اکتوبر 2002ء میں جب میں نے پہلی دفعہ پارلیمنٹ کی رپورٹنگ شروع کی تھی تو جو مناظر اُس وقت دیکھے تھے وہی مناظر 22 برس بعد‘ جمعرات 29 فروری 2024ء کو دیکھنے کو ملے۔ 2002ء میں جب نو منتخب ممبرانِ قومی اسمبلی نے حلف اٹھانا تھا تو نواز شریف جیل سے جدہ پہنچ چکے تھے اور الیکشن کے بعد ان کی جماعت کے کچھ اراکین ہی منتخب ہو کر اسمبلی پہنچ سکے تھے۔ چند ایک نے نواز شریف کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں اور اسمبلی میں ہلہ گلا اور شور شرابہ بھی کیا تھا۔ اُس اسمبلی میں عمران خان موجود تھے لیکن نواز شریف نہیں تھے۔آج عمران خان اسمبلی میں نہیں ہیں لیکن نواز شریف وہاں موجود ہیں۔ نواز شریف جب جیل میں تھے یا جلاوطن تھے تو ان کے حامی پارلیمنٹ میں ان کے حق میں نعرے لگاتے تھے۔ ان کے ایم این ایز ان کی تصاویر سینے سے لگائے پارلیمنٹ میں پھرتے اور ان سے اپنی وفاداری ثابت کرتے تھے۔ آج خان صاحب کی تصاویر پارلیمنٹ میں نظر آرہی ہیں۔ یہ تو سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ نہ چل سکے۔ اقتدار کا نشہ ہی کچھ ایسا ہے۔
دوسری طرف مجھے خان صاحب کی طرف سے آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط پر کچھ حیرانی ہو رہی ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ ماضی سے کچھ سبق سیکھے چکے ہوں گے۔ یہ تیسری دفعہ ہو رہا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے خود آئی ایم ایف سے ڈیل توڑی تھی جب وہ وزیراعظم تھے۔ بعد میں جب مفتاح اسماعیل دوبارہ ڈیل کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو انہوں نے شوکت ترین کو کہا کہ یہ ڈیل نہ ہونے دینا۔ اسد عمر نے جب وزیرِخزانہ بن کر آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا تو ڈالر 124 سے 150 روپے تک پہنچ گیا۔ بعد میں انہیں احساس ہوا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جا کر انہوں نے غلطی کی۔ خان صاحب نے جنوری 2022ء میں آئی ایم ایف پروگرام ختم کرنے کا جو حیران کن فیصلہ کیا تھا‘ اس کے اثرات سے پاکستان ابھی تک نہیں نکل سکا۔ شیخ رشید جب کہتے تھے کہ خان صاحب وزیراعظم کی سیٹ سے ہٹنے سے پہلے بارودی سرنگیں بچھا آئے تھے تو لوگوں کو سمجھ نہ آتی تھی کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ مطلب بڑا واضح تھا لیکن جب عقل پر پردہ پڑ چکا ہو تو پھر کچھ سمجھ نہیں آتا۔ خان صاحب کو اچھی طرح علم تھا کہ آئی ایم ایف ڈیل توڑنے سے ملکی معیشت اور عوام پر کیا برے اثرات مرتب ہوں گے۔ خان صاحب کو جب علم ہوا کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آرہی ہے تو انہوں نے فوری طور پر شوکت ترین کو حکم دیا گیا کہ پٹرول کی قیمت دس روپے کم کر دی جائے‘ اس سے آئی ایم ایف فوراً معاہدہ ختم کر دے گا کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ پٹرول پر سبسڈی نہ دینے کا معاہدہ طے پایا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ پٹرول پر سبسڈی کہاں سے دیں گے؟ فوراً ہی ترقیاتی فنڈز کے اڑھائی سو ارب روپے اٹھا کر پٹرول سبسڈی میں پھونک دیے گئے۔ آئی ایم ایف پیٹتا رہ گیا کہ یہ کہاں کا اصول ہے کہ پاکستان میں غیرملکی سفارتخانوں کی ہزاروں گاڑیوں کو بھی پاکستانی عوام کی جیب سے پیسے نکال کر سستا تیل دیا جا ئے۔ اشرافیہ کو بھی مہنگا پٹرول سستا کر کے بیچا جائے۔ لیکن خان صاحب نہ مانے اور یوں آئی ایم ایف ڈیل ٹوٹی اور فوراً ہی ڈالرز کو پر لگ گئے اور اگلے ایک ماہ میں ڈالر 188روپے تک پہنچ گیا۔ آئی ایم ایف کی ڈیل ٹوٹنے سے سارے سرمایہ کار ڈر گئے۔ عالمی اور ایشیائی بینک نے پروجیکٹ لون بند کر دیے جس سے پاکستان کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم رہتے تھے۔ڈالر مہنگا ہونے سے سب چیزیں مہنگی ہونا شروع ہوئیں کیونکہ پاکستان غذائی اجناس اور تیل تک سب کچھ امپورٹ کرتا ہے‘ یہ سب کچھ ڈالر میں خریدا جاتا ہے۔ یوں ڈالر کا ریٹ ڈسٹرب ہونے سے سب کچھ آسمان پر چلا گیا۔ اوپر سے روس یوکرین جنگ نے تیل اور خوراک کی قیمتوں کو آگ لگا دی۔ رہی سہی کسر اسحاق ڈار نے پوری کر دی جب وہ مفتاح اسماعیل کو ہٹوا کر خود وزیرخزانہ بنے۔ انہوں نے ستمبر 2022ء میں آئی ایم ایف سے ڈیل سائن کرنے کے بجائے چھ ماہ تاخیر کی جس سے ڈالر تین سو روپے کی حد عبور کر گیا۔ اب اگر ڈالر ایک جگہ رُکا ہے تو خان صاحب نے پھر وہی کوششیں شروع کر دی ہیں کہ آئی ایم ایف سے ڈیل طے نہ ہو۔ بہت سارے لوگ کہیں گے کہ کیا فرق پڑے گا اگر یہ ڈیل نہ ہو۔ اگر پاکستان ڈیفالٹ کر بھی گیا تو کیا ہو جائے گا؟
پہلی بات یہ ہے کہ خان صاحب اپنے دور میں امپورٹ کو 55‘ 60 ارب ڈالرز سے 80 ارب ڈالرز سالانہ تک لے گئے جبکہ ایکسپورٹ 31 ارب ڈالرز تھی۔ 30 ارب ڈالرز اوورسیز کے ملا کر کل 61 ارب ڈالرز تھے ہمارے پاس۔ اب بتائیں بیس ارب ڈالرز کہاں سے لائیں؟ پی ٹی آئی سے پہلے امپورٹ پچپن‘ ساٹھ ارب ڈالرز تھی۔ پچیس‘ چھبیس ارب ڈالرز ایکسپورٹ اور بیس‘ بائیس ارب ڈالرز اوورسیز بھیجتے تھے۔ یوں مل ملا کر تقریباً پچاس ارب ڈالرز ہو جاتے تھے۔ پانچ ارب ڈالرز کا گیپ قرضے لے کر پورا ہورہا تھا‘ لیکن جب خان صاحب نے امپورٹ بیس ارب ڈالر بڑھا دی تو ڈالرز پر دباؤ بڑھا اور یہ شارٹ ہونا شروع ہوا تو ہم نے چین‘ سعودی عرب‘ دبئی اور آئی ایم ایف کا رُخ کیا اور یوں قرضے بڑھے۔ ایکسپورٹس بھی پانچ‘ چھ ارب ڈالرز خان صاحب کے دور میں بڑھیں جب روپے کو 160روپے تک گرایا گیا لیکن ساتھ امپورٹس ہی بھی بیس ارب ڈالرز تک بڑھ گئیں اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ ڈیفالٹ سے کیا فرق پڑے گا؟ تسلی رکھیں‘ اس سے فرق ان طبقات کو نہیں پڑے گا جو کوشش کررہے ہیں کہ ملک جلدی ڈیفالٹ ہو جائے لیکن عوام مارے جائیں گے۔ ڈیفالٹ کا مطلب ہے کہ آپ کا پوری دنیا سے کاروبار ختم‘ لین دین ختم۔ آپ کے سٹیٹ بینک کے پاس ڈالرز نہیں ہوں گے اور دنیا سے اگر کوئی دوائی منگوانی ہے‘ خوراک منگوانی ہے یا تیل اور گیس منگوانی ہے تو پھر آپ کی ایل سی نہیں کھلے گی۔ ٹریول بند کیونکہ آپ ایئر لائنز کو ڈالروں میں ادائیگیاں نہیں کر سکیں گے۔ غیرملکی سرمایہ کار دوڑ جائیں گے اور بے روزگاری کا خوفناک طوفان آئے گا۔ دھیرے دھیرے ملک سری لنکا والے حالات سے دوچار ہو جائے گا۔ ڈالر ریٹ بھی ہزار روپے اور پٹرول کا ریٹ پانچ سو روپے سے ہزار روپے فی لٹر تک پہنچ جائے گا۔ مطلب سول وار کا خطرہ کہ نہ تیل‘ نہ پانی‘ نہ بجلی اور نہ گیس۔ اس لیے آئی ایم ایف ڈیل ضروری ہے تاکہ دنیا کے ساتھ ہمارا کاروبار چلتا رہے۔ اس دوران آپ ایکسپورٹ بڑھائیں‘ سبسڈی ختم کریں‘ قرضوں پر انحصار کم کریں۔ اس وقت بینکوں کو قرضوں پر سود کی مد میں سات ہزار ارب روپے سالانہ دیے جا رہے ہیں جبکہ ٹیکس اس سے کہیں کم اکٹھا ہو رہا ہے۔ اندازہ کریں کہ قرضوں کا سود دینے کیلئے بھی سود پر قرضہ لیا جا رہا ہے۔ اب جب آئی ایم ایف کی مارچ میں نئی ڈیل کی سخت ضرورت ہے‘ آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا گیا ہے۔
مان لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کے ساتھ زیادتی ہوئی‘ لیکن اس ملک اور 24کروڑ عوام کا کیا قصور ہے جو آصف زرداری‘ نواز شریف اور عمران خان کی اقتدار اور حکمرانی کی خوفناک جنگ میں پھنس گئے ہیں۔ چلیں 24کروڑ کو چھوڑیں اُن اڑھائی کروڑ ووٹرز پر خان صاحب کو کوئی ترس نہیں آتا جنہوں نے انہیں ووٹ دیا ہے اور وہ پہلے بھی خان صاحب کے آئی ایم ایف ڈیل توڑنے سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اگر ملک میں انارکی اور سول وار جیسی صورتحال پیدا ہو گئی تو کیا خان صاحب کے ووٹرز محفوظ رہیں گے؟ یا خان صاحب اور اس کے حامی خود کو یہ یقین دلا چکے ہیں کہ خان چھیکڑی اے‘ اودے بعد قیامت اے؟