہے‘ کون بیٹا اپنے والد کی دی ہوئی جائیداد سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے؟
یاد آیا 2014ء میں میاں مشتاق بھائی نے نیویارک آئی لینڈ میں اپنے گھر ایک سچا واقعہ سنایا جس کے وہ چشم دید گواہ تھے۔ برسوں گزر گئے لیکن وہ واقعہ آج تک دل و دماغ سے نہیں اُترا۔بتانے لگے کہ پاکستان سے ایک پولیس افسر کا بیٹا نیویارک پڑھنے آیا۔ اسے کچھ ماہ بعد احساس ہوا کہ یونیورسٹی کی جو فیس ڈالروں میں دی گئی تھی اور ہر ماہ جو ڈالروں میں خرچہ مل رہا تھا اتنی آمدن تو اس کے باپ کی پاکستان میں نوکری سے نہیں تھی۔ اس نے ایک دن باپ کو کہا کہ میں اب نیویارک کے کسی ہوٹل میں کام کر لوں گا اور اپنا تعلیمی خرچہ پورا کروں گا‘آپ کے پیسوں سے نہیں پڑھوں گا کیونکہ آپ حلال پیسہ نہیں کما رہے‘ مظلوموں پر ظلم کررہے ہوں گے یا ظالموں کا ساتھ دے کر دولت کما کر مجھے بھیج رہے ہوں گے۔ مجھے آپ کا یہ پیسہ نہیں چاہئے۔واقعہ سن کر پتہ نہیں کتنی دیر تک مشتاق بھائی کے گھر کے ڈرائنگ روم میں اُس رات ایک طویل خاموشی کا راج تھا۔کیا اس دنیا میں واقعی ایسے بچے بھی پیدا ہوتے ہیں جو باپ کی دولت اور جائیداد سے خود کو یہ کہہ کر دور کر لیں کہ اس پر ان کا حق نہیں بنتا تھا کیونکہ وہ ناانصافی اور دوسروں پر ظلم کر کے کمائی گئی تھی۔