آئندہ مالی سال کے لیے وفاق کا بجٹ پیش ہو گیا۔ کبھی بجٹ کا پورا سال انتظار کیا جاتا تھا۔ سال میں ایک ہی دفعہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم یا زیادہ کی جاتی تھیں۔ تنخواہوں میں اضافہ سرکاری ملازمین کیلئے ایک بڑی خبر ہوتی تھی‘ لیکن پھر اللہ بھلا کرے ہمارے فارن کوالیفائیڈ ماہرِ معیشت‘ بیوروکریٹس اور حکمرانوں کا جنہوں نے کہا کہ اب یہ سلسلہ نہیں چلے گا‘ اب روزانہ کی بنیاد پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھیں گے۔ پٹرول و ڈیزل کی قیمت ہر پندرہ دن بعد تبدیل ہو گی۔ ڈالر روزانہ آگے پیچھے ہو گا۔ میں ہمیشہ دوستوں سے یہی بات کہتا ہوں کہ اس ملک کی زبوں حالی کے ذمہ دار یہ فارن کوالیفائیڈ ماہرین ہیں۔ وہ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ ان کا بھلا کیا قصور‘ وہ تو دنیا بھر کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے پڑھ کر آئے ہیں‘ ان معاشروں میں رہے ہیں جہاں یہ سب نظام بڑی کامیابی سے چل رہے ہیں اور وہ جو ایشوز کا حل پیش کرتے ہیں وہی پوری کیپٹل ورلڈ میں رائج ہے۔ اگر پاکستان میں وہ ناکام ہو رہا ہے تو اس میں قصور پاکستانیوں کا ہے‘ ان ماہرین کا نہیں۔
میرا ماننا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے معاشی ماڈلز کا موازنہ پاکستان جیسے ملکوں سے کرنا حماقت ہے اور اس کا خمیازہ ہی ہم بھگت رہے ہیں۔ یہاں غربت اور پسماندگی کی صورتحال یورپ جیسی نہیں۔ ہمارے ملک اور یورپی ملکوں کے عوام‘ معاشرے‘ اداروں اور سب سے بڑھ کر کریکٹر میں بہت فرق ہے۔ وہاں کے حکمران بڑے بڑے بزنس مین نہیں‘ نہ ان کے کارخانے ہیں‘ نہ وہ کاروبار کرتے ہیں‘ وہاں کسی بڑے عہدے کیلئے ایسے بندے کا انتخاب ہوتا ہے جو آزاد اور انصاف پسند ہو۔ وہ ایسا بندہ نہیں ڈھونڈتے جو ان کے کاروبار کا تحفظ کرے۔ وہاں کا ریگولیٹر بہت مضبوط اور تگڑا ہے اور وہ کسی کو بدمعاشی نہیں کرنے دیتا۔ اس ریگولیٹر یا ادارے کو مکمل طور پر سیاسی حمایت حاصل ہوتی ہے لہٰذا وہاں گورننس کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ امریکہ میں ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی نے صدر ٹرمپ کو کہہ دیا تھا کہ میں آپ کا ذاتی ملازم نہیں۔ ٹرمپ نے اسے کہا تھا کہ آپ کی ایجنسی میرے خلاف انکوائری کررہی ہے‘ کیا آپ میرے وفادار رہیں گے؟ جیمز کومی‘ جو دس سال کیلئے ایف بی آئی کا سربراہ بنا تھا اور ابھی اس کے چھ سال باقی تھے‘ بولا: جنابِ صدر میں آپ کا نہیں‘ انصاف کا وفادار رہوں گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلی صبح ٹرمپ نے جیمز کومی کو برطرف کر دیا۔ کومی برطرف ہو کرگھر چلا گیا لیکن صدر ٹرمپ کا ذاتی وفادار بننے سے انکار کر دیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ہمارے ہاں اگر وزیراعظم ڈی جی ایف آئی اے کو یہی حکم دے کہ اس کے خلاف انکوائری پر اس کا ساتھ دو تو وہ آگے سے جیمز کومی جیسا جواب دے گا ؟
ہمارے ہاں حکمران ہی سب کاروبار اور ادارے کنٹرول کرتے ہیں اور سب بیوروکریٹس بھی خود لگاتے ہیں جو ان کے کاروبار کو مانیٹر یا ریگولیٹ کرتے ہیں۔ تو پھر آپ بتائیں کہ جو افسر آپ کے ہاتھ سے کسی ادارے کا ریگولیٹر لگتا ہے وہ آپ کے کاروبار کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی جرأت کر سکتا ہے؟ کیا چیئرمین ایف بی آر‘ چیئرمین ایس ای سی پی یا کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہان اُن ملوں یا کارخانوں کے خلاف کارروائی کی جرأت رکھتے ہیں جو حکمرانوں کی ہیں۔ مسابقتی کمیشن کئی دفعہ کھاد فیکٹریوں‘ شوگر ملوں اور دیگر کارخانوں اور مالکان کو جرمانے کر چکا ہے جن کی مالیت اربوں روپوں میں تھی لیکن صرف چند لوگوں نے ہی جرمانے بھرے‘ وہ بھی اس لیے کہ انہوں نے سوچا وکیل کرکے عدالتوں میں چکر کاٹنے پر بھی اتنا ہی خرچہ ہونا ہے‘ بہتر ہے جرمانہ ادا کر دیں۔ ورنہ کسی بڑے بزنس مین نے ایک پیسہ تک نہیں دیا۔ ان حکمرانوں نے کسانوں اور عام لوگوں کو جی بھر کر لوٹا۔ مجھے یاد ہے کہ دس سال پہلے دو بڑے کھاد کارخانوں کو پانچ پانچ ارب روپے جرمانہ ہوا کہ انہوں نے کسانوں کو مہنگی کھاد بیچ کر اربوں کا ناجائز منافع کمایا۔ کسانوں کو سستی کھاد دینے کے نام پر حکومت سے سستی گیس لی لیکن پھر بھی جی بھر کر کسانوں کو لوٹا۔ ان کارخانوں نے اربوں روپے جرمانہ بھرنے کے بجائے ایک وکیل کو چند لاکھ روپے دے کر سٹے لے لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ سٹے آج تک چل رہا ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ آصف علی زرداری کے سندھ میں کاروبار بارے سندھ کا کوئی افسر پوچھنے کی جرأت کر سکتا ہے یا پھر پنجاب میں کوئی سرکاری افسر شریف خاندان کے کاروبار پر نظر رکھنے کی جرأت کر سکتا ہے؟ عمران خان کو ڈونیشنز دینے والے افراد بڑے بڑے بزنس مین تھے‘ انہیں بھی نوازا گیا۔ اُن میں سے ایک کو‘ جو ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک تھا‘ ایک شہر کی ڈویلپمنٹ اتھارٹی بورڈ کا چیئرمین لگا دیا گیا۔ قانون کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب اس بورڈ کا سربراہ ہوتا ہے لیکن عمران خان نے عثمان بزدار سے اختیارات لے کر اس چینوٹی شیخ کو دیدیے۔ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا کام ہائوسنگ سوسائٹیز کو ریگولیٹ کرنا ہے‘ جب ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک ہی سوسائٹیز کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے کے بورڈ کا سربراہ لگا دیا جائے تو وہ خاک ریگولیٹ کرے گا۔ موصوف نے اپنے رشتہ داروں کی سوسائٹیوں کے تمام قابلِ اعتراض کام ریگولر کرائے یا بائی لاز ہی تبدیل کر دیے۔ یہ تو بعد میں پتا چلا کہ موصوف عمران خان کے ڈونر اور ان کے والد شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ میں تھے۔ یوں جو بزنس مین سیاستدانوں کو عطیہ دیتے ہیں‘ اس کے پیچھے ان کے کاروباری مفادات ہی ہوتے ہیں۔ اس بات کا علم ڈونیشن لینے والے کو بھی ہوتا ہے اور دینے والے کو بھی کہ یہ سب کاروباری ڈیل ہے۔ وہ بظاہر تو نیکی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اصل معاملہ اس ہاتھ دو‘ اُس ہاتھ لو والا ہوتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی‘ نواز لیگ اور تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو فنڈز دینے والے زیادہ تر بزنس مین ہوتے ہیں جو اس جماعت کے حکومت میں آنے کے بعد اپنے دیے فنڈز سود سمیت وصول کرتے ہیں۔ ایک کاروباری شخص اُسی شخص پر پیسہ خرچ کرتا ہے جو کل کو حکومت میں آ کر اسے دو گنا کرکے لوٹا سکے۔ بعض بڑے بزنس مین تو اب حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کاروباری حصہ دار اور پارٹنر ہیں۔ اکثر بزنس مین حکمرانوں کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کچھ بزنس مین تو اتنے طاقتور ہیں کہ وہ اعلیٰ عہدوں پر افسران بھی اپنی مرضی کے لگوا لیتے ہیں۔ اب بتائیں اس ملک کے معاشی نظام کا مقابلہ یورپ سے کیسے کریں گے جہاں اگر سیکرٹری داخلہ بھی اپنی وزارت سے کسی جاننے والے کے ویزا سٹیٹس کا پوچھ لے تو سکینڈل بن جاتا ہے اور اسے استعفیٰ دینا پڑتا ہے۔ وزیر تعلیم کا بچہ اگر ٹیوشن لے رہا ہو یا کسی پرائیویٹ سکول میں پڑھ رہا ہو تو بھی اسے عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔ وہاں کا نظام اجازت نہیں دیتا کہ کوئی حکمران اپنا کاروبار بھی کرے اور وزیراعظم یا صدر ہاؤس بھی چلائے۔ ہمارے حکمران اور ان کے حامی ہم جیسوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس دبئی کا اقامہ تھا تو کون سی قیامت آگئی۔ جس ملک کی آدھی آبادی اور سیاستدانوں کے نزدیک ملک کے وزیراعظم کا کسی اور ملک کا اقامہ لے کر نوکری کرنا کوئی جرم نہ ہو‘ تو ان کا کیا کیا جا سکتا ہے؟
فارن کوالیفائیڈ ماہرین نے ہمارے مسائل کے مقامی حل تلاش کرنے کے بجائے ہمیں جدید ملکوں کی مثالیں اور سسٹم دے کر ناکام کیا ہے۔ لوگوں کے مزاج اور کلچر کا آپ کی اکانومی پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ گدھے‘ گھوڑے میں فرق کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکا جاتا ہے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ وہی بات کہ ایک ''سیانے‘‘ نے ایک دن رسی کی مدد سے کنویں میں گرا بندہ نکال لیا لیکن اگلے دن اُسی رسی سے درخت پر چڑھا بندہ اتارا تو وہ دھڑام سے نیچے گرا اور مر گیا۔ جب تک ہمارے ''سیانوں‘‘ کو رسی کے درست استعمال کی سمجھ نہیں آئے گی‘ یہ ملک ایسے ہے چلتا رہے گا۔