ایران کا حملہ اتنا غیرمتوقع تھا کہ پاکستانیوں کیلئے یہ ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ واقعی ایران نے پاکستان کے اندر میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔ جب یہ خبر بریک ہوئی تو میرا بھی کئی پاکستانیوں کی طرح خیال تھا کہ ایران تھوڑی دیر بعد اس خبر کو جھوٹا قرار دے دے گا یا بتائے گا کہ یہ حملہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ تھا یا میزائل مِس فائر ہو گیا تھا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو قمر جاویدباجوہ جب آرمی چیف تھے تو ایک انڈین میزائل پنجاب کے ایک شہر کے قریب گرا تھا۔ اس پر انڈیا نے معذرت کی تھی کہ دراصل سب کچھ غلطی سے ہو گیا تھا۔ اگرچہ اس پر بھی کئی سوالات اٹھے تھے کہ کیا میزائل کا فائر ہونا واقعی غلطی تھی یا انڈیا پاکستان کا دفاعی نظام چیک کرنا چاہتا تھا کہ وہ کتنا ایکٹو ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہیکہ ہم پاکستان کی طرف آتے جہاز یا میزائل پہلے سے Detect نہیں کر سکے اور ایرانی میزائل اس سلسلے کی ایک اور کڑی ہے۔ تو کیا ایران نے بھی امریکہ اور ہندوستان کی مثالوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم پر میزائل داغ دیے جس میں کچھ معصوم بچے جاں بحق ہوئے ہیں۔
تہران کا کہنا ہے کہ کچھ دہشت گرد گروپس پاکستان کی سرزمین استعمال کرکے ایران کے اندر حملے کر رہے تھے۔ انہوں نے صرف پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ شام اور عراق کے اندر بھی ایسے گروپس کے خلاف میزائل داغے ہیں۔ ایران ان گروپس کو اسرائیل کی پراکسی قرار دے رہا ہے۔ ایران نے دراصل امریکی انداز میں حملے کیے ہیں۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ جس ملک سے انہیں خطرہ محسوس ہو گا کہ وہاں سے امریکہ پر حملہ ہو سکتا ہے یا وہاں ان کے مفادات انڈر اٹیک ہیں تو وہ ڈرون یا میزائل سے حملہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ شاید ایرانی بھی اب یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امریکہ دنیا کے مختلف حصوں خصوصاً افغانستان‘ پاکستان‘ شام‘ یمن‘ عراق اور دنیا کے دیگر حصوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے اور اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تو یہ کام ایران کیوں نہیں کر سکتا جو خود کو امریکہ کی طرح مختلف گروپس کے ہاتھوں دہشت گردی کا شکار سمجھتا ہے۔ مطلب اب دنیا کا اصول یہ بن چکا ہے کہ پہلے کسی ملک کو بتاؤ کہ آپ کے ہاں پناہ لیے دہشت گرد ہمارے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘ آپ ان کے خلاف کارروائیاں کریں۔ اگر وہ ملک کارروائی نہیں کر پاتا اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو پھر اس وِکٹم ملک کو حق ہے کہ وہ ان گروپس کے خلاف اُس دوسرے ملک کے اندر جا کر کارروائی کرے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایران خود کو امریکہ کے ہم پلہ سمجھتا ہے جو جہاں چاہے کارروائی کر لے اور کسی کو جرأت نہ ہو کہ اُس پر واپس حملہ نہ کرے یا انگلی اٹھائے؟
مان لیا کہ ایران خود کو امریکہ کا ہم پلہ سمجھتا ہے اور تین ملکوں کے اندر حملوں سے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ اب کسی سے بھی لڑنے کو تیار ہے۔ لیکن کیا تہران نے یہ بھی سوچا ہے کہ ایسا کر کے اس نے دراصل اسرائیل اور امریکہ کا راستہ ہموار کیا ہے۔ دونوں ممالک بڑے عرصے سے ایران پر حملوں کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں کہ کس طرح ایران کی فوجی قوت کم کی جائے۔ مشرقِ وسطیٰ کے چند ممالک بھی ایران کی فوجی قوت سے خوفزدہ تھے اور وہ بھی امریکہ اور ایران کی ٹینشن میں سہارا ڈھونڈتے تھے۔ اگرچہ سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے بڑا قدم اٹھایا جب انہوں نے چین کی ثالثی میں ایران سے اپنی دشمنی ختم کی اور سفارتی تعلقات بحال کیے۔ لیکن ان حالات میں جب یوکرین جنگ کے بعد غزہ میں جاری اسرائیل کی بمباری خطے کو خطرناک جنگ کی طرف لے جا رہی ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اس جنگ کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اس وقت ایران نے تین مسلمان ملکوں کے اندر میزائل حملے کرکے اس خونی کشمکش پر پٹرول ڈالنے کا کام کیا ہے۔ ان حملوں سے سب سے زیادہ خوشی یقینا امریکہ اور اسرائیل کو ہوئی ہوگی کیونکہ انہیں علم ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ ایران کے خلاف کسی بھی حملے یا جنگ کا ساتھ دینے سے انکار کیا ہے۔ یہ دونوں ممالک ایران پر شام‘ یمن اور لبنان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کو فنڈنگ کرنے کا الزام لگاتے ہیں جو ایران نے اب پاکستان‘ شام اور عراق میں حملے کرکے لگائے ہیں۔ لیکن ایسا کرکے ایران نے اپنے لیے نیا گڑھا کھود لیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ایران نے کبھی پاکستان کی مدد نہیں کی۔ ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو آزادی کے بعد تسلیم کیا تھا۔ پاکستانی ترانہ تک فارسی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ شاہِ ایران نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی۔ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں بھی ایران نے پاکستان کی حمایت کی تھی بلکہ 1971ء میں بھارت کو پیغام دیا تھا کہ اگر مغربی پاکستان پر اندرا گاندھی نے حملہ کیا تو وہ حملہ ایران پر تصور کیا جائے گا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کی سفارتی خط و کتابت کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اُس دور میں پاکستان زیادہ تر رہنمائی ایران سے ہی لیتا تھا۔ 13ستمبر 1947ء کو ایران سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنے آئین اور قانون کی کاپی فراہم کرے۔ یہ کاپی ایک ماڈل آئین سمجھ کر مانگی گئی تھی۔ پاکستان ایران تعلقات اس وقت زیادہ بہتر ہوئے جب اسکندر مرزا حکومت میں آئے۔ وہ بنگال کے فیوڈل خاندان سے تھے اور ان کے ایران سے اچھے سفارتی تعلقات تھے۔ یہ تعلقات مزید اچھے تب ہوئے جب انہوں نے ایک ایرانی خاتون ناہید سے شادی کی۔ اس سے پہلے ناہید کی شادی ایک ایرانی دفاعی اتاشی سے ہوئی تھی جو کراچی میں تعینات تھا۔ دونوں کی ملاقات عشق میں بدلی اور ناہید نے پہلے شوہر سے طلاق لے کر اسکندر مرزا سے شادی کر لی۔ ناہید ایران کے مشہور سیاستدان اور رکنِ پارلیمنٹ تیمور کلائی کی بیٹی تھی۔ ناہید مرزا کی ایک اور کزن نصرت اصفہانی نے بعد میں ذوالفقار علی بھٹو سے شادی کی۔
1979ء میں شاہِ ایران کا تختہ اُلٹا تو نئے حکمرانوں نے پاکستان کی طرف پالیسی بدلی۔ شاہِ ایران نے پاکستان کیساتھ تعلقات کی نوعیت کچھ اور رکھی تھی لیکن نئے حکمرانوں نے اسے سیاسی رنگ دینا شروع کیا۔ شاہِ ایران کا کردار بڑے بھائی کا تھا جس نے پاکستان کی ہر مشکل میں مدد کی تھی اگرچہ اس میں ایران کے اپنے مفادات بھی تھے۔ تاہم 1971ء کی جنگ کے بعد شاہِ ایران کو لگا کہ شاید پاکستان اب قائم نہ رہ سکے۔ پاکستان ایران پر ایک کتاب میں مصنف Alex Vatanka لکھتا ہے کہ ایک وقت میں رضا شاہ پاکستان بارے یہ سوچنے لگا تھا کہ یہ ایک ایسا دوست ہے جس سے آپ مدد کی توقع رکھتے ہوں لیکن وہ الٹا آپ پر بوجھ بن جاتا ہے‘ تاہم شاہِ ایران نے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کو ایران کی فارن پالیسی کا اہم ستون بنایا۔ ہنری کسنجر سے ملاقات ہوئی تو شاہِ ایران نے اسے بتایا کہ وہ ہر صورت پاکستان کی مدد کریں گے۔ انڈیا کو پیغام بھیج دیا ہے کہ اب مغربی پاکستان پر حملہ ہوا تو ایران پاکستان کی ہر طرح سے مدد کرے گا۔ شاہ خود کو پاکستان کا محسن سمجھتا تھا جس نے اپنے ہمسائے کا خیال رکھنا ہے کیونکہ ایران کے اپنے مفادات بھی پاکستان کیساتھ جڑے ہوئے تھے‘ تاہم انقلابِ ایران کے بعد حالات بدل گئے۔ یہ ایک اور طویل کہانی ہے کہ اس میں کس کا قصور زیادہ ہے۔ پاکستان کا یا ایران کا۔
مجھے نہیں پتہ آج شاہِ ایران زندہ ہوتا تو ایران کے پاکستان کے اندر داغے گئے میزائل پر ہم پاکستانیوں کی طرح ششدر رہ جاتا یا بدلتے حالات میں وہ ایران کو حق پر سمجھتا۔ وقت کیسے بدل جاتا ہے کہ جس ایران کے بادشاہ نے بھارت کو دھمکی تھی کہ وہ پاکستان ساتھ شانہ بشانہ جنگ لڑے گا‘ آج اسی ایران سے پاکستان میں میزائل داغے گئے ہیں۔