اس دفعہ ملک واقعی بڑی مشکل میں ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی حالات بہت خراب رہے لیکن جو صورتحال اب بن چکی ہے‘ اس سے نکلنے کا راستہ واقعی نظر نہیں آرہا۔ ماضی میں ایسے حالات درپیش نہیں تھے۔ ہاں‘ 1970ء کے الیکشن کے بعد ایسی صورتحال بنی تھی اور اس کے نتائج ہم سب جانتے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جنہوں نے 2018ء میں خان کو جتوایا تھا‘ وہ اس دفعہ نواز شریف کو اُس طرح وکٹری دلوانے میں ناکام رہے۔ نواز شریف اور ان کے ساتھی اس خوش فہمی میں رہے کہ ساڈی گل ہوگئی اے۔ یہ مسیج بہت غلط گیا۔ لوگوں کو لگا کہ فیصلہ پہلے ہو چکا ہے‘ ان کی کیا اوقات ہے۔ اپنے تئیں یہ پالیسی تھی کہ سولہ ماہ کی حکومت‘ پھر لمبی نگران حکومت بنوانے کے بعد وہ بہ آسانی الیکشن جیت لیں گے۔
اپنی غلطیوں کی بدولت بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی نو مئی میں پھنس چکی تھی۔ مقتدرہ اور خان ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ مقتدرہ کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ شریفوں کو ہی آگے لایا جائے‘ ورنہ خان انہیں ٹکنے نہیں دے گا۔ یوں بانی پی ٹی آئی کا خوف دونوں کو قریب لے آیا۔ پی ڈی ایم حکومت نے ملکی اور عوامی مفادات کے علاوہ دیگر سب معاملات پر توجہ دی جن میں اپنے لیڈروں کے کرپشن کیسز کو ختم کرانا بھی شامل تھا۔ اسحاق ڈار‘ سلیمان شہباز اور دیگر کی لندن سے واپسی اور ضمانتیں۔ سب لیڈروں کو کلین چٹ ملتی گئی۔ اکیلے نواز شریف باقی بچے تھے‘ انہیں بھی پروٹوکول کے ساتھ لا کر کلین چٹ دے دی گئی۔ رہی سہی کسر بانی پی ٹی آئی کو الیکشن سے پہلے سزائیں دے کر پوری کر دی گئی۔ مقتدر افراد یہ بات سمجھنے میں ناکام رہے کہ اس ملک میں لوگ سیاسی لیڈروں کا انتخاب اس بنیاد پر نہیں کرتے کہ وہ بہت نیک اور پرہیزگار ہیں‘ وہ کرپٹ نہیں ہیں یا اخلاقی طور پر بہت اعلیٰ ہیں۔ لوگوں کو اخلاقی یا مالی طور پر وہی لیڈر کرپٹ نظر آتے ہیں جنہیں وہ پسند نہیں کرتے۔ جنہیں وہ پسند کرتے ہیں ان کی اخلاقی یا مالی کرپشن پر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اپنا اپنا لٹیرا سب کو پسند ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر شہری اور ووٹر یورپین معیار رکھتا ہے کہ جہاں لیڈر کی چھوٹی سی خبر یا سکینڈل اسے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیتے ہیں اور وہ عمر بھر شرمندگی کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں تو ہر لیڈر کرپشن یا اخلاقی الزامات پر وکٹری کا نشان بنا کر جیل جاتا ہے اور الیکشن جیت کر دوبارہ ملک کا حکمران بن جاتا ہے۔
حالیہ انتخابات کا سب سے زیادہ نقصان نواز شریف کو ہوا ہے۔ جن حالات میں وہ الیکشن جیتے ہیں‘ وہ بہت مشکوک ہیں۔ ان کے مخالفین الزام لگا رہے ہیں کہ وہ دونوں سیٹیں ہار رہے تھے۔ ان کی جماعت بمشکل ستر‘ اسی سیٹیں لے سکی ہے اور ان کے حتمی نتائج پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان حالات میں نواز شریف کے پاس دو‘ تین آپشنز ہی تھے کہ وہ اتنی کم سیٹوں کے ساتھ اپنی حکومت بنانے کا اہتمام ہی نہ کرتے۔ وکٹری سپیچ کی بجائے وہ یہ تقریر کرتے کہ وہ اپنی شکست مانتے ہیں اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار اپنی حکومت بنا لیں‘ ہم اپوزیشن میں بیٹھ جاتے ہیں لیکن وہی بات کہ مفت کی شراب بھلا کون چھوڑتا ہے۔ اقتدار آتا دیکھ کر وہ پھسل گئے۔ نواز شریف بھول رہے ہیں کہ وقت بدل چکا ہے‘ اٹھارہ سال کی عمر میں ووٹ ڈالنے کے حق نے نوجوانوں کو خان کے ساتھ کھڑا کر دیا ہے۔ اٹھارہ سال کا نوجوان اور خواتین کا ووٹ خان کو گیا ہے۔ اٹھارہ برس کا نوجوان ابھی ماں باپ کے خرچے پر کالج میں پڑھ رہا ہوتا ہے‘ اسے زندگی کے اتار چڑھائو کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اصل زندگی یونیورسٹی یا کالج سے نکلنے کے بعد شروع ہوتی ہے اور 25سال کی عمر تک وہ ایک مختلف انسان بن چکا ہوتا ہے کہ زندگی بہت کچھ سکھا چکی ہوتی ہے۔ فیصلہ سازی کچھ میچور ہو چکی ہوتی ہے لیکن نواز لیگ اس فیکٹر کو کبھی نہ فالو کر سکی کہ دس‘ بارہ کروڑ نوجوانوں کو وہ کیسے اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ انہوں نے ایک ہی نعرہ لگایا کہ ساڈی گل ہو گئی اے۔
پنجاب میں دیکھیں تو نواز شریف نے اس دفعہ وہ سیاسی محنت نہیں کی جو پہلے کبھی نظر آتی تھی۔ اندازہ کریں کہ وہ ملتان یا بہاولپور تک بھی جلسے کرنے نہیں گئے۔ بقول ہمارے صحافی دوست نصراللہ ملک کے انہوں نے سارا وقت لاہور میں پینل بنا کر ٹکٹوں کے بورڈ میں خرچ کیا۔ شاید ان کے ذہن میں یہی تھا کہ ان کو حکومت میں لانا اداروں کی ذمہ داری ہے یا مجبوری۔ وہی سب کچھ کریں گے اگر انہیں خان سے بچنا ہے۔ یوں نواز شریف یہ سوچ کر میدان میں اترے کہ وہ تو بنے بنائے وزیراعظم ہیں۔ دوسرا‘ وہ اقتدار اپنے گھر سے باہر نہیں جانے دیتے‘ جس سے نوجوان (ن) لیگ سے نالاں ہیں کہ یہ خاندان سب کچھ گھر میں رکھتا ہے۔ اگر بھائی نواز شریف وزیراعظم ہوں تو دوسرا بھائی شہباز شریف وزیراعلی پنجاب‘ اگر والد شہباز شریف وزیراعظم ہوں تو بیٹا حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب‘ اور اب اگر بھائی شہباز شریف وزیراعظم تو بیٹی مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب۔ اور سب سے بڑھ کر سمدھی اسحاق ڈار ہر دور اور ہر حکومت میں وزیر خزانہ‘ جن کا کام آئی ایم ایف کو دھمکیاں دینا ہے اور ڈالر کو 220روپے سے 300روپے سے اوپر لے جانا۔
دوسری طرف آصف علی زرداری نے سمجھداری دکھائی ہے۔ وہ سب کچھ خاندان میں نہیں رکھتے بلکہ بڑے عہدے بانٹتے رہتے ہیں۔ ان کی پارٹی کے اندر سب کو امید ہے کہ اگر مراد علی شاہ سندھ کا وزیراعلیٰ بن سکتا ہے تو کسی دن ان کی بھی قسمت کھل سکتی ہے۔ اگر یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بن سکتے ہیں تو ان کی لاٹری بھی نکل سکتی ہے۔ یوں ان کی پارٹی میں زرداری صاحب سے وفاداری کا عنصر زیادہ نظر آتا ہے۔ اگر نواز شریف صاحب کی پارٹی میں دیکھیں تو پہلے انہوں نے پرویز الٰہی کو لارا لگائے رکھا کہ آپ کو وزیراعلیٰ پنجاب بنائیں گے اور پھر یہی لارا انہوں نے چودھری نثار علی خاں کو لگایا۔ اب پنجاب میں شریف خاندان سے باہر وزیراعلیٰ بنانے کے بجائے مریم نواز کو وزیراعلیٰ بنایا جا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو چالیس سال سے زائد ایک ہی گھر میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے عہدے رہے ہیں جس سے نوجوان نسل میں ان کے خلاف سیاسی نفرت ابھری ہے جس کا خمیازہ وہ بھگت رہے ہیں۔ یوں دھیرے دھیرے نواز لیگ سے بڑے نام نکل گئے ہیں۔ پرویز الٰہی چھوڑ گئے‘ میاں اظہر چھوڑ گئے‘ چودھری نثار علی خاں‘ شاہد خاقان عباسی‘ مفتاح اسماعیل اور مہتاب عباسی پارٹی چھوڑ گئے کیونکہ انہیں وزارت سے آگے اپنا سیاسی مستقبل نظر نہیں آتا۔ سعد رفیق بھی کئی دفعہ ملتی جلتی باتیں کر چکے ہیں۔ اس دفعہ تو وہ الیکشن ہی نہیں لڑنا چاہتے تھے اور نواز شریف کو خود انہیں کہنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ الیکشن ہارے تو انہوں نے فوراً اپنی ہار تسلیم کر لی اور کسی رولے میں نہیں پڑے۔
اب باتیں ہو رہی ہیں کہ اسحاق ڈار کو سینیٹ کا چیئرمین بھی بنایا جا سکتا ہے۔ مطلب باپ‘ بیٹی‘ بھائی‘ بھتیجا اور سمدھی۔ سارے عہدے ایک ہی گھر میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔ جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہوتا ہے کہ اختیارات اور طاقت ایک جگہ اکٹھے نہ ہوں‘ سب ساتھ مل کر کھاؤ‘ سب کو حصہ دو‘ عوام کو بھی طاقت دو۔ جمہوریت صرف عوامی ڈکٹیٹر بننے کا نام نہیں ہے بلکہ عوامی خدمت اور اختیارات عوام کو واپس کرنے کا نام ہے جس میں شریف خاندان بری طرح ناکام رہا ہے۔ جمہوریت میں شکست ہوتی رہتی ہے اور بندے کو انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن اگر آپ شکست کھانے کے بعد بھی ہار نہیں مانتے تو پھر آپ اپنی برسوں کی سیاست کا بیڑا خود غرق کرتے چلے جاتے ہیں۔ پھر آپ یہ سوچ کر گھر بیٹھ جاتے ہیں کہ ساڈی گل ہو گئی اے۔ جب آپ عوام سے زیادہ ''ساڈی گل ہوگئی اے‘‘ پر بھروسا کرتے ہیں تو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے جو نکلا ہے کہ آپ کے آگے کنواں ہے اور پیچھے کھائی۔