سردیوں کے موسم میں لانگ واک کا بھی اپنا مزہ ہے۔ اسلام آباد کی کچھ سڑکیں اور فٹ پاتھ ابھی ایسے ہیں جہاں آپ پیدل چل سکتے ہیں۔ میں دسمبر کے دنوں میں اس سہولت کا فائدہ اٹھا لیتا ہوں۔ بلیو ایریا میں جناح ایونیو پر پیدل چلتے ہوئے مجھے پاک سعودی ٹاور کے قریب ایک گاڑی نظر آئی جس کا ایک ٹائر غائب تھا اور اس میں بھاری سامان لدا ہوا تھا۔ گاڑی کی حالت بہت خستہ تھی اور لگتا تھا کہ کوئی اسے کباڑ خانے سے اٹھا کر لایا تھا۔ گاڑی شاید خراب ہو چکی تھی اور سڑک کے عین وسط میں بند کھڑی تھی۔ اس کی بیک لائٹس بھی نہیں تھیں۔ ذہن میں رہے کہ اُس وقت رات کے نو بجے تھے جب میں اس گاڑی کے قریب سے گزرا۔ گاڑی کے پیچھے اس کا ٹائر رکھا ہوا تھا۔ میں نے غور کیا تو گاڑی کی نمبر پلیٹ تک بھی نہیں تھی۔ کچھ حیران ہوا کہ بغیر نمبر پلیٹ کباڑ خانے کی گاڑی اسلام آباد میں داخل کیسے ہو گئی۔ نہ صرف داخل ہو گئی بلکہ رات کے نو بجے شہر کی سب سے معروف و مصروف سڑک کے درمیان میں خراب کھڑی تھی۔ اس کے دائیں بائیں سے تیز رفتارگاڑیاں گزر رہی تھیں۔ لگتا تھا کہ اس کباڑ گاڑی کا مالک یا ڈرائیور کسی مکینک کو بلانے گیا ہوا تھا۔ میں نے اس گاڑی کو وہاں کافی دور سے دیکھا تھا۔ خیر میں کچھ دیر رکا اور دعا کرتا آگے چل پڑا کہ اللہ کرے کوئی تیز رفتار گاڑی اس میں سیدھی نہ آ کر لگے اور اگر اس کے پیچھے بھی گاڑیاں ہوئیں تو مزید گاڑیاں یہاں ٹکرائیں گی۔ مجھے اس وقت کچھ نہ سمجھ آئی کہ کیا کروں۔ اس وقت کسی دوست کا فون آیا تو میں اس میں لگ گیا اور آگے چل پڑا۔ بیس تیس منٹ بعد واپس وہیں سے گزرا تو حیران ہوا کہ وہ گاڑی وہیں کی وہیں کھڑی تھی۔ اب مجھ سے آگے نہ چلا گیا۔ میں نے اس وقت اس کی تصاویر بنائیں اور انہیں فوراً ٹویٹ کیا اور ساتھ میں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور اسلام آباد پولیس کو ٹیگ کیا کہ یہ گاڑی کسی بھی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ یہ رات کو سڑک کے درمیان پارک ہے اور اگر کسی بھی ڈرائیور کا ذرا بھی دھیان ہٹا تو وہ سیدھا اس گاڑی میں جا لگے گا۔
خیر اس ٹویٹ پر اسلام آباد ٹریفک پولیس نے فوراً رسپانس کیا اور کچھ دیر بعد پولیس وہاں پہنچی اور اس گاڑی کو سڑک کے درمیان سے ہٹا کر سائیڈ پر کیا اور ساتھ میں سرخ رنگ کے نشان بھی وہاں رکھ دیے تاکہ تیز رفتار گاڑیاں دور سے دیکھ سکیں۔یہاں تک میں اسلام آباد پولیس اور ان کے افسران کا شکر گزار ہوں کہ وہ ایک ٹویٹ پر ہی متحرک ہو گئے اور فوراً موقع پر پہنچے۔ اب اس پورے ایشو کو ایک اور انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہم کس مزاج کے لوگ ہیں۔ ہم دن رات خود کو کوستے رہتے ہیں کہ اب تک ہم ایک عظیم قوم کیوں نہیں بن سکے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ حیران ہوں کہ یہ بھی کوئی بات ہے جس پر آپ پورا تھیسز بنا کر آ گئے ہیں‘ لیکن اگر آپ اس معاملے کی تفصیل میں جائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایسے چھوٹے چھوٹے معاملے ہی آپ کے مجموعی قومی مزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ لوگوں کو جج کرنا ہو تو انہیں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے جج کیا کریں۔ بڑی باتیں یا بڑے کام تو اکثر لوگ دکھاوے کیلئے کرتے ہیں۔ وہ یہ کام اچھا کرنے کی اداکاری کرتے ہیں تاکہ وہ دوسروں کو متاثر کر سکیں‘ لیکن چھوٹی چھوٹی حرکتیں آپ سے بس سرزد ہو جاتی ہیں جن پر آپ کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ اور یہی اچھی یا بری حرکتیں بندے کا پتہ بتا دیتی ہیں۔
دو تین گھنٹے سے روڈ کے درمیان کھڑی گاڑی کے پیچھے چھپی اپنی سستی اور کاہلی کو ذرا اوپر کے لیول تک لے کر جائیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ کئی گھنٹوں سے ایک کباڑ ٹائپ گاڑی دارالحکومت کی مصروف ترین شاہراہ کے درمیان میں خراب کھڑی ہے اور کسی کو کوئی پروا نہیں۔ سب سے پہلے تو سیف سٹی ہیڈ کوارٹرز کو اس مشکوک گاڑی کو کیمرے سے دیکھ کر فوراً خبردار ہو جانا چاہیے تھا۔ مان لیا یہ گاڑی دہشت گردی کی کسی کارروائی کے لیے نہیں کھڑی ہو گی لیکن ایک مصروف سڑک کے درمیان کافی دیر سے کھڑی تھی اور کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی تھی۔ بے گناہ لوگ مارے جا سکتے تھے‘ محض کسی ڈرائیور کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے یا پھر ہمارے خیال میں مرنے کے لیے دہشت گردی ہونا ہی ضروری ہے؟ کوئی بھی ذمہ دار بندہ سیف سٹی ہیڈ کوارٹرزمیں بیٹھا ہوتا تو یقین کریں وہ تڑپ جاتا اور فوراً ایمرجنسی الرٹ جاری کرتا‘ پولیس کو کال کرتا۔ لیکن وہی بات کہ کوئی اپنا کام کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ دو دن پہلے ہی ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں نے پچیس جوانوں کو شہید کیا ہے۔ ملک بھر میں دہشت گردی پھر سر اٹھا چکی ہے اور ہماری فورسز اور ایجنسیاں ایک نئے چیلنج کا سامنا کر رہی ہیں۔ دہشت گرد اب کے پی اور بلوچستان سے باقی ملک میں پھیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسلام آباد بھی بڑے عرصے تک دہشت گردی کا شکار رہ چکا ہے۔ اُن خود کش حملوں میں بھی کئی شہریوں اور پولیس فورس کے نوجوانوں نے جانیں گنوائیں۔ اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ بارود سے بھرا ایک ٹرک ہوٹل کے مین گیٹ پر پھٹا اور کئی جانیں لے گیا۔ پاکستان اور اسلام آباد اس حادثے سے بڑے عرصے تک نہ سنبھل سکے۔ پورے ملک نے دہشت گردی بھگتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً نوے ہزار سے زائد شہری اور فورسز کے نوجوان دہشت گردی کی نذر ہو چکے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اسی جگہ‘ جہاں پاک سعودی ٹاور کے سامنے یہ گاڑی سامان سے لدی کھڑی تھی‘ برسوں پہلے ایک گاڑی پکڑی گئی تھی جس میں راکٹ لانچر تھے۔ مقصد اسلام آباد کی اہم عمارتوں پر حملہ کرنا تھا۔
سب سے پہلے تو اسلام آباد کی پولیس اور سکیورٹی کو ایکٹو ہونا چاہیے تھا کہ ملک میں دہشت گرد پھر سر اٹھا رہے ہیں اور کہیں اس شہر پر کوئی حملہ نہ ہو۔ شہر کے آنے اور جانے والے راستوں پر چیکنگ اور سختی ہونی چاہیے تھی۔سیف سٹی کیمروں کا استعمال زیادہ ہو جانا چاہیے تھا۔ ایک ریپڈ رسپانس فورس بننی چاہیے تھی جس کا کنٹرول/ لِنک وزارتِ دفاع میں قائم سیف سٹی ہیڈ آفس کے پاس ہوتا۔ شہر میں لگے کیمروں کی مدد سے پولیس کو الرٹ کیا جاتا کہ فلاں جگہ کوئی ایشو ہورہا ہے یا سڑک پر ایسے کام ہورہے ہیں جو خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب چوہدری نثار علی خان وزیرداخلہ بنے تو اس وقت ایک نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا جس میں ایک ریپڈ رسپانس فورس کا قیام بھی شامل تھا‘ لیکن اسحاق ڈار نے اس فورس کے قیام کیلئے پیسے دینے سے انکار کر دیا اور آج تک وہ فورس نہیں بن سکی۔ اب بھی شہر میں کوئی ڈاکا پڑے‘ گاڑی چوری ہو یا سڑکوں پر تیز رفتار گاڑیاں ریس لگاتی پھریں‘ آپ کو کہیں پولیس نظر نہیں آئے گی۔
افسوس کہ ملک میں نوے ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کی نذر ہو گئے لیکن ہمارے رویے نہ بدلے۔ ہم آج بھی چیزوں کی تفصیل میں جا کر انہیں حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ امریکہ میں گیارہ ستمبر ایک دفعہ ہوا انہوں نے پھر نہیں ہونے دیا۔ ہمارے ہاں برسوں سے دہشت گردی ہورہی ہے۔ دہشت گردوں کو ہر دور میں اس قوم اور اس کے رہنماؤں سے ہمدردی مل جاتی ہے جیسے آج کل پھر ہمدردی کا دورہ سوار ہو رہا ہے۔ کیا کریں‘ ہم سب نالائقوں کو اپنے قاتلوں سے پیار ہے۔ پہلے بھی ان دہشت گردوں کی محبت میں نوے ہزار لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں اور اب سروں کی ایک اور خونیں فصل کٹنے کو تیار ہے۔