میں لوگوں کی رائے کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تو اس کے پیچھے خدا نخواستہ تکبر یا غرور نہیں بلکہ کچھ دلچسپ تجربات ہیں۔ میں دوسروں کی رائے سُن لیتا ہوں لیکن زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔ شاید یہی سلوک دوسرے میری رائے کے ساتھ کرتے ہوں گے کہ سن لیا یا پڑھ تو لیا لیکن زیادہ متاثر نہیں ہوتے ہوں گے۔ شاید یہی انسانی مزاج ہے۔
امریکہ میں تھا تو صاف ظاہر ہے‘ وہاں پاکستانیوں سے بھی ملاقات ہوئی اور موضوع پاکستان ہی تھا۔ میں نے اپنے ایک دوست کا کمنٹ انہیں سنایا کہ اوور سیز پاکستانی جب کسی دوسرے ملک میں جا بستے ہیں تو اکثر وجوہات معاشی ہوتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی بہتر بنانا چاہتے ہیں‘ انہیں وہ ممالک زیادہ بہتر لگتے ہیں لیکن ان پر ایک دبائو ہمیشہ رہتا ہے کہ انہوں نے درست فیصلہ کیا‘ وہ اچھے رہے۔ جبکہ ہمارے جیسے پاکستانی‘ انہیں لگتا ہے کہ وہ پھنس گئے ہیں۔ اگر انہیں امریکہ اور دیگر ممالک میں مشکلات بھی پیش آئیں تو وہ آپ کو نہیں بتائیں گے کیونکہ اس سے ان کا بیانیہ کمزور پڑنے لگتا ہے۔ ان میں سے اکثر پاکستان کی برائیاں آپ کو گنوائیں گے کیونکہ پاکستان کو نیچا دکھا کر ہی وہ اپنا قد بڑا کر سکتے اور ہمیں شرمندہ کر سکتے ہیں کہ دیکھا! ہمارا فیصلہ کتنا شاندار تھا۔ ان کا فوکس پاکستان کی کمزوریاں تلاش کرنے پر رہے گا‘ ہماری ہر بات برُی لگے گی اور امریکہ کی ہر بات میں وہ اچھائی ڈھونڈ لیں گے۔ وجہ وہی ہے کہ وہ اپنے پاکستانی رشتہ داروں کے سامنے شرمندہ تھوڑی ہوں گے کہ ان کا فیصلہ غلط تھا اور جو پاکستان میں رہتے ہیں وہ ان سے بہتر ہیں۔ ایک دوست کہنے لگا کہ اب کی دفعہ جب وہ پاکستان گئے تو اکثر لوگوں نے حالات کا رونا رویا۔ میں نے کہا: وہ آپ کے سامنے اس لیے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر روتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ شاید آپ جاتے جاتے کچھ ڈالرز انہیں دے جائیں گے۔ ایک اور دوست کا کمنٹ پڑھ رہا تھا‘ ان کا کہنا تھا کہ بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کا اتنا قصور نہیں ہے۔ پاکستانی رشتہ دار یا جنہیں وہ ہر ماہ پیسے بھیجتے ہیں‘ انہوں نے ملک کا نقشہ ہی ایسا کھینچا ہے کہ جیسے یہاں بہت بربادی ہو گئی ہے۔ ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسے منگوانا ہے‘ لہٰذا حالات کو ایسے ہی دکھانا پڑے گا جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہو۔ یوں جب بیرونِ ملک پاکستانی سنتے ہیں کہ زیادہ ڈالرز بھیجو‘ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے تو وہ یقینی طور پر دبائو میں آ جاتے ہیں اور ملکی حالات کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس سے ان کے اندر غصہ مزید بڑھ جاتا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ بس پاکستان ڈوب گیا اور صرف عمران خان ہی اسے بچا سکتا ہے۔
مزے کی بات ہے جب عمران خان وزیراعظم تھے اور میرا امریکہ کا چکر لگا تو پاکستانیوں کی اکثریت ان سے ناراض تھی‘ خصوصاً جس طرح کی ٹیم انہوں نے قوم کو لیڈ کرنے کے لیے بنائی تھی۔ اُس وقت وہ مجھ سے لڑتے تھے کہ یہ تھی خان کی ٹیم‘ جس کا ڈھنڈورا اس نے بائیس سال پیٹا کہ اس کے پاس دنیا کے بہترین لوگ حکومت چلانے کے لیے موجود ہیں۔ خصوصاً عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بنائے جانے پر وہ ششدر رہ گئے کہ بھلا وہ کیسے اس طرح کے بندے کو بارہ کروڑ کا صوبہ چلانے کے لیے دے سکتا ہے؟ ابھی ان کی نظروں کا فوکس خیبر پختونخوا کا وزیراعلی محمود خان نہیں تھا جس کی حالت بزدار سے بھی برُی تھی۔ وہ حیران ہوتے تھے کہ خان نے یہ ہیرے کہاں سے تلاش کیے۔ پھر جب پنجاب میں مار دھاڑ اور بیورو کریسی نے لوٹ مار شروع کی اور تین تین ماہ کے لیے ڈپٹی کمشنر کی سیٹ بکنا شروع ہوئی تو اوور سیز پاکستانیوں کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ عمران خان سے بیزار ہو گئے۔ انہیں لگتا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے اور مجھ سے بحث کرتے تھے کہ میں نے ہاتھ کیوں ہولا رکھا ہوا ہے۔ اس پر مجھے اپنے گائوں کے لوگ یاد آ جاتے ہیں جو عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد بہت مایوس تھے اور کچھ عرصہ بعد شہباز شریف سے بھی مایوس تھے۔ وہی جو پہلے عمران خان سے مایوس تھے‘ اب وہ کہتے ہیں کہ نہیں جناب! خان اگر وزیراعظم ہوتا تو آج ہم امریکہ کو ٹکر دے چکے ہوتے۔ میں ہنس کر پوچھتا ہوں کہ آپ کو امریکہ سے ٹکر کیوں لینی ہے؟ آپ امریکہ میں رہتے ہیں یا امریکہ جا کر رہنا چاہتے ہیں لیکن ٹکر بھی امریکہ کو دینا چاہتے ہیں۔ مطلب میرے ذہن میں یہ بات نہیں سماتی کہ عمران خان امریکہ سے ٹکر کیوں لینا چاہتا تھا۔ اس نے سعودیوں سے بھی ٹکر لی‘ چینیوں سے بھی لی‘ یورپی یونین سے بھی ٹکر لی اور امریکہ سے بھی ٹکر لینی تھی مگر اب خود جیل میں ہے جبکہ اس کی پارٹی کے لیڈر انہی امریکیوں اور یورپینز سے اس کی رہائی کے لیے مدد مانگ رہے ہیں جن سے وہ ٹکر لیتا رہا۔
عمران خان اس ملک اور قوم کو بہتری کی راہ پر ڈالنے کے لیے لائے گئے تھے یا انہوں نے اُن ملکوں سے ٹکر لینی تھی؟ آج تک مجھے سمجھ نہیں آئی ان ملکوں سے ٹکر لے کر عمران خان کو کیا ملنا تھا یا اس میں قوم کا کیا بھلا ہونا تھا۔ امریکہ سے ہمیں جنگی اسلحہ‘ معاشی امداد‘ آٹھ دس ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ ملتی ہیں۔ ہمارے بچے وہاں اعلیٰ یونیورسٹیوں میں پڑھنے جاتے ہیں۔ اس طرح یورپی یونین نے آپ کو ایک ارب ڈالرز کا جی ایس پی پلس سٹیٹس دیا ہوا ہے جس کے تحت ہماری اشیا پر یورپ میں کم ڈیوٹی لگتی ہے‘ اس سے پاکستان میں ہمارے کارخانے چلتے ہیں اور لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے‘ فارن ریزرو بھی آتا ہے جس کو رکوانے کے لیے خان صاحب نے آج کل تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ سعودی عرب‘ جس کا ولی عہد عمران خان کو اپنا بڑا بھائی کہتا تھا‘ اس سے بھی ٹکر لی حالانکہ اس نے خان دور میں دس‘ بارہ ارب ڈالرز کا پیکیج دیا تھا جس میں تین‘ چار ارب ڈالرز کا پٹرول‘ ڈیزل شامل تھا۔ بدلے میں خان نے الگ سے ایک او آئی سی بنانے کا منصوبہ شروع کر دیا تاکہ ترکیہ‘ ایران اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر الگ مسلم بلاک بنایا جائے۔ چینی منصوبے جو پاکستان میں چل رہے تھے‘ ان کو روک دیا گیا۔ برطانیہ کا دو دفعہ دورہ فائنل ہوا لیکن عمران خان نہیں گئے۔ یہ ملک کے غالباً پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے اپنے پونے چار سالہ دور میں برطانیہ کا ایک بھی دورہ نہیں کیا۔ ان سب ممالک کے ساتھ‘ جو پاکستان کے روایتی دوست اور مددگار رہے ہیں‘ خان کی مسلسل لڑائی چل رہی تھی۔ ان سب ممالک کے ساتھ پھڈے اور روزانہ ان کے خلاف تقریریں ہو رہی تھیں‘ اور وہ بھی کھلے عام‘ عوامی جلسوں میں۔
میں نے اپنے ان دوستوں سے پوچھا: مجھے ذرا سمجھائیں کہ دوست ممالک سے لڑنے اور ان کے خلاف تقریریں کرنے کے بعد عمران خان نے اپنی دوستی کا رخ کس کی طرف بدلا؟ آپ سن کر حیران ہوں گے کہ جدید دنیا کے ممالک سے لڑ بھڑ کر‘ ان کو انہوں نے کہا کہ ہم غلام تھوڑی ہیں‘ دوست قرار دیا بھی تو افغان طالبان کو۔ ذرا اندازہ کریں کہ خان نے کن قوتوں کو اپنا دشمن بنایا اور کس کو اپنا دوست بنایا۔ اس کے رول ماڈل ہیروز طالبان تھے‘ جدید دنیا نہیں۔ عمران خان نے ہی ان چالیس ہزار افغان طالبان کو واپس لانے کا منصوبہ بنایا جو پاکستان میں ستر ہزار پاکستانیوں کے قتل کا کریڈٹ لیتے تھے۔ وہ طالبان‘ جنہوں نے پشاور میں ڈیڑھ سو معصوم بچے قتل کر دیے‘ انہیں عزت واحترام کے ساتھ واپس سوات لایا جا رہا تھا۔ آج جس امریکہ سے‘ بقول خان‘ طالبان نے آزادی حاصل کی تھی‘ اسی امریکہ سے خان کی آزادی کا مطالبہ ہو رہا ہے۔
آپ بتائیں پھر ایسے میں لوگوں کی رائے کو کتنی سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے۔ وہی عمران خان جو طالبان کو امریکی غلامی کی زنجیریں توڑنے پر مبارکبار دے رہے تھے‘ آج خود انہی امریکیوں کے ایک ٹویٹ کے محتاج ہیں۔