امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے صدر بائیڈن کے وزیراعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط پر ایک طنزیہ ٹویٹ کیا ہے جو اپنے اندر بہت گہرائی رکھتا ہے۔ وہی بات کہ عقلمندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکہ پر سازش کا الزام لگانے کے بعد وہاں لابنگ پر لاکھوں ڈالر ضائع کرنے سے بہتر ہوتا کہ یہ رقم شوکت خانم ہسپتال کے چندے میں دے دی جاتی۔ اب امریکی صدر نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری ختم کر دی ہے۔ گوکہ اس خط سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں پہلے جیسی گرمجوشی نہیں ہو گی لیکن امریکہ پاکستان کی اندرونی سیاست کے منفی بیانیوں سے متاثر بھی نہیں ہو گا۔ اگرچہ اس ٹویٹ میں حسین حقانی نے کہیں عمران خان کا نام نہیں لیا لیکن اس میں چھپا پیغام بڑا واضح ہے کہ آپ ان دو سالوں میں تمام تر کوششوں کے باوجود امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بحال نہیں کر سکے ۔حالانکہ پاکستانیوں نے امریکہ میں کانگریس مین اور دیگر طاقتور سیاسی لوگوں کے لیے تقاریب منعقد کرکے فنڈ ریزنگ بھی کی۔ پاکستانی میں سیاسی پارٹیوں کو ملنے والے ''چندے‘‘ اور امریکی فنڈ ریزنگ میں فرق یہ ہے کہ امریکہ میں یہ کام آپ کھل کر کرتے ہیں اور سب رقوم کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور اس پر پورا ٹیکس بھی ادا کیا جاتا ہے‘ جبکہ پاکستان میں یہ ''چندہ‘‘ پارٹی فنڈ کے نام پر اکثر پارٹی سربراہوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ پارٹی فنڈ اسی طرح کی ٹرم ہے جیسے مافیا میں ''ہفتہ‘‘ کی ٹرم استعمال کی جاتی ہے۔ دونوں ٹرموں میں کہیں کرپشن یا مافیا کا تاثر نظر نہیں آتا‘ یوں دونوں کا کام چلتا رہتا ہے۔ امریکہ ہو یا دنیا کا کوئی بھی دوسرا بڑا جمہوری ملک‘ وہاں کوئی بھی فنڈنگ فری نہیں ہوتی۔ ہر فنڈنگ کے پیچھے سیاسی یا ذاتی فوائد ہوتے ہیں۔ لندن میں بھی چند کارپوریٹ سیٹھوں نے حکمران جماعت کو کروڑوں پاؤنڈز کا ''قرضہ‘‘ دیا۔ بعد ازاں ان کارپوریٹ سیٹھوں کو ہاؤس آف لارڈز میں عہدے دیے گئے اور قرضہ معاف کرایا گیا جبکہ ان سیٹھوں نے اپنی انڈسٹری کے لیے فوائد اٹھائے۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں ایک سابق امریکی سفیر کو بھی قطر کے لیے لابنگ کے نام پر ہزاروں ڈالرز لینے کے الزام میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا کہ اس نے اس میں کچھ غیرقانونی کام کیے تھے۔ ابھی انڈیا میں بھی مودی سرکار کے خلاف الیکٹورل بانڈ سکینڈل سامنے آیاہے۔ خیر جو بات حسین حقانی نے کی ہے وہ بڑی اہم ہے۔ پہلے آپ نے امریکہ کے ساتھ سینگ پھنسائے‘ہر تقریر میں شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے افغانستان اور طالبان کے معاملے پرامریکیوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں باقاعدہ کالم لکھ مارا کہ اگر امریکیوں تک میرے وزیراعظم پاکستان ہوتے ہوئے طالبان کے حق میں اُردو میں کی گئیں تقریریں نہیں پہنچیں تو اب ان تک وہ باتیں انگریزی اخبار میں کالم لکھ کرپہنچانی چاہئیں۔ یوں انگریزی میں کالم لکھ کر امریکیوں کو بتایا کہ تم جاہل ہو‘ تمہیں طالبان یا افغانستان کا کیا پتا‘ مجھے سب پتا ہے۔
خیر امریکہ بارے میری اپنی رائے کچھ اور ہے۔ اُسے افغانستان میں شکست نہیں ہوئی۔ بیس سال تک وہ قابض رہا۔ لاکھوں لوگ مارے گئے۔ افغان دربدر ہوئے۔ جب دیکھا کہ مشن پورا ہوگیا ہے تو وہ مرضی سے واپس لوٹ گیا۔ لوٹتے وقت رولا ڈال دیا کہ ہمیں شکست ہو گئی ہے۔ امریکی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہر جنگ کے بعد یہی کرتے آئے ہیں کہ اپنا مشن پورا کرنے کے بعد مقامی لوگوں کو لالی پاپ دے جاؤ کہ تم جیتے‘ ہم ہارے۔ اس کے پیچھے ایک لمبی فلاسفی ہے‘ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ یہی گولی وہ طالبان اور ان کے حامیوں کو دے گئے ہیں کہ واہ کیا بات ہے آپ کی‘ آپ فاتح ٹھہرے۔ آج کل وہی طالبان اور امریکی افغانستان میں ایک غیراعلانیہ اتحاد کے تحت داعش کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں کیونکہ ان کا دشمن مشترک ہو گیا ہے۔ اب دونوں بھول گئے ہیں کہ وہ کبھی دشمن تھے۔ اب دشمن داعش ہے۔ اس لیے حسین حقانی نے چسکا لیا ہے کہ کیا بنا آپ کے لاکھوں ڈالرز کی لابنگ کا کیونکہ امریکی صدر نے تو شہباز شریف کو نہ صرف وزیراعظم مان لیا ہے بلکہ نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے مل کر کام کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
یہ عمران خان اور ان کے حامیوں کی توقعات پر کاری ضرب ہے۔ عمران خان جب وزیراعظم تھے تو بائیڈن صدر تھے۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم مودی کو فون کیا تھا لیکن عمران خان کو فون نہ کیا جس پر اُن کے بائیڈن یا امریکہ سے تعلقات خراب ہونا شروع ہوئے۔ خان صاحب اگرچہ ماسکو وزٹ کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن اصل لڑائی فون کال نہ کرنے سے شروع ہوئی۔ اگرچہ اس سے پہلے امریکہ کی عمران خان سے ناراضی اس وقت شروع ہو گئی تھی جب وزیراعظم ہو کر اپنی قومی اسمبلی میں کی گئی ایک تقریر میں عمران خان نے اسامہ بن لادن کو شہید کہا تھا۔ اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ عمران خان وزیراعظم ہو کر اسامہ بن لادن اور اُن کے حامیوں کے گیارہ ستمبر کو تین ہزار امریکیوں کو مارنے کے عمل کو درست سمجھتے تھے۔ رہی سہی کسر 2021ء میں عمران خان نے اُس وقت پوری کر دی جب افغانستان سے امریکی فورسز کی واپسی پر یہ بیان داغا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ ماسکو وزٹ کے بعد سائفر کے نام پر دھواں دھار تقاریر کی گئیں۔یہ تقاریر اونٹ کی کمر پر آخری تنکا تھیں۔ اس بیک گراؤنڈ میں معاملات کو دیکھیں تو حسین حقانی ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اور خان صاحب کے تعلقات ٹھیک نہیں ہو سکتے تھے۔ اپنے دورِ اقتدار میں عمران خان جتنی سخت تقاریر کر چکے اور بیانات دے چکے ‘ اس کے بعد ان کے حامیوں کے لاکھوں ڈالرز کی فنڈ ریزنگ اور لابنگ بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
حسین حقانی ایک ذہین اور دلچسپ کردار ہیں۔ میں 1998ء میں ڈان میں تھا تو وہ ایک دن ہمارے ایڈیٹر ضیا الدین سے ملنے آئے ‘ جہاں باقی دوستوں کے ساتھ انہوں نے ہاتھ ملایا وہیں مجھ سے بھی ملایا۔ اس کی بعد میری اُن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ البتہ اُن سے دو تین بار ٹیکسٹ پر رابطہ ہوا جب وہ 2008ء میں پیپلز پارٹی حکومت میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ انہوں نے ہی مجھے یہ خبر بتائی تھی کہ یوسف رضا گیلانی ہی وزیراعظم ہوں گے۔ میں وہ خبر بریک نہ کر سکا کیونکہ اس خبر کیساتھ انہوں نے لائٹ موڈ میں ایک بات کہہ دی تھی جس پر میں نے مناسب سمجھا کہ اگر میں وہ بات پوری نہیں کر سکتا تو مجھے وہ خبر بھی بریک نہیں کرنی چاہیے۔خیر لوگ کچھ بھی کہیں‘ مجھے وہ ہمیشہ ایک ذہین آدمی لگے ۔ اُن کی باتیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ میری دو تین دفعہ کچھ ریٹائرڈ فوجی افسروں سے کسی فنکشن میں بحث ہو گئی۔ اُن کا اپنا مؤقف تھا جو ہم سب جانتے ہیں۔ میرا کہنا تھا کہ میرا حقانی صاحب سے کوئی ذاتی دعا سلام یا تعلق نہیں‘ لیکن میرا خیال ہے کہ ہم نے حسین حقانی کی صلاحیتوں سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ امریکہ میں ہمارے لیے بہت بہتر ثابت ہو سکتے تھے۔ جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے ان پر غصہ کی وجہ کیری لوگر بل تھا جس میں پہلی دفعہ امریکہ نے امداد کا رُخ سویلین حکومت کی طرف موڑا تھا۔ حقانی امریکہ کو بتا رہے تھے کہ امداد سویلین حکمرانوں/ وزیراعظم کو دے کر انہیں مضبوط کریں۔ یہی بات جنرل کیانی اور جنرل پاشا کو بری لگی تھی‘ لہٰذا اُس وقت عمران خان‘ نواز شریف اور شہباز شریف کو اُنکے پیچھے لگایا گیا۔ میمو گیٹ کو اچھالا گیا کہ اتنی بڑی گستاخی کیوں کی۔ اگر عمران خان‘ نواز شریف اور شہباز شریف اُس وقت حسین حقانی کے امریکہ کے کیری لُوگر بل میں ادا کیے گئے کردار کی گہرائی میں جاتے تو نہ میاں نواز شریف 2017ء میں برطرف ہوکر جیل جاتے‘ نہ عمران خان آج جیل میں ہوتے۔