"RKC" (space) message & send to 7575

پردے میں رہنے دو

ایک طرف سیاسی دنگل لگا ہوا ہے تو دوسری طرف جنہوں نے مال بنانا ہے‘ وہ خاموشی سے اپنا دنگل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بدھ کے روز سلیم مانڈوی والا کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں دو محکموں نے یہ دلچسپ درخواست دائر کر رکھی تھی کہ ان کے دو ایجنڈا آئٹمز کو اِن کیمرہ کر دیا جائے۔ مطلب یہ تھا کہ کمرۂ اجلاس میں جو صحافی موجود ہیں انہیں یہاں سے اٹھا دیا جائے تو پھر ہی وہ ممبران کے ساتھ کچھ اہم باتیں شیئر کر سکتے ہیں۔ اس پر پی ٹی آئی کے ممبر قومی اسمبلی محسن عزیز نے رولا ڈالا کہ جناب اس میں اِن کیمرہ والی کیا بات ہے‘ یہ عوامی معاملات ہیں اور عوام کو اس سے آگاہ رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان ایجنڈا آئٹمز کو اِن کیمرہ کیا گیا تو وہ واک آؤٹ کر جائیں گے۔ خیر ان کی اس دھمکی نے بھی کام نہ کیا اور ایجنڈا پر بریفنگ اِن کیمرہ ہی دی گئی۔ چلیں مان لیا کہ بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جنہیں سب کے سامنے ڈسکس نہیں کیا جا سکتا‘ اسے صرف ممبران کے ساتھ ہی شیئر کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ممبران بھی خودکو اہم سمجھتے ہیں کہ ان کے علم میں کچھ ایسی باتیں آنے والی ہیں جو صرف ان کے لیے ہیں‘ باقی ملک کے شہریوں کو اس کا پتا نہیں چلنا چاہیے۔مگر اب تو اِن کیمرہ بریفنگز کا کلچر بہت بڑھ گیا ہے۔ ہر دوسرے اجلاس میں ایسی فرمائشیں سننے کو ملتی ہیں۔ بہت کم کمیٹی چیئرمین بابوز کی ان فرمائشوں کو رد کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ جن دو ایجنڈا آئٹمز کو اِن کیمرہ کرنے کی درخواست کی گئی‘ وہ عوام کیلئے کتنے دلچسپ تھے۔
کچھ عرصہ قبل ایک سکینڈل سامنے آیا تھا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 2017ء سے 2022ء تک صرف دو پرائیویٹ کمپنیوں نے پاکستانی بینکوں میں حیران کن طور پر 60 ارب روپے کیش جمع کرایا اور اس کے بدلے کروڑوں ڈالرز دبئی بھیجے۔ بتایا گیا تھا کہ ان پیسوں سے دراصل سولر پینل امپورٹ کرنے کے لیے ایل سیز کھولی گئی تھیں۔ اب اس میں جو سکینڈل تھا وہ یہ تھا کہ بینکوں نے بھلا کیسے 60 ارب روپیہ کیش جمع کر لیا۔ عمومی طور پر تو آپ پانچ لاکھ روپے کیش بھی بینک میں جمع کرانے جائیں تو بینک والے آپ کو ایک فارم تھما دیتے ہیں کہ پہلے اسے بھر کر لائیں اور اس رقم کا سورس بتائیں اور اپنا اور جس کو رقم بھیج رہے ہیں‘ اس کا پورا ڈیٹا شیئر کریں۔ گھر کا پتا‘ شناختی کارڈ کی تفصیلات دیں۔ اور یہاں 60 ارب روپے بینکوں نے کیش جمع کیا اور پھر اس کیش کو ڈالرز میں تبدیل کر کے دبئی بھی بھیج دیا۔ چلیں آپ 60 ارب روپے کیش کو ایک لمحے کیلئے اگنور کر دیں تو ایک اور بات آپ کو چکرا دے گی۔ پتا چلا کہ عام پاکستانی کمپنیاں‘ جو سولر امپورٹ کررہی تھیں‘ ان کے ریٹس اور ان دو کمپنیوں کے ریٹس میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ مثال کے طور پر اگر دیگر پارٹیاں جو سولر پینل منگوا رہی تھیں ان کا ریٹ ایک ہزار ڈالرز تھا تو ان دونوں کمپنیوں کے امپورٹ کردہ پینل کا ریٹ تین ہزار ڈالرز تھا۔ یوں اوور انوائسنگ کر کے بھاری تعداد میں ڈالرز پاکستان سے باہر بھیجے گئے جسے ایک قانونی منی لانڈرنگ کا نام دیا گیا۔
ان دو مشکوک پارٹیوں نے 60 ارب روپے کے برابر ڈالرز سٹیٹ بینک سے لیے اور سستے سولر پینلز کو مہنگا دکھا کر ڈالرز باہر بھیج دیے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب انکوائری ہوئی تو پتا چلا کہ پشاور کی ایک مارکیٹ میں ایک معمولی پلازے میں ان کمپنیوں نے اپنے دفاتر بنا رکھے تھے جو ایڈریس بینکوں میں لکھوایا گیا تھا۔ وہ ایک چینی کمپنی سے سولر منگوا رہے تھے۔ مزید تحقیقات پر علم ہوا کہ اُس چینی کمپنی کے مالکان اِن پاکستانیوں کے عزیز تھے۔ یوں پشاور میں جو ایل سی کھولی جارہی تھی‘ اس کا ریٹ چین میں بیٹھے عزیز دے رہے تھے۔ اور ان ڈالروں کی ادائیگی چین میں کرنے کے بجائے اس کمپنی کو دبئی میں کی گئی۔ یوں پاکستان سے کیش کے بدلے ڈالر لے کر چین سے آرڈر منگوا کر ڈالرز دبئی میں ادا کیے گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کون سا کاروبار ہے جو وہ دو کمپنیاں کر رہی تھیں کہ پانچ سال میں 60 ارب روپے کیش اکٹھا ہوگیا۔
محسن عزیز نے ان برسوں کا حساب کتاب کر کے بتایا کہ ہر روز بینکوں میں بارہ کروڑ روپے کیش جمع ہورہا تھا۔ اب ایسا کون سا کام ہو سکتا ہے کہ کوئی پارٹی چار پانچ سال تک روزانہ بارہ کروڑ روپے کیش کما کر بینکوں میں جمع کرائے۔ سٹیٹ بینک نے بھی کہیں پر الرٹ جاری نہیں کیا کہ اتنی بڑی تعداد میں کیش کیسے جمع ہو رہا تھا۔ بینک‘ جو اس کیش کو ڈیپازٹ کررہے تھے‘ وہ بھی خاموش تھے یا پھر مبینہ طور پر اس میں شریک تھے اور امکان یہی ہے کہ بینک منیجرز سے لے کر اوپر تک‘ سب ملے ہوئے ہوں گے۔ یوں کہہ لیں کہ پورے کا پورا بینک ملا ہوا تھا۔ ہم پوری دنیا سے ڈالرز قرضوں پر لے کر اپنے ملک لاتے ہیں۔ دو تین کمپنیان‘ جن کے مالکان کے نام کو چھپایا جا رہا ہے‘ وہ اٹھتے ہیں اور 60 ارب کیش پر ڈالرز سٹیٹ بینک سے لے کر دبئی بھجوا دیتے ہیں جبکہ ہم دبئی سے اس وقت چار فیصد مارک اَپ پر تین چار ارب ڈالرز لوقرض لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب جب اس معاملے پر کمیٹی میں بریفنگ ہونی تھی تو اس وقت افسران نے مطالبہ کیا کہ جناب! اس میٹنگ سے صحافیوں کو اٹھا دیا جائے جس پر محسن عزیز نے احتجاج کیا۔
اب اس معاملے پر سٹیٹ بینک‘ تمام کمرشل بینکوں‘ کسٹمز حکام اور ایف بی آر پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ان کی نظروں کے سامنے اتنی بڑی واردات کیسے ڈالی گئی۔ پہلے بینکوں نے 60 ارب روپے کیش ڈیپازٹ پر جان بوجھ کر خاموشی اختیار کیے رکھی۔ سٹیٹ بینک نے اس پر الرٹ جاری نہیں کیا‘ الٹا اس کیش کے بدلے ڈالرز جاری کر دیے۔ کسٹمز اور ایف بی آر بھی نوٹ نہ کر سکے کہ سولر پینل اتنے مہنگے کیوں امپورٹ ہورہے ہیں۔ ان کے سولر امپورٹ ریٹس اور دوسرے سولر ریٹس میں زمین آسمان کا فرق کیوں ہے؟ کسی نے بھی پوائنٹ آؤٹ نہیں کیا۔ یوں پاکستان سے کروڑوں ڈالرز نکل گئے۔ اب وہ سب محکمے کہہ رہے ہیں کہ جناب! آپ اس ایشو کو یہیں چھوڑ دیں‘ اس ایشو کو عوام میں نہ لائیں۔ میڈیا کو یہاں سے اٹھا دیں۔ صرف یہی نہیں! میڈیا کو واقعی اجلاس سے اٹھا دیاگیا تاکہ ملک کو لوٹنے والے بدنام نہ ہو جائیں۔
اس کے بعد ایف بی آر کے نئے چیئرمین راشد لنگڑیال نے بھی یہی راستہ اختیار کیا کہ جناب صحافیوں کو باہر بھیج دیں‘ بڑے حساس موضوعات پر بات کرنی ہے جس کا علم ان کو نہیں ہونا چاہیے۔ پہلے سب سمجھے کہ راشد لنگڑیال صاحب کوئی بہت بڑا بم ڈراپ کریں گے جس کی پن وہ صحافیوں کی موجودگی میں نہیں نکال سکتے‘ لہٰذا صحافی وہاں سے چلے جائیں۔ ہم سب اٹھ کر باہر چلے گئے کیونکہ کمیٹی چیئرمین کا حکم تھا۔ ہم صحافی بھی یہی سمجھے کہ بہت اہم باتیں ہوں گی مگر اِن کیمرہ اجلاس کے بعد پتا چلا کہ اس اجلاس کا لب و لباب ایک ہی تھا کہ جناب! ہم ایف بی آر میں بڑے بڑے کام کرنے جارہے ہیں اور افسران کو تبدیل کررہے ہیں۔ وہ ہم پر دباؤ ڈلوا رہے ہیں‘ سفارشیں کرا رہے ہیں‘ بہت رولا ڈال رہے ہیں‘ شور شرابہ کررہے ہیں۔ لیکن براہِ مہربانی آپ ان کے پروپیگنڈا میں نہ آئیں اور اس ایشو کو کمیٹی سے دور رکھیں۔ ان ٹرانسفر پوسٹنگز کے بعد ہی ایف بی آر میں وہ کوئی بڑا کام کر سکتے ہیں۔ بتایا گیا کہ افسران اپنی مرضی کی پوسٹنگ لینے کیلئے سفارشیں کرا رہے اور دباؤ ڈلوا رہے ہیں۔ لیکن جس راز کی بات کیلئے یہ اِن کیمرہ اجلاس ہوا تھا‘ وہ راز ایک دن پہلے ہی سرکاری لیٹر کی شکل میں تمام ایف بی آر افسران تک پہنچ چکا تھا اور اس کی کاپیاں سوشل میڈیا پر چل رہی تھیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں