یہ سوال اُس وقت پیدا ہوا ہے جب حال ہی میں دو ایسے معاہدوں کے مندرجات منظر عام پر آئے ہیں جنہوں نے عوام کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ آخر جن لوگوں نے یہ معاہدے کیے‘ وہ کیا واقعی اس ملک اور قوم کے وفادار تھے؟ میری تحریریں اس بات کی گواہ ہیں کہ میں کبھی کسی کی حب الوطنی پر سوال نہیں اٹھاتا اور نہ ہی میرا مینڈیٹ ہے کہ میں ایسے سرٹیفکیٹ بانٹوں اور خود کو زیادہ محب وطن سمجھوں۔ سب لوگ میرے نزدیک اس ملک کے وفادار ہیں‘ لیکن حکمرانوں پر یہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ہم عوام سے زیادہ اس ملک اور ریاست کے وفادار ہوں کیونکہ انہیں عوام اپنا حکمران چنتے ہیں۔ وزیراعظم ہو‘ صدر ہو‘ وزیر ہوں یا ممبر اسمبلی‘ وہ سب حلف اٹھاتے ہیں کہ اس ملک اور قوم سے وفاداری کریں گے۔ اس ملک کے عوام اپنے ملک سے وفاداری کا حلف تو نہیں اٹھاتے لیکن پھر بھی سب ملک سے محبت اور وفاداری کرتے ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ کیمروں کے سامنے اونچی آواز میں حلف اٹھاتے ہیں‘ کیا انہیں اندازہ بھی ہے کہ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے اور ان کے کندھوں پر کتنی بھاری ذمہ داری ڈال دی گئی ہے؟ یا پھر چند سطروں کے اس حلف نامے کو وہ محض ایک رسمی کارروائی سمجھتے ہیں جس کے ختم ہوتے ہی وہ بھاگ کر وزیراعظم‘ صدر یا وزیر کی کرسی پر بیٹھ کر خود پر ناز کرتے ہیں کہ دیکھا‘ خدا نے انہیں کسی بڑے مقصد کیلئے پیدا کیا تھا۔ ان حکمرانوں کا حال حلف لینے سے پہلے اس میڈیکل سٹوڈنٹ جیسا ہوتا ہے جو ایف ایس سی میں اچھے نمبرز لینے کے بعد اپنے انٹرویو میں دکھی انسانیت کی خدمت کے دعوے کرتا ہے اور پھر ڈاکٹر بن کر جو ''خدمت کا صلہ‘‘ وصول کرتا ہے وہ عوام کی چیخیں نکال دیتا ہے۔ عوام ڈاکٹروں کی اکثریت کی فیس تک افورڈ نہیں کر سکتے( یقینا اچھے ڈاکٹرز بھی موجود ہیں‘ سب کی بات نہیں ہو رہی)۔ فیس افورڈ نہ کرنے کی بات پر مجھے امریکہ میں ٹاپ پاکستانی نیورولوجسٹ ڈاکٹر سعید باجوہ یاد آئے جن کے امریکہ کے ہسپتال کے دفتر میں رکھی ایک فریم شدہ تصویر بارے میں نے پوچھا تھا تو انہوں نے فخر سے جواب دیا کہ یہ میرے والد کی ہے‘ انہوں نے کہا تھا ''سعید پتر اینا وڈا ڈاکٹر نہ بن جائیں کہ لوک تیری فیس نہ دے سکن‘‘۔ کہنے لگے: روز دفتر آکر اور باپ کی تصویر دیکھ کرجب اپنا کام شروع کرتا ہوں تو ان کی نصیحت یاد رہتی ہے۔
بات چلی تھی کہ کیا ہمارے حکمران اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے اس ملک اور عوام کے مفادات کو ترجیح دیں گے۔ کیا ہمارے حکمران یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اہم مواقع پر پاکستان اور عوام کے مفادات کو ترجیح دی تھی؟ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے کو دیکھ لیں۔ کیا صدرزرداری عوام کو مطمئن کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اس معاہدے پر دستخط کرتے وقت صرف ملک اور عوام کا بھلا سوچا تھا۔ ایران اس گیس پائپ لائن معاہدے کی خلاف ورزی پر اب اٹھارہ ارب ڈالر کا ہرجانہ مانگ رہا ہے جو صدر زرداری نے 2008ء میں ایرانیوں سے طے کیا تھا۔ اس طرح کیا نواز شریف اور شہباز شریف اس بات کا حلف دے سکتے ہیں کہ انہوں نے 2013-18ء کے درمیان ملک میں جو پاور پلانٹس لگائے تھے‘ ان میں عوام اور ملک سے زیادہ ان کے اپنے مفادات نہیں تھے اور ان کے اپنے رشتہ دار اور عزیز اس کھیل سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل نہیں تھے۔
اس طرح کیا عمران خان نے بھی اپنے حلف کی پاسداری کی جب انہوں نے پاک ایران گیس پائپ لائن کے نام پر اکٹھے کیے گئے سات سو ارب روپے میں سے تین سو ارب بزنس مینوں کو معاف کر دیے تھے۔ آئی پی پی کے مالک اور ان کے اپنے مشیر‘ ڈونرز اور کاروباری دوست بھی فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ عمران خان نے بلا سوچے سمجھے تین سو ارب روپے بڑے بڑے کاروباریوں کو معاف کر دیے جو پاک ایران گیس پائپ لائن بچھانے کے نام پر عوام سے اکٹھے کیے گئے تھے۔ مطلب کون سا حکمران گزرا ہے جس نے ایک لمحے کے لیے بھی عوام اور ملک کا سوچا ہو؟
آصف علی زرداری نے اُس وقت ایران سے گیس پائپ لائن معاہدہ کیا جب ایران عالمی پابندیوں کا شکار تھا۔ پاکستان کو علم تھا کہ امریکہ یہ ڈیل پوری نہیں ہونے دے گا‘ لیکن پھر بھی صدرِ مملکت نے ایران سے ڈیل سائن کی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم ایران کو بزنس دے کر فیور کررہے تھے کیونکہ وہ عالمی تنہائی کا شکار تھا‘ لیکن اس معاہدے کے تحت ایران نے پاکستان کو گیس بھی مہنگی دی اور یہ معاہدہ طے کرنے والوں نے بڑی ''سمجھداری‘‘ سے ایران کو یہ ہتھیار بھی دے دیا کہ اگر پاکستان اس سے گیس نہ لے سکا تو ہرجانہ دے گا اور اس کی ثالثی فرانس میں ہو گی۔ یعنی اُس معاہدے میں‘ جو پاکستان ایران کو فیور دینے کیلئے کر رہا تھا‘ سب شرائط ایران کی مانی گئیں۔ لگتا ہے کہ ہم عالمی پابندیوں کے شکار ایران سے گیس لینے نہیں گئے تھے بلکہ ایران پاکستان پاس آیا تھا اور اس نے اپنی مرضی کی شرائط پر ہمیں گیس بیچی۔ پاکستان میں ایرانی گیس سے ایک چولہا تک نہیں جلا اور ایران نے اس گیس کے اٹھارہ ارب ڈالرز مانگ لیے ہیں۔ یہ تھی ہمارے حکمرانوں کی دور اندیشی کہ انہوں نے اس معاہدے سے حکومت اور عوام کے ہاتھ باندھ دیے۔
اب ذرا آئی پی پیز کو دیکھ لیں۔ لگتا ہے اس ملک میں ڈالروں کی مشینیں لگ گئی ہیں‘ جو اٹھتا ہے وہ ڈالروں میں ادائیگی کے معاہدے کرتا ہے اور پھر یہ ادائیگیاں کرنے کے کیلئے آئی ایم ایف‘ چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے سود پر ڈالرز لیتا ہے۔ اب آئی پی پیز معاہدوں کو ہی دیکھ لیں کہ کیسے فی یونٹ قیمت کو ڈالر سے جوڑ دیا گیا جیسے بینک آف امریکہ ہم سے ڈالر چھپواتا ہو۔ ایک تو ٹیرف زیادہ دیا اور پھر اوپر سے اس ملک میں جتنی بجلی کی مانگ تھی اس سے سترہ ہزار میگا واٹ زیادہ کے پلانٹس لگوا دیے۔ اس پر بھی بات ختم نہیں ہوئی بلکہ ساتھ معاہدوں میں یہ شق بھی لکھوا دی کہ اگر ان بجلی گھروں سے بجلی نہ خریدی گئی تو بھی ادئیگی پوری ہوتی رہے گی جسے کپیسٹی چارجز کا نام دیا گیا۔ یوں اس ملک میں جہاں گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ ضرورت 25‘ 26 ہزار میگا واٹ ہے وہاں 42 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگوا دیے گئے۔ اب ان پلانٹس کے مالکان سترہ ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کیے بغیر پیسے لے رہے ہیں۔ سابق سیکرٹری راشد محمود لنگڑیال‘ جو اَب چیئرمین ایف بی آر ہیں‘ نے کمیٹی اجلاس میں کہا تھا کہ انہوں نے تو بعض آئی پی پیز کو کہا ہوا ہے کہ آپ بجلی پیدا نہ کریں‘ آپ ہم سے پیسے لے لیا کریں جو معاہدے کے تحت دینے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ بجلی پیدا کر کے دیں گے تو وہ زیادہ مہنگی ہوگی لہٰذا ہم نے کہا کہ آپ بس پیسے لیتے رہیں۔
اب بتائیں ایسے معاہدے جن حکمرانوں اور افسران نے مخصوص خاندانوں کی خوشنودی اور اپنی پوسٹنگ‘ ٹرانسفر کے لالچ میں کرائے ‘ کیا وہ اس ملک اور عوام کے دوست اور سگے ہیں؟ یہ اندھیروں کو روشنیوں میں بدلنے کا نعرہ لگانے والے اپنے کسی ذاتی کارخانے کیلئے ایسا معاہدہ کریں گے کہ وہ کسی پلانٹ کو اربوں کی ادائیگی کرتے رہیں چاہے وہ انہیں سروس کوئی نہ دے؟ یا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ‘ کہ ایرانی گیس سے پاکستان میں ایک چولہا تک نہیں جلا لیکن 18 ارب ڈالرز کا بل تیار ہے۔ حکمرانوں نے بابوز کے ساتھ مل کر اس ملک اور قوم ہمیشہ کو دھوکا دیا ہے۔ دھوکا شاید چھوٹا لفظ ہے۔ انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزیاں کی ہیں کہ ملک اور قوم کا مفاد مقدم رکھیں گے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی ہے اور ملک کا یہ حال کر دیا ہے۔ ان حکمرانوں نے اپنے ایک پاؤ گوشت کے لیے پورا اونٹ ہی ذبح کر دیا ہے۔کم از کم ایسے لوگ ہمارے سگے نہیں ہیں۔