"RKC" (space) message & send to 7575

آصفہ بھٹو کے ساتھ انصاف نہ ہوا

قومی اسمبلی میں جب آصفہ بھٹو حلف اٹھا رہی تھیں تو پی ٹی آئی کے اراکین‘ جو اَب سُنی اتحاد کونسل کا حصہ ہیں‘ نے شور مچا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا‘ جسے یقینی طور پر پیپلز پارٹی کے اراکین نے ناپسند کیا۔ اُن کا خیال تھا کہ آصفہ بھٹو کو سکون سے حلف اٹھانے دیا جائے گا لیکن 2018ء کے بعد وہ سکون اسمبلی کو نہ مل سکا جس کی توقع تھی‘ ہر وزیراعظم کو خصوصاً شور شرابے کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی شور شرابے میں پہلا خطاب نہ کرنے دیا گیا۔ وہ 22 سال جو تقریر تیار کرتے رہے وہ اس شور شرابے کی نذرہوگئی‘ یہی کچھ شہباز شریف کے ساتھ ہوا۔ یوں پانچ سالہ پرانا بدلہ پی ٹی آئی نے لے لیا۔
اس دوران کیونکہ پی پی پی کا کوئی وزیراعظم نہیں بنا لہٰذا انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑا۔ اب تک پی ٹی آئی اور (ن) لیگ کے وزیراعظم یہ شور شرابہ بھگت چکے تھے۔ اگر یاد ہو تو یوسف رضا گیلانی 2008ء میں بلامقابلہ بلکہ سب کے مشترکہ وزیراعظم تھے؛ چنانچہ ان کی تقریر بڑے اچھے ماحول میںہوئی جس میں انہوں نے پرویز مشرف کی قید میں رکھے گئے سپریم کورٹ کے ججوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ یہ الگ کہانی ہے کہ جن ججوں کو گیلانی صاحب نے مشرف سے آزادی دلائی‘ انہوں نے ہی چار سال بعد انہیں برطرف کرکے پانچ سال کے لیے اس عہدے کے لیے نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا۔
پی ٹی آئی جو 2008ء میں اسمبلی میں نہیں تھی‘ اسے اب پیپلز پارٹی کے خلاف موقع ملا کہ شور شرابہ کرے اور آصف زرداری کی صاحبزادی کے حلف سے بہتر اور کیا موقع ہو سکتا تھا۔ ان سب کو غصہ آصفہ پر نہیں تھا‘ سارا غصہ آصف زرداری پر تھا جو بقول پی ٹی آئی اُن کے ووٹ گن پوائنٹ پر چرانے میں شریک تھے اور اپنا حصہ لے کر صدر بن گئے۔ یوں وہ جتنا شور مچا رہے تھے اس کا مخاطب آصف زرداری اور بلاول تھے۔ خیر بلاول اور پیپلز پارٹی نے بھی اپوزیشن کی توقعات پوری کیں اور احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے۔ مزید وہ برداشت نہ کر پائے جو وہاں ہوٹنگ ہو رہی تھی۔
اگر پی ٹی آئی کے کچھ لوگ سمجھداری سے کام لینے کی کوشش کریں تو بھی پی ٹی آئی کے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں۔ حامد خان نے سینیٹر بن کر ہال میں حلف کے بعد محسن نقوی سے ہاتھ کیا ملا لیا‘ ایک قیامت برپا ہوگئی اور وہ گالی گلوچ کی گئی کہ توبہ۔ خیر میرے لیے جو حیران کن بات ہے وہ آصفہ بھٹو کا بلامقابلہ منتخب ہو کر قومی اسمبلی کا ممبر بننا ہے۔ شاید ہر باپ کی طرح‘ جو بیٹیوں کے لیے زیادہ Protective ہوتا ہے اور انہیں کسی مشکل میں پڑتے نہیں دیکھ سکتا‘ آصف علی زرداری نے بھی بیٹی کو باقاعدہ الیکشن لڑا کر اسمبلی لانے کے بجائے ایوانِ صدر سے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا کہ آصفہ کو کسی مشکل میں نہ ڈالیں۔ جیسے بھی ہو انہیں بلامقابلہ لوئر ہاؤس میں بھجوا دیں۔ اب صدر کا حکم یا فرمائش کون ٹالے۔ صدر زرداری نے باپ بن کر سوچا کہ کہاں بیٹی گاؤں گاؤں جا کر عام لوگوں سے ووٹ مانگے گی‘ منت ترلا یا پھر الیکشن ڈے کے سو ہنگامے بھگتے گی‘ لہٰذا آرام سے بلامقابلہ جتوا دو۔ الیکشن تو وہ ویسے ہی جیت جاتیں‘ سوال یہ ہے کیا یہ راستہ مناسب تھا جو آصفہ بھٹو کے لیے چنا گیا؟ اس سے اُن کا سیاسی اعتماد بڑھا ہوگا یا کم ہوا ہوگا؟ اعتماد تو نصرت بھٹو کا تھا جنہوں نے 1988ء کے الیکشن میں ایک لاکھ سے زائد ووٹوں کی لیڈ سے مخالف کو ہرایا تھا۔ بینظیر بھٹو نے 1988ء‘ 90ء اور 93ء میں ہر دفعہ پُر اعتماد ہو کر الیکشن لڑا اور مخالفوں کو بڑے مارجن سے ہرایا۔ کیا زرداری صاحب کو کوئی فرق نظر نہیں آیا کہ جب بینظیر بھٹو خاتون ہو کر مرد مخالفوں کو بڑے مارجن سے ہرا کر آتی تھیں تو اُن کی باتوں اور تقریروں میں اعتماد کا کیا لیول ہوتا تھا؟ جب آپ لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ہاؤس میں آتے ہیں تو آپ کی شان ہی اور ہوتی ہے۔ آصفہ بھٹو کچھ بھی کر لیں‘ وہ آنے والے دنوں میں وہ اعتماد حاصل نہیں کر پائیں گی جو ہاؤس میں بیٹھے اُن اراکین کے پاس ہے جو جیت کر آئے ہیں۔ (اگرچہ پی ٹی آئی کہتی ہے وہ بھی 'فارم 47‘ والے ہیں)۔
سوال یہ ہے کہ بینظیر بھٹو نے کبھی یہ کوشش کیوں نہ کی کہ بلامقابلہ منتخب ہو جائیں؟ چار الیکشن لڑے اور سبھی جیتے۔ اگرچہ بینظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی غلطی کی تھی کہ 1977ء کے الیکشن میں خود کو بلامقابلہ منتخب کرا لیا‘ اور اُن کی دیکھا دیکھی پی پی پی کے وزرائے اعلیٰ نے بھی خود کو بلامقابلہ منتخب کرانا شروع کر دیا اور ڈپٹی کمشنرز اور پولیس افسران کو یہی ٹاسک دیا گیا کہ ہر صورت ہمارے مخالفین کو غائب کر دیں اور الیکشن بلامقابلہ ہونا چاہیے۔ دس پندرہ بڑے لیڈروں؍ وزیروں نے بھی خود کو بلامقابلہ منتخب کرا لیا۔ بھٹو جیسا سمجھدار بندہ بھی یہ نہ سوچ سکا کہ ابھی پاکستان میں جمہوریت کا پودا لگے تین چار برس ہی ہوئے تھے‘ ابھی تو وہ پودا گملے میں تھا۔ بھٹو کو چاہیے تھا کہ اگر اُن کے مقابلے پرکوئی الیکشن لڑنے کو تیار نہ بھی ہوتا تو وہ خود کسی جاننے والے یا دوست کو کہتے یار تم کھڑے ہو جاؤ‘ تاکہ وہ پاکستان کا وزیراعظم الیکشن لڑ کر‘ جیت کر بنیں‘ نہ کہ پولیس یا انتظامیہ کی مخالفوں کو کی گئی مار کٹائی یا دھمکیوں سے جیتے۔ بھٹو نے جمہوریت کو خود کمزور کیا حالانکہ وہ بڑے آرام سے الیکشن جیت جاتے۔ جب اپوزیشن نے دیکھا کہ دس‘ پندرہ لیڈروں نے مار دھاڑ سے خود کو بلامقابلہ منتخب کرا لیا ہے تو انہوں نے الیکشن کے بعد اسے اپنا بیانیہ بنا لیا اور پھر تحریک چلی‘ نتیجتاً بھٹو کا تختہ اُلٹا گیا اور دو سال بعد پھانسی لگا کر رات کے اندھیرے میں گڑھی خدا بخش میں دفنا بھی دیا گیا۔ جب پاکستانی قوم صبح جاگی تو بھٹو کو دفن ہوئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے۔ جنرل ضیا نے ججوں پر دباؤ ڈال کر بھٹو کو پھانسی لگوایا تھا۔ بھٹو نے جو پاورز پہلے استعمال کی تھیں‘ وہی ضیا نے بعد میں کیں۔ نتیجہ سامنے ہے۔
پاکستان میں جمہوریت اب ویسے بھی نام ہی کی بچی ہے۔ فروری کا الیکشن جس انداز میں کرایا گیا اس کے بعد تو واقعی نام ہی چل رہا ہے۔ اس وقت تو ضرورت تھی کہ ہمارے حکمران کچھ ایسے اقدامات کرتے کہ لوگوں کا جمہوریت پر سے کھویا ہوا اعتماد بحال ہوتا‘ لیکن اس کے برعکس وہ سب کام کیے جارہے ہیں جس وجہ سے آج کی نوجوان نسل شریفوں اور زرداریوں کے نام سے بدک کر عمران خان کے گرد جمع ہوئی ہے۔ عمران خان کے عروج کا ذمہ دار عمران خان سے زیادہ شریف اور زرداری کی گورننس اور اپنے خاندان میں اقتدار رکھنا ہے۔
صدر زرداری کے پاس موقع تھا کہ جمہوریت کا کچھ بھرم رہنے دیتے۔ دکھاوا ہی کر لیتے لیکن آصفہ بھٹو کو الیکشن لڑ کر سیٹ نکالنے دیتے۔ آصفہ‘ جن کا ذکر بڑے عرصے سے سب سُن رہے تھے کہ وہ زیادہ سمجھدار ہیں‘ ان کی سیاسی شروعات اپنی پارٹی کی سندھ حکومت کی مخالفوں پر دہشت اور اپنے باپ کے ایوانِ صدر سے جاری کیے گئے ایگزیکٹو آرڈریا فرمائش سے نہیں ہونی چاہیے تھی۔ آصفہ کو خود ہی انکار کر دینا چاہیے تھا کہ ابا جان میں نانی اور والدہ کا راستہ لوں گی‘ بغیر الیکشن لڑے سیاست میں نہیں آؤں گی۔ آصفہ نے وہ لمحہ ضائع کیا۔
آصفہ اس فتح کا ذائقہ نہ چکھ پائیں کہ ساٹھ دن کی الیکشن مہم اور پولنگ نتائج کے بعد فتح کا جشن کیا ہوتا ہے اور جب آپ ہاؤس میں حلف لینے کھڑے ہوتے ہیں تو یہ سوچ کر آپ میں کیسا خوبصورت احساس جنم لیتا ہے کہ مجھے لاکھ‘ دو لاکھ لوگوں نے ووٹ دے کر یہاں بھیجا ہے۔ صدر زرداری نے آصفہ کو اس جمہوری احساس سے محروم کیا ہے۔ جمہوریت بھی ویسے ہی کمزور ہوئی ہے‘ جیسے بھٹو نے 1977ء میں مخالفوں کو ڈرا دھمکا کر بلامقابلہ الیکشن جیت لیا مگر اس کا دردناک خمیازہ پھر بھٹو اور اُن کے بچوں نے ہی بھگتا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں