گوتم بدھ نے اپنے ایک چیلے کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن اور کوئی نہیں‘ اس کی اپنی خواہشات ہیں‘ لیکن مجھے لگتا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کی خواہشات سے زیادہ اس کی اَنا ہے۔ آپ اپنی خواہشات کو لگام ڈال سکتے ہیں‘ خود کے ساتھ ڈائیلاگ کرکے کسی حد تک خواہش پر قابو پایا جا سکتا ہے‘ لیکن انسان کی اَنا بہت خوفناک چیز ہے جس پر اگر ایک دفعہ کوئی بات آ جائے تو پھر آپ کے قابو میں کچھ نہیں رہتا۔ انسان اَنا کے زیر اثر یا تو خود کو تباہ کر لیتا ہے یا دوسرے کو‘ یا پھر دونوں ہی تباہ ہو جاتے ہیں۔ ہر انسان کے اندر کسی حد تک نرگسیت پائی جاتی ہے۔ اپنی ذات سے ہر کوئی محبت کرتا ہے۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو شاید زندگی میں دلچسپی کھو بیٹھیں گے۔ اگر آپ کو اپنا آپ ہی اچھا نہیں لگتا تو دوسرے خاک اچھے لگیں گے؟ لیکن یہ نرگسیت بعض لوگوں میں ایک نفسیاتی مرض کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور وہ خود کو خدا کی خصوصی مخلوق سمجھ لیتے ہیں‘ جس کی تعظیم اور احترام یا اس کے سامنے جھکنا اور اس کا حکم بجا لانا عام لوگوں کا فرض ہے۔ آپ کو اپنے اردگرد ایسے کئی کردار نظر آتے ہیں جو اپنی ذات کی محبت میں گم ہیں۔ وہ ہر بندے سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے لاڈ اور ناز نخرے اٹھانے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ ایسا شخص اپنی الگ بنائی دنیا میں رہنا شروع کر دیتا ہے اور پھر اس کی انا کا خول اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ وہ اسے توڑ کر باہر نہیں نکل پاتا اور ایک دن اسی میں دفن ہو جاتا ہے۔
آپ کو پاکستانی سیاست میں اس وقت یہی چیز نظر آئے گی۔ ہر سیاستدان اپنے رومانس میں گرفتار ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ اس ملک کو دوسرے سے بہتر چلا سکتا ہے۔ وہ بہتر وزیراعظم ثابت ہو سکتا ہے‘ وہ گورننس کو بہتر جانتا ہے۔ اس کے پاس کئی فارمولے اور حل موجود ہیں‘ بس اسے موقع دے دیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جو بھی وزیراعظم بنا وہ ملک کو پہلے سے زیادہ بڑے بحران میں چھوڑ کر گیا۔ لیکن ہر کسی نے کہا کہ اسے پورا موقع نہیں ملا‘ ورنہ وہ ملک کی قسمت بدل دیتا۔ ویسے یہ ہے تو زیادتی کہ کوئی ایک وزیراعظم بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ بھٹو صاحب کے پاس موقع تھا کہ وہ پانچ سال پورے کر لیتے لیکن وہ جلدی الیکشن کے چکر میں نہ صرف اقتدار کھو بیٹھے بلکہ جان سے بھی گئے۔ شاید عمران خان نے بھی بھٹو کے فارمولے پر چلنے کی کوشش کی اور وقت سے پہلے الیکشن کرانے کا سوچا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر قومی اسمبلی‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑ کر ملک میں الیکشن کرا دیں تو ان کی پارٹی دو تہائی اکثریت سے اقتدار میں واپس آجائے گی۔ عمران خان بہرحال بھٹو صاحب سے زیادہ خوش قسمت تھے کہ اب تک جان بچی ہوئی ہے‘ ورنہ کسر تو انہوں نے کوئی نہیں چھوڑی۔ میرے خیال میں عمران خان نے اس ملک کے سسٹم پر اس کی سکت سے زیادہ وزن ڈال دیا ہے۔ جس طریقے سے سیاستدان ایک ہائبرڈ سسٹم کے تحت دھیرے دھیرے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو رہے تھے‘ خان کے اس اقدام سے اس عمل کو بڑا جھٹکا لگا اور اب مقتدرہ سب پر حاوی ہو گئی ہے۔ میری اکثر دوستوں سے بحث رہتی ہے کہ دنیا کا ہر ملک اس صورتحال سے گزرا ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ جن ممالک کی ہم مثالیں دیتے ہیں اگر ان کی تاریخ پڑھ لیں تو آپ کو پاکستان ان کے مقابلے میں بہت بہتر لگے گا۔ انسان کہیں بھی رہتے ہوں‘ ان کی جبلت ایک جیسی ہوتی ہے لہٰذا ترقی ہو یا تباہی‘ وہ ہر جگہ ایک جیسی ہی رہتی ہے۔ انسانوں کا ایک دوسرے کو قتل یا تباہ کرنے کا جذبہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا صدیوں پہلے تھا۔ جب ہم دنیا کی تاریخ کے خونخوار حملہ آوروں کے قصے پڑھتے ہیں تو ہمیں عجیب سا لگتا ہے کہ یہ کون لوگ تھے جو ہر وقت قتل و غارت اور تباہی و بربادی میں لگے رہتے تھے۔ انہیں اس کے علاوہ کوئی کام نہ تھا کہ دوسرے کو قتل کرکے‘ ان کے علاقوں پر قبضہ کرکے سب لوٹ لو یا پھر خود لڑتے ہوئے مارے جاؤ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ ہم سمجھتے تھے کہ آج کا جدید انسان اس طرح کی بربریت اور قتلِ عام کا حصہ نہیں بنے گا۔ وہ اب جنگیں نہیں لڑے گا۔ وہ مخالفوں کی نسل کشی نہیں کرے گا۔ وہ خود بھی زندہ رہے گا اور دوسروں کو بھی زندہ رہنے دے گا‘ لیکن ایسا نہیں ہے۔ چلیں مان لیا کہ ایک‘ دو ہزار سال پہلے کا انسان وحشی ہوگا لیکن کیا وہ آج کے دور کے انسان سے زیادہ وحشی تھا؟
آپ کا کیا خیال ہے کہ جتنے لوگ دوسری عالمی جنگ میں مارے گئے‘ اتنے لوگ اُن حملوں یا جنگوں میں مارے گئے ہوں گے جن کا ذکر ہم عالمی جنگوں سے پہلے کی تاریخ میں پڑھتے آئے ہیں؟ بتایا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں دو کروڑ لوگ مارے گئے‘ کیا اُن لاتعداد جنگوں میں اتنے لوگ مارے گئے تھے؟ ہم پہلی عالمی جنگ کا ذکر رہنے دیتے ہیں کہ اُس جنگ میں کیا تباہی ہوئی۔ قدیم زمانے کے جنگجو‘ جن کے پاس سب سے بڑا جنگی ہتھیار تلوار اور گھوڑا تھا‘ وہ کتنے لوگوں کو جنگ میں قتل کر پاتے ہوں گے؟ پھر اُس دور میں زیادہ تر لڑائیاں طویل عرصے تک نہیں چلتی تھیں۔ ہاں بعض دفعہ قلعوں کا محاصرہ طویل ہو جاتا تھا لیکن جب ایک دفعہ جنگ شروع ہو جاتی تو عموماً صبح سے شام تک فیصلہ ہو جاتا تھا۔ ایک دن میں تلواروں سے کتنے لوگ قتل ہو سکتے تھے؟ لہٰذا مرنے والوں کی تعداد کم ہی رہی۔ پھر دنیا کی آبادی کتنی تھی۔ بہت کم شہر آباد تھے‘ زیادہ تر آبادیاں دور دور تھیں‘ ہر قبیلہ اپنی دنیا میں مگن تھا۔ اپنے رسم و رواج اور اپنی تہذیب۔ اُن لوگوں کی یہ پُرسکون زندگی تو اُن یورپیوں نے خراب کی جو دنیا کے سیر سپاٹے پر نکلے اور سمندر کے راستے پوری دنیا دریافت کر لی۔ یورپین ایڈونچر کے شوقین تھے اور یوں شوق شوق میں انہوں نے جہاں ہندوستان‘ افریقہ اور امریکہ جیسے بڑے ملک دریافت کیے‘ وہیں انہوں نے قوموں کو محکوم بھی بنایا اور ان پر حکمرانی بھی کی۔ یورپی حملہ آور اپنے ساتھ بربادی‘ تباہی اور خون خرابہ لائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ محکوم دھرتی کے لیے تعمیر وترقی بھی لائے۔ یہ ایک لمبی بحث ہے کہ کیا ترقی کیلئے بربادی ضروری ہے۔
دوسری طرف ترقی کی یہ صورتحال ہے کہ سوشل میڈیا نے لوگوں کی زندگیوں کو تیز تر کر دیا ہے۔ اب لوگ فوراً ہر مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ پاکستانی برسوں سے سوشل میڈیا استعمال کر رہے تھے لیکن اب اس کا استعمال کچھ حلقوں کو کھٹک رہا ہے۔ کبھی وہ بھی دور تھا جب سوشل میڈیا کے انقلاب کو 'ففتھ جنریشن وار‘ کا نام دے کر مقتدرہ نے سینکڑوں keyboard warriors بھرتی کر لیے تھے۔ اُس وقت کہا گیا کہ اب جنگ زمین پر نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر لڑی جائے گی۔ اب وہی جنگ گلے پڑ گئی ہے۔ اب وہی سوشل میڈیا جنگجو سنبھالے نہیں جا رہے۔ اس کا خمیازہ اب پورا ملک بھگت رہا ہے۔ سست رفتار انٹرنیٹ‘ فائر وال یا پھر وی پی این‘ مختصراً یہ کہ اب انٹرنیٹ استعمال کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ ان کارروائیوں سے وقتی طور پر تو کچھ کامیابی مل سکتی ہے لیکن لانگ ٹرم میں ایسے اقدامات سب کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کو آپ نہیں روک سکتے۔ اسے روکا جا سکتا تو دنیا یہاں تک نہ پہنچ پاتی۔
اوپر سے اس ملک میں جاری اَنا کی جنگ نے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ ہر سیاسی لیڈر یا مقتدرہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہی اس ملک کو بچا سکتے ہیں۔ وہی بات کہ ہم دوسروں سے بہتر ہیں۔ ہم کسی خاص مقصد کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ سوچتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ایسے کرداروں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں جو کبھی خدائی کا دعویٰ کرتے تھے۔ لیکن وہی بات کہ انسان ہزاروں سال سے اپنی اسی جبلت کے ہاتھوں شکست کھاتا آیا ہے کہ میں دوسروں سے بہتر ہوں۔ میں بہادر ہوں‘ میں خاص ہوں‘ میں اس دنیا میں صرف حاکم بننے آیا ہوں۔