الیکشن کا نتیجہ آ چکا تھا۔ رزلٹ نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل کر لی تھی۔ خالدہ ضیا اور دیگر پارٹیوں کو بری طرح شکست ہوئی تھی۔ یہ واضح تھا کہ بنگلہ دیشی عوام ابھی تک شیخ مجیب فیملی کے رومانس میں مبتلا تھے۔ وہ ابھی تک وہ قرض اتار رہے تھے جو شیخ مجیب کے قتل سے ان پر واجب ہو گیا تھا۔ بھارت میں نہرو خاندان ہو‘ پاکستان میں بھٹو خاندان یا بنگلہ دیش میں شیخ مجیب فیملی‘ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس نے لوگوں پر گہرا اثر چھوڑا۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن اپنے خاندان سمیت قتل ہوئے۔ بھارت میں پہلے اندرا گاندھی اور پھر راجیو گاندھی قتل ہوئے اور پاکستان میں پہلے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی لگے اور بعد میں بینظیر بھٹو قتل ہوئیں۔ یوں آج تک پاکستان میں پیپلز پارٹی بھٹو کے نام پر ووٹ لیتی ہے کیونکہ لوگوں کی ان کے ساتھ ہمدردیاں ہیں۔ لوگوں کے اندر احساسِ جرم بھی ہے کہ وہ بھٹو کو نہ بچا سکے‘ لہٰذا انہوں نے ہمیشہ پارٹی پرفارمنس پر کم اور ہمدردی کا ووٹ زیادہ دیا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی یہی کچھ ہو رہا تھا۔ حسینہ واجد کواپنے باپ کے قتل کی ہمدردی کا ووٹ مل رہا تھا اور باپ بھی وہ جس نے ایک الگ ملک بنا کر دیا۔ حسینہ واجد نے الیکشن میں نعرہ لگایا تھا کہ وہ 1971ء کے کرداروں کو نہیں چھوڑیں گی‘ سب کو پھانسیاں لگائیں گی۔ جنہوں نے بنگالیوں کا ساتھ نہیں دیا یا پھر انکے باپ کو مارا‘ سب سے بدلہ لیا جائے گا۔ یہ نعرہ کام کر گیا اور حسینہ واجد پوری قوت سے واپس آ گئیں۔
الیکشن ختم ہو چکا تھا۔ مجھے پاکستان واپس لوٹنا تھا۔ صلاح الدین چودھری الیکشن جیت گئے تھے حالانکہ حسینہ واجد کے اس ریلے میں بڑے بڑے برج الٹ گئے تھے۔ آخری رات مجھے صلاح الدین چودھری کا فون آیا کہ پاکستان جانے سے پہلے ڈنر میرے گھر پر کریں‘ تفصیل سے گفتگو کریں گے کہ اب حسینہ واجد کے آنے کے بعد کا بنگلہ دیش کیسا ہوگا اور سب سے بڑھ کر‘ پاکستان بنگلہ دیش کے تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی۔ میں ان کے گھر پہنچا تو وہاں پر اُس وقت پاکستان میں بنگلہ دیش کی ہائی کمشنر یاسمین مرشد بھی موجود تھیں۔ وہ اسلام آباد سے ڈھاکہ آئی ہوئی تھیں‘ صلاح الدین چودھری نے انہیں بھی بلا لیا تاکہ تفصیل سے گفتگو ہو سکے۔ صلاح الدین چودھری کی بیگم صاحبہ نے بڑا اچھا کھانا بنایا اور خوب مہمان نوازی کی۔ کھانے کے بعد یاسمین مرشد کی صلاح الدین چودھری سے گفتگو ہونے لگی لیکن میں نے نوٹ کیا کہ وہ ایک پاکستانی صحافی کی موجودگی میں کھل کر بات نہیں کر رہی تھیں۔ وہ احتیاط برت رہی تھیں کہ ان کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو میں کل کو پاکستان جا کر بڑی خبر بنا دوں اور ان کیلئے مسائل کھڑے ہو جائیں۔ مجھے ہرگز حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ اکثر اس طرح کے رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ لوگ بہت کم صحافیوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ صحافی آف دی ریکارڈ گفتگو کو بھی کچھ دن بعد چلا دیتے ہیں۔ یقینا کچھ صحافی یہ کام بھی کرتے ہیں لیکن یہ کام ٹی وی چینلز آنے کے بعد سے زیادہ ہوا ہے ورنہ پرنٹ دور تک صحافی اس پروفیشنلزم کا مظاہرہ کرتے تھے کہ اگر کسی نے آف دی ریکارڈ کچھ کہا ہے تو پھر بات باہر نہیں نکلتی تھی۔ تاہم ایک بات پر یاسمین صاحبہ نے اپنی کوئی رائے دی اور صلاح الدین چودھری نے مجھے کہا: رئوف یہ بات واپس جا کر پاکستانی حکمرانوں کو ضرور بتانا کہ آج کے بعد بنگلہ دیش بدل جائے گا۔ پاکستان کے ساتھ جو اچھے تعلقات خالدہ ضیا کے دور اور اس کے بعد بھی رہے‘ وہ اب نہیں رہیں گے۔ کہنے لگے: میں سن رہا ہوں کہ پاکستان ایک ایسے بیورو کریٹ کو بنگلہ دیش میں ہائی کمشنر لگانے والا ہے جو بہاری بیک گراؤنڈ کا حامل ہے۔ صلاح الدین کہنے لگے کہ میرے علم میں ہے کہ اس کی تجویز آئی ہوئی ہے‘ بہتر ہوگا کہ حکومت پاکستان اب اس افسر کی تعیناتی کو خود ہی واپس لے لے ورنہ بنگلہ دیش میں بہاری بیک گرائونڈ کے ہائی کمشنر کو شاید ویلکم نہ کیا جائے۔ انکے کہنے کا مقصد تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں پہلے ہی بہاری ایشو کی وجہ سے پرابلم چلتے رہتے ہیں‘ اب بہاری بیک گراؤنڈ کے حامل ہائی کمشنر کی تعیناتی سے یہ سمجھا جائے گا کہ پاکستان شاید بہاری کیمپوں کے معاملہ پر کوئی سرگرمی دکھانا چاہتا ہے۔ صلاح الدین چودھری سمجھتے تھے کہ حسینہ واجد دور میں اس طرح کا سفیر آنے سے پاکستان کیلئے مسائل پیدا ہوں گے۔ ممکن ہے کہ حسینہ واجد سرکار سرعام انکار کر کے پاکستان کو پشیمان کرے۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ حسینہ واجد پاکستان کیلئے اس معاملہ پر کوئی مسئلہ کھڑا کرے‘ اس کی نامزدگی واپس لے لینی چاہیے۔
خیر وہ الگ کہانی ہے کہ جب میں نے ڈھاکہ سے وہ خبر فائل کی تو وہ دی نیوز کے فرنٹ پیج پر چھپی اور اس وقت کی حکومت نے فوراً اس تعیناتی کو روک دیا۔ تاہم وہ انتہائی قابل اور اچھے افسر‘ جن کا نام تجویز کیا جا رہا تھا‘ مجھ سے ناراض ہو گئے۔ ان کا خیال تھا کہ میں نے کسی کے کہنے پر وہ خبر فائل کی وگرنہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ یا دوسرے لفظوں میں ان کے مخالفین نے ان کی تقرری رکوانے کیلئے وہ خبر لگوائی۔ میں انہیں کیسے بتاتا کہ یہ بات کسی عام بندے نے نہیں کی بلکہ ایک ایسا شخص جو چھ‘ سات بار بنگلہ دیش کا ممبر پارلیمنٹ رہا‘ جو سابق وزیر تھا اور اب نیا نیا الیکشن جیت چکا تھا‘ یہ بات اس نے کہی تھی۔ صلاح الدین چودھری بھلا کیوں کہے گا کہ فلاں کو سفیر لگائو یا نہ لگائو۔ انہوں نے بدلتے حالات میں وہی مشورہ دیا جو انہیں مناسب لگا۔ صلاح الدین چودھری کی اس بات کی یاسمین مرشد نے بھی تائید کی کہ اب عوامی لیگ کے الیکشن جیتنے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین معاملات آئیڈیل نہیں رہیں گے۔ پاکستان کو نئے رجیم کو مخالفت کی کم سے کم وجوہات فراہم کرنا ہوں گی۔
اس ڈنر ملاقات میں الیکشن جیتنے کے باوجود صلاح الدین چودھری کسی انجانے خوف کا شکار تھے۔ پریشانی ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ جب کھانا ختم ہو چکا تو مجھے کہنے لگے کہ چلیں‘ میری لائبریری میں چل کر وہیں گرین ٹی پیتے ہیں۔ ان کی خوبصورت لائبریری میں بیٹھے تو کہنے لگے: اب بنگلہ دیش کیلئے اچھے دن نہیں دیکھ رہا‘ خصوصاً ان سیاستدانوں کیلئے جنہیں حسینہ واجد اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب حسینہ واجد کسی کو نہیں چھوڑے گی۔ ان کی عادت تھی کہ وہ بات بات پر مسکراتے یا قہقہے لگاتے تھے‘ مگر اب وہ افسردہ تھے۔ بولے: باقیوں کو تو وہ بعد میں دیکھے گی لیکن سب سے پہلے مجھے فکس کرے گی۔ میں نے پوچھا: آپ ممبر پارلیمنٹ ہیں‘ چٹاگانگ میں آپ کا اتنا بڑا حلقہ ہے‘ مسلسل آپ الیکشن جیتتے آئے ہیں‘ آپ کو ٹچ کرنا آسان نہیں ہو گا۔ صلاح الدین بولے: اب یوں سمجھ لیں کہ بنگلہ دیش پر بھارت حکومت کرے گا اور بھارتی حکومت اور ایجنسیاں مجھے اپنا دشمن نمبر ون سمجھتی ہیں۔ مجھے پاکستان کا دوست سمجھا جاتا ہے جو حسینہ واجد اور بھارتی مفادات کے خلاف سیاست کرتا ہے۔ مجھے خالدہ ضیا اور پاکستان کے درمیان ایک پل سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کی بڑے عرصے سے خواہش تھی کہ حسینہ واجد واپس آئے اور ان سب لوگوں کا صفایا کرے جو بھارت اور عوامی لیگ کے خلاف ہیں۔ کہنے لگے: وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا: پھر آپ باہر چلے جائیں‘ لندن چلے جائیں۔ قہقہہ لگا کر بولے: ان کے ڈر سے نہیں بھاگوں گا‘ یہی میری دھرتی ہے‘ یہیں جیوں گا اور یہیں مروں گا۔ صلاح الدین چودھری کے لہجے میں موجود سختی اور یقین نے تو ایک لمحے کیلئے مجھے بھی دہلا دیا۔الیکشن کے بعد میں پاکستان واپس آ چکا تھا کہ ایک دن اسحاق خاکوانی کی کال آئی۔ ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ بڑی مشکل سے ان کے منہ سے یہ جملہ نکلا کہ صلاح الدین چودھری کو ڈھاکہ میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان پر 1971ء کے جنگی جرائم ٹربیونل میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ حسینہ واجد انہیں پھانسی لگانے جا رہی ہے۔ (جاری)