پاکستان جیسے ملکوں میں اگر آپ بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو کچھ باتوں کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ سب سے پہلے تو آپ کردار کشی کے لیے تیار رہیں۔ آپ کی بھی ہوگی اور آپ بھی دوسروں کی کریں گے۔ شروع میں آپ سے زیادہ سمجھدار لوگ آپ کو استعمال کریں گے اور پھر کچھ عرصے بعد آپ بھی یہ سیکھ لیں گے ۔ سب سے بڑھ کر‘ آپ نے خود بھی جیل جانا ہے اور موقع ملنے پر اپنے مخالفین کو بھی جیل میں ڈالنا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اقتدار حاصل کرتے کرتے اتنے دور نکل جائیں کہ ایک دن بھٹو کی طرح پھانسی پر لٹکا دیے جائیں، نواز شریف کی طرح آپ کو دہشت گرد قرار پا کر عمر قید اور دس سال کے لیے جلاوطنی اختیار کرنی پڑے یا زرداری کی طرح چودہ سال جیل بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔ بینظیر بھٹو کی طرح آپ سرعام قتل بھی کیے جاسکتے ہیں۔ گیلانی، شہباز شریف، راجہ پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی ( سب وزیراعظم بنے) کی طرح جیلوں میں عرصہ گزارنا پڑ سکتا ہے۔تو کیا عمران خان کا جیل جانا کوئی بہت غیرمعمولی بات ہے جو اس سے پہلے نہیں ہوئی اس لیے ہر کوئی غمزدہ ہے جیسے انہونی ہو گئی؟
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کو ان کے فین کلب نے قائداعظم ثانی کا لقب دیا ہوا تھا۔ ان کے ذہن میں تھا کہ عمران خان شریفوں، زرداریوں یا دیگر سیاستدانوں سے مختلف انسان اور لیڈر ہیں۔اوپر سے عمران خان کا امیج سوشل میڈیا ٹیموں نے ایسے بنایا کہ اگر آپ لوگوں نے زندہ قائداعظم دیکھنا ہے تو خان کو دیکھ لیں۔ عمران خان کی تصویریں فوٹو شاپ کر کے قائداعظم سے ملتی جلتی بنا کر سوشل میڈیا پر پھیلائی گئیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں بٹھایا جائے کہ قائد اعظم نے پاکستان بنایا تھا، عمران خان پاکستان بچائے گا۔ قائداعظم جیل نہ گئے جبکہ ان کے حریف گاندھی جی اور نہرو صاحب کا جیلوں میں آنا جانا لگا رہتا تھا اس لیے سب کا خیال تھا کہ خان بھی قائد کی طرح کبھی جیل نہیں جائے گا۔ ویسے بھی خان صاحب پر وہ الزامات نہ تھے جو نواز شریف اور زرداری پر تھے‘ لہٰذا کسی نے نہ سوچا تھا کہ وہ جیل جا سکتے ہیں یا کس مائی کے لعل میں جرأت ہے کہ وہ عمران خان کو ہاتھ لگا سکے ۔ عمران خان اور ان کا فین کلب بھول گیا کہ بھٹو جیسا طاقتور شخص بھی پھانسی لگ گیا تھا۔
اس بحث میں جائے بغیر کہ عمران خان کو غلط یا درست جیل میں ڈالا گیا ، اب سوال یہ ہے کہ خان جیل میں کیا سیکھ کر باہر نکلے گا؟ خان تبدیل ہو کر باہر نکلے گا‘ وہ نیلسن منڈیلا بن کر واپس آئے گا اور اپنے مخالفوں کو معاف کر کے نئی سیاسی زندگی شروع کرے گا یا وزیراعظم بن کر انتقام لے گا؟
یہ ایک دلچسپ بحث ہے۔ لیکن عمران خان کے بارے میں جیل سے جو خبریں آرہی ہیں وہ کوئی حوصلہ افزانہیں۔مبینہ طور پر پچھلے ہفتے جیل میں جب الیکشن کمیشن کے چارارکان الیکشن کمیشن کی توہین کیس کی سماعت کررہے تھے جس میں عمران خان اور فواد چوہدری پر فردِ جرم عائد گئی تو سابق وزیراعظم بھڑک اٹھے اور انہوں نے ممبرز کو دھمکی دی کہ وہ سب کی شکلیں جانتے ہیں اور وہ باہر نکل کر ان پر آئین سے غداری کے مقدمے چلائیں گے جن کی سزا موت ہے۔ عمران خان سندھ سے تعلق رکھنے والے ممبر کو مارنے کے لیے آستینیں چڑھا کر آگے بڑھے تو وکیلوں اور دیگر افراد نے انہیں روک لیا۔ عمران خان کی بہنوں نے اس موقع پر اپنے بھائی کو سنبھالا۔ عمران خان بارے بتایا گیا کہ انہوں نے ممبرزکو گالیاں بھی دیں۔اس واقعے سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ یقینا عمران خان منڈیلا بن کر باہر نہیں آئے گا۔انہیں موقع ملا تو وہ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کی طرح وزیراعظم بن کر اپنے مخالفوں ساتھ سکور سیٹل کرے گا۔ بھٹو صاحب نے بھی اپنی جان اس وقت خطرے میں ڈال دی تھی جب انہوں نے جنرل ضیاکو اس سے ملتی جلتی دھمکی دی تھی کہ وہ اسے نہیں چھوڑے گا۔ یوں جنرل ضیاکو واضح پیغام تھا کہ اگر بھٹو بچ گیا تو وہ اسے لٹکا دے گا۔ یوں سمجھدار لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو ۔ اگر بھٹو اس وقت جنرل ضیاکو دھمکی نہ دیتے تو ضیاکے ذہن میں بھٹوکو ختم کرنے کا خیال نہ آتا۔اس طرح جیل سے نکلنے کے بعد نواز شریف وزیراعظم بن کر پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کرنا چاہ رہے تھے کیونکہ مشرف نے انہیں جیل میں ڈالا تھا‘اور پھر جنرل راحیل کے ساتھ اس بات پر پھڈا ہوا اور آخرکار ڈان لیکس سامنے آئی اور ہم سب انجام جانتے ہیں کہ نواز شریف تیسری دفعہ جیل جا بیٹھے۔
الیکشن کمیشن کے ممبران کو گالیاں، مارنے کی کوشش اور غداری کیس بنا کر پھانسی لگانے کی دھمکیاں دے کر تاریخ دہرا رہے ہیں؟ وہ یہی پیغام بھیج رہے ہیں کہ اگر وہ باہر آئے اور وزیراعظم بن گئے تو کسی کی خیر نہیں؟سوال یہ ہے کہ آپ جیل میں کیا سیکھتے ہیں؟ آصف زرداری نے 2003 ء میں احتساب عدالت پنڈی میں عدالت کے احاطے میں گرمیوں کے دنوں میں ایک درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھے ہوئے میرے اس سوال کے جواب میں کہ جیل نے انہیں کیا سکھایا ، ایک ہی لفظ بولا تھا: جیل نے انہیں صبر سکھایا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شروع میں بندہ خود کو پھنے خان سمجھتا ہے کہ وہ ملک کا صدر، وزیراعظم یا وزیراعظم کا خاوند ہے اور جیل عملہ کو اپنا ملازم‘ لیکن کچھ عرصے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ تو پوری جیل کا عملہ چھوڑیں ایک سپاہی کے رحم و کرم پر ہے جو سیل کے باہر ڈیوٹی پر ہے۔ وہ چاہے تو اسے سکون سے سونے دے ورنہ آتے جاتے سلاخوں پر اپنا ڈنڈامار کر آواز پیدا کرتا جائے، بوٹ زمین پر زور سے مارتا جائے یا زور سے کھانس دے، بتی نہ بجھائے تو آپ اس کا کیا بگاڑ لیں گے۔ جیل آپ کو سمجھوتے کرنے پر مجبور کر دیتی ہے چاہے آپ کتنی بڑی توپ چیز کیوں نہ ہوں۔ سب سے پہلا سمجھوتہ آپ سیل کے باہر موجود سپاہی سے کرتے ہیں اور اس کی اتھارٹی کو مان کر جیل کے دن گزارنے کا فن سیکھتے ہیں۔ خود کو یقین دلاتے ہیں کہ اب کسی سے لڑنے جھگڑنے کا وقت نہیں ہے۔ اب انتظار کا وقت ہے کہ اپنا وقت بھی آئے گا۔
اگر دیکھا جائے جنہوں نے جیل میں رہ کر صبر کرنا سیکھا وہی اقتدار میں واپس آئے۔ خان بارے کچھ دن پہلے حامد میر کے ساتھ انٹرویو میں زرداری صاحب نے کہا تھا کہ عمران خان کو تو ابھی سال پورا نہیں ہوا، جیل تو دو سال بعد پوچھنا شروع کرتی ہے کہ ہاں میاں کیا حال ہے۔ وہی ہوا کہ عمران خان اب ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد غصے اور ڈپریشن کا شکار ہورہے ہیں اور الیکشن کمیشن ارکان کو دھمکیاں‘ گالیاں اور وزیراعظم بن کر ان پر آئین سے غداری کے مقدمات چلا کر سزائے موت یا عمر قید دلانے کی دھمکیاں ان کا مائنڈ سیٹ واضح کررہی ہیں۔ وہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ ان جیسا لیڈر اور سابق وزیراعظم اس طرح بے بس کر کے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ نو ماہ جیل گزارنے کے بعد بھی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔
یقینا عمران خان اس وقت شدید سٹریس میں ہیں۔ انہیں اس وقت آصف زرداری سے ایک ہی بات سیکھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے وہ اپنے سیل کے باہر سپاہی کے ساتھ وقت گزارنا سیکھیں۔ وہ کہتے ہیں اچھی چیزیں ان لوگوں کو ملتی ہیں جو انتظار کرتے ہیں،صبر کرتے ہیں۔ خان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا لیکن جب صبر بانٹا جارہا تھا تو وہ اپنی بے صبری کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں سے اُٹھ کر چل دیے۔ اور آخر کار یہی بے صبری انہیں اڈیالہ جیل تک لے گئی۔