انڈیا میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات کے نتائج نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ خود نریندرمودی بھی حیران و پریشان ہیں۔ وہ تو 400 سے زیادہ سیٹوں کا ٹارگٹ سیٹ کئے بیٹھے تھے تاکہ جو آئینی ترامیم کرنا چاہتے ہیں‘ آرام سے کر سکیں اور اپنے مخالفوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ سکیں۔ مطلب وہ بھی دو تہائی اکثریت چاہتے تھے جو ہر سیاستدان کا خواب ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت اگر مجھ سے پوچھیں تو سیاسی یا پارلیمانی آمریت کی خوفناک شکل ہوتی ہے۔ چاہے پاکستان ہو یا انڈیا‘ جب بھی کسی پارٹی کو اکثریت ملی تو اس کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا۔ اگر ہم انڈیا کی بات کریں تو 1971ء کے عام انتخابات میں اندرا گاندھی کی کانگریس پارٹی نے 352 سیٹیں حاصل کرکے بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ (آج وہی پارٹی 2024ء کے الیکشن میں 99سیٹیں حاصل کرکے بہت خوش ہے)۔ اندرا گاندھی کے ادوارِ حکومت میں انڈیا نے پاکستان سے جنگ لڑی‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کلیدی کردار ادا کیا‘ یوں وہ انڈیا میں مزید پاپولر ہو گئیں۔ لیکن چار سال بعد ہم نے دیکھا کہ وہی اندرا گاندھی اتنی کمزور ہو گئیں کہ انہوں نے ملک میں ایمرجنسی لگا دی‘ اپوزیشن‘ میڈیا اور اپنے ناقدین کا جینا حرام کر دیا۔ پھر جب 1977ء میں انڈیا میں انتخابات ہوئے تو وہی اندرا گاندھی جو دو دفعہ وزیراعظم رہ چکی تھیں‘ اپنی لوک سبھا کی سیٹ تک ہار گئیں۔ وہ وزیراعظم‘ جسے 1971ء کے بعد پورا ہندوستان پوجنے لگ گیا تھا صرف چند برسوں میں اپنی کشش کھو بیٹھی اور وزیراعظم ہو کر بھی اپنی سیٹ نہ جیت سکی۔
یہی کچھ ہم نے پاکستان میں نواز شریف کے ساتھ ہوتے دیکھا۔ جب انہیں 1997ء کے الیکشن میں دو تہائی اکثریت ملی تو انہوں نے بھی کریز سے نکل کر چوکے چھکے مارنے شروع کر دیے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے اُلجھے‘ صدر فاروق لغاری سے اُلجھے‘ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے اُلجھے۔ اور پھر پرویز مشرف سے بھی اُلجھ بیٹھے اور شام تک گرفتار بھی ہو گئے۔ یہ دراصل دو تہائی اکثریت کا خمار تھا‘ اتنی واضح اکثریت کے بعد بندہ سمجھ لیتا ہے کہ لوگوں نے کھلا مینڈیٹ دے دیا ہے تو اب جس سے چاہے سینگ اڑائے یا جو فیصلہ چاہے کرے۔ وہ اب کسی کو جوابدہ نہیں کیونکہ لوگوں نے اسے پاور دی ہے۔ اس سوچ کا نتیجہ بھارت میں اچھا نہیں نکلا اور پاکستان میں تو بالکل اچھا نہیں نکلا۔ میاں نواز شریف کو دو تہائی کا ایسا چسکا لگ چکا ہے کہ ابھی حالیہ الیکشن میں بھی وہ دو تہائی اکثریت مانگ رہے تھے۔ لیکن جنہوں نے دلوانی تھی یا جن سے وہ مانگ رہے تھے‘ وہ 12اکتوبر 1999ء کے ڈسے ہوئے تھے۔ دو تہائی تو چھوڑیں‘ انہوں نے سادہ اکثریت بھی نہیں لینے دی۔ اس پرنواز شریف اس حد تک خفا ہوئے کہ آٹھ فروری کی رات وکٹری سپیچ کرنے کے بجائے خاموشی سے گھر چلے گئے اور کچھ دن تک گھر ہی بیٹھے رہے کہ وہ شدید ناخوش تھے۔ آپ کو یاد ہو تو عمران خان بھی یہی کہتے تھے کہ مخلوط حکومت سے میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے ہیں‘ مجھے دو تہائی اکثریت درکار ہے‘ پھر ہی میں ملک کو سیدھا کر سکوں گا۔ یہی بات بھارتی وزیراعظم مودی کہہ رہے تھے کہ انہیں اس بار 400 سیٹوں کی ضرورت ہے تاکہ کوئی ان کے سامنے مزاحمت نہ کر سکے۔ وہ کہیں یہ دن ہے تو سب کہیں دن ہے‘ چاہے رات ہی کیوں نہ ہو۔
تیسری دنیا کے ملکوں میں عوام سے پاور لے کر عوام ہی پر استعمال کی جاتی ہے۔ عمران خان کے دور میں قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پانچ ہزار لوگوں کی فہرست تیار تھی جنہیں لٹکانا تھا۔ انہوں نے یہ بات صحافیوں کو خود بتائی تھی جس کی گواہی بعد میں اینکر پرسن محمد مالک نے مختلف ٹی وی شوز میں دی۔ جب عمران خان اور قمر جاوید باجوہ سیم پیج پر تھے تو عمران خان کے وزیر فیصل واوڈا نے حامد میر کے پروگرام میں کہا تھا کہ پانچ ہزار بندوں کی فہرست تیار ہے‘ جنہیں لٹکانا ہے‘ پھر ملک ٹھیک ہو جائے گا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ عمران خان اور قمر جاوید باجوہ سیم پیج پر نہ رہے ‘ جبکہ واوڈا اور عمران خان کے درمیان بھی دوریاں پیدا ہوگئیں ۔اس طرح وہ جو پانچ ہزار بندوں کو لٹکانے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے تھے‘ آپس ہی میں لڑ پڑے اور ایسے کہ الامان الحفیظ۔
خان صاحب کا ماننا تھا کہ اگر ان کے پاس بھی سعودی عرب‘ روس اور چین والی پاورز ہوں تو وہ ملک ٹھیک کر سکتے ہیں۔ مطلب جسے چاہیں‘ لٹکا دیں‘مخالفوں کا جینا حرام کر دیں۔ ون پارٹی سسٹم لا کر مخالفیں یا ناقدین کو جیلوں میں ڈال دیں۔ اس لیے وہ بار بار اپنی تقاریرمیں حوالہ دیتے تھے کہ انہیں اکثریت دیں تاکہ انہیں دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت نہ بنانی پڑے۔ عمران خان نے اگر پاکستانی اور انڈین تاریخ پڑھی ہوتی تو وہ کبھی دو تہائی اکثریت کی فرمائش نہ کرتے۔ جس جس نے دوتہائی اکثریت حاصل کی اس کا انجام کچھ اچھا نہ ہوا۔ بھٹو صاحب کے پاس بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد واضح اکثریت تھی۔ وہ بھی اپوزیشن کے ساتھ ویسے ہی پیش آئے جیسے بعد ازاں میاں نواز شریف 1997ء میں اور اندرا گاندھی 1971ء میں پیش آئی تھی۔ جب تک بھٹو صاحب کو اس بات کا احساس ہوا‘ تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ مودی کے پاس بھی چونکہ 2019ء میں اکثریت تھی اس لیے وہ بھی سیاسی آمر کا روپ دھار چکے تھے۔ وہ بھی اپنے فالورز کا ایک ایسا کلٹ بنا چکے تھے جن کے نزدیک مودی پر تنقید مذہبی گستاخی سے کم نہ تھی۔ اگر مودی کی تقاریر سنیں تو ان سے تکبر اور غرور کی بو آتی ہے۔ جس طرح وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو گھس بیٹھیے کہہ کر مخاطب کر رہے تھے‘ جنہیں انہوں نے دو تہائی اکثریت لے کر ملک سے نکالنا تھا‘ اس سے ان کے عزائم کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ بھارت کا کیسا مستقبل دیکھ رہے تھے۔ اگر مودی کو دو تہائی اکثریت مل جاتی تو انڈیا‘ جو پہلے ہی ہندوتوا کی طرف بڑی تیزی سے سفر کررہا ہے‘ اُس کی تیزی سے تقسیم شروع ہو جاتی۔ ہندوستانی ووٹرز کو اس حوالے سے داد دینی چاہیے۔ ایودھیا میں بابری مسجد گرا کر رام مندر بنایا گیا تھا اور اسی سال جنوری میں بڑے اہتمام سے اس کا افتتاح کیا گیا تاکہ الیکشن میں اس کو کیش کرایا جا سکے۔ لیکن ووٹرز نے مودی کے اس مسجد مندر سٹنٹ کو مسترد کر دیا۔ زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ اسی ایودھیا شہر سے‘ جہاں یہ مندر بنایا گیا ہے‘ مودی کی پارٹی کا امیدوار الیکشن ہار گیا ہے۔ یہ وہ شکست ہے جو مودی اور ان کی پارٹی سے ہضم نہیں ہو رہی کہ مسلمانوں کی مسجد گرا کر آپ کو اس پر مندر بنوا کر دیا‘ کروڑوں روپے خرچ کیے کہ ہندوز خوش ہوں گے‘ وہ اُلٹا ناراض ہوئے اور بی جے پی وہاں سے سیٹ ہار گئی۔ ایودھیا کی سیٹ ہارنا بی جے پی کیلئے ایسا ہی ہے جیسے 1977ء کے الیکشن میں اندرا گاندھی کا اپنی آبائی سیٹ ہارنا۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ خود مودی کو ماضی کی نسبت کم ووٹ پڑے ہیں۔ اگرچہ وہ اپنی سیٹ تو جیت گئے ہیں لیکن اب کی دفعہ جیت کا مارجن 2019ء سے بہت کم ہے۔
دیکھا جائے تو مودی بھارتی عوام میں اپنا چارم کھو چکے ہیں‘ وہ اس دفعہ 400 سیٹوں کا نعرہ لگا کر محض 240 سیٹیں لے سکے ہیں جبکہ لوک سبھا میں سادہ اکثریت کے لیے انہیں 272 سیٹوں کی ضرورت ہے۔ یوں مودی کی کشش کم ہوئی ہے۔ بھارتی عوام کو مودی کی نفرت بھری تقاریر پسند نہیں آئیں۔ ان نفرت بھری تقاریر سے ان کی زندگیوں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذہب کارڈ ہر وقت بھی کام نہیں آتا یا پھر دس سال تک مسلسل آپ کی شکل دیکھ کر لوگ بور بھی ہو جاتے ہیں۔