"RKC" (space) message & send to 7575

یوسف رضا گیلانی‘ بینظیر بھٹو اور شہبازشریف

آج کل خبر گرم ہے کہ چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ اجلاس کی صدارت نہیں کر رہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ احتجاجاً ایسا کر رہے ہیں ۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس احتجاج کی وجہ وہ فیصلہ ہے جو سید یوسف رضا گیلانی نے بطور چیئرمین سینیٹ چند روز قبل دیا تھا۔ پی ٹی آئی نے سینیٹ میں کہا تھا کہ ان کے اسیر سینیٹر اعجاز چودھری کے پروڈکشن آڈر جاری کر کے انہیں ہاؤس میں بلایا جائے۔ گیلانی صاحب نے پروڈکشن آڈرز جاری کیے اور کہا کہ ہاؤس کے ممبر کو پیش کیا جائے لیکن حکومت نے ان احکامات پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہوئے سینیٹر اعجاز چودھری کو ہاؤس میں پیش نہیں کیا۔
گیلانی صاحب کے پاس اب دو‘ تین آپشنز تھے۔ پہلا آپشن تھا کہ وہ ہاؤس میں جا کر پروڈکشن آرڈرز دوبارہ جاری کرتے‘ دوسرا آپشن تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیتے‘ تیسرا آپشن تھا کہ وہ ہاؤس میں اجلاس کی صدارت سے انکار کر دیتے کہ اُس ہاؤس میں نہیں جاؤں گا جہاں میرے احکامات پر عمل نہیں کیا جاتا۔ یا پھر گیلانی صاحب ایسے ظاہر کرتے کہ جیسے انہوں نے کبھی کوئی پروڈکشن آرڈرز جاری ہی نہیں کیے تھے اور کام چلاتے رہتے۔ گیلانی صاحب نے ان سب میں سے ہاؤس کی صدارت نہ کرنے کو بہتر سمجھا‘ مطلب اس طرح وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں کہ اگر ان کی اتنی بات بھی نہیں مانی جاتی تو وہ کیونکر ہاؤس میں جائیں۔
میرے لیے یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے حالانکہ انہیں خود بھی خدشہ ہو گا کہ شاید ان پر عمل نہ ہو سکے۔ اس کی وجہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ایشو حکومت سے زیادہ کسی اور کا ہے۔ فیصلہ حکومت نے کرنا ہوتا تو وہ شاید دیر نہ لگاتی کہ سینیٹر صاحب کو ہاؤس میں پیش کر دیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سینیٹ آف پاکستان‘ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی یا وزیراعظم شہباز شریف کا وقار اتنا غیر اہم ہے کہ پوری دنیا کو دکھا دیا گیا ہے کہ جو کرنا ہے کر لو‘ ہم یہ حکم نہیں مانتے؟ ویسے اگر اعجاز چودھری کو ہاؤس میں پیش کر بھی دیا جاتا تو کون سی قیامت آ جانی تھی۔ جیل میں قید سینیٹر اعجاز چودھری حکومت یا مقتدرہ کا ایک تقریر سے کیا بگاڑ لیتے؟ زیادہ سے زیادہ وہ ایک گھنٹے کی تقریر کرتے‘ حکومت کے بیانیے کو تنقید کا نشانہ بناتے‘ اپنے ساتھ جیل میں ہونے والے سلوک یا اپنے اوپر بنائے گئے مقدمات پر گرجتے برستے‘ عمران خان سے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے‘ اپنے لیڈر کو مہاتما بنا کر پیش کرتے جس کے لیے وہ کوئی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں‘ اور یہ کہ وہ خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے چاہے انہیں ساری عمر جیل میں رکھا جائے وغیرہ وغیرہ۔ آپ یقین کریں کہ اُس تقریر کے بنیادی نکات مجھ سمیت ہر شخص پہلے سے جانتا ہے جو اعجاز چودھری کو سینیٹ اجلاس میں پیش کرنے کی صورت میں وہ ہاؤس کے فلور پر کرتے۔وہ کون سی بات ہے جو اعجاز چودھری نے کرنی تھی جس سے حکومت اور مقتدرہ ڈر گئی کہ کہیں اس تقریر کے بعد حکومت ہی ختم نہ ہو جائے۔ آخر اتنا خوف کس چیز کا ہے؟
عمران خان میڈیا سے عدالتی پیشی پر جو دھواں دھار گفتگو کرتے ہیں‘ کیا اس سے حکومت یا مقتدرہ کو کچھ فرق پڑا جو سینیٹر اعجاز چودھری کی تقریر سے پڑ جاتا؟ اعجاز چودھری کیا عمران خان سے زیادہ سخت گفتگو کر سکتے ہیں؟ ایک بندہ اگر جیل میں ہے اور آپ کے بقول‘ اس کا قانون کے مطابق ٹرائل ہو رہا ہے تو اسے ہاؤس میں پروڈیوس کرنے کا حکم بھی کسی قانون اور قاعدے کے تحت ہی دیا گیا تھا۔ قوانین کا احترام کرنے سے ہی کوئی معاشرہ یا ادارہ چل سکتا ہے۔ ویسے بھی تو روزانہ کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور سینیٹرز قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تبریٰ پڑھتے ہیں۔ شام کو ٹی وی شوز پر بیٹھ کر حکومت کی کلاس لیتے ہیں۔ تو اکیلا سینیٹر اعجاز چودھری ایوانِ بالا میں ایسی کیا نئی بات کہہ دیتا جس سے قیامت آجانی تھی۔ اپنے ہی لائے وزیراعظم‘ چیئرمین سینیٹ اور ایوان کو سب کے سامنے شرمندہ کر کے کیا فائدہ ہوا؟
دوسری طرف یوسف رضا گیلانی کی ان معاملات میں ایک تاریخ ہے۔ جب وہ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں سپیکر قومی اسمبلی تھے تو اُس وقت وزیراعظم بینظیر بھٹو سے ان کی اُس وقت اَن بن ہو گئی تھی جب انہوں نے جیل میں قید ہاؤس کے چند ممبران کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے تھے۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو ان احکامات کو ماننے سے انکاری ہو گئی تھیں۔ اُس وقت نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں چپلقش عروج پر تھی۔ پنڈی کے شیخ صاحب ہاؤس میں بی بی پر بڑے نازیبا جملے کستے تھے۔ ملتان کے بھی دو ایم این ایز جیل میں تھے۔ ہاؤس کے اندر نواز لیگ کے ممبران روز شور ڈالتے تھے کہ ان کے سیاسی قیدیوں کو ہاؤس میں لایا جائے۔ یوسف رضا گیلانی اس معاملے میں اُس وقت بھی ہاؤس کی برتری کے قائل تھے۔ انہوں نے نواز لیگ کے اسیر ایم این ایز کے پروڈکشن آرڈرز جاری کر دیے کہ انہیں ہاؤس میں لایا جائے لیکن وزیراعظم بینظیر بھٹو اس بات پر ناراض ہوگئیں کہ ان کا اپنا لایا سپیکر اپوزیشن کا ساتھ دے رہا ہے۔ جن ایم این ایز کو جیل میں ڈالا گیا تھا ان کے خلاف قانونی ضابطوں کے مطابق کیس بنے ہوئے ہیں لہٰذا ایک ملزم کو ہاؤس میں کیسے لایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بینظیر بھٹو کو یہ بھی غصہ تھا کہ جو ایم این ایز ان پر سرعام جملے اور فقرے کستے تھے‘ گیلانی صاحب ان کو فورم مہیا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنا رونا یہاں روئیں۔
یوں اس وقت کے سپیکر یوسف رضا گیلانی اور وزیراعظم بینظیر بھٹو کے مابین ایک کشمکش شروع ہو گئی۔ گیلانی صاحب پر دباؤ تھا کہ وہ پروڈکشن آرڈرز پر زور نہ دیں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘ جب بینظیر حکومت نے ان پروڈکشن آرڈرز پر عمل کرنے سے انکار کیا تو یوسف رضا گیلانی نے تب بھی قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ جب تک ممبران ہاؤس میں نہیں لائے جاتے‘ اس وقت تک وہ بھی ہاؤس میں نہیں جائیں گے۔ وزیراعظم ہاؤس اور سپیکر آفس کے مابین کچھ دن تک یہ جھگڑا چلتا رہا۔ پھر درمیان میں کچھ وزیر پڑے اور بینظیر بھٹو کو قائل کر لیا کہ وہ سپیکر کو عزت دیں اور ان کے آرڈرز کو مانیں‘ اپنے ہاؤس اور اپنے سپیکر کی عزت بنائیں۔ اسی میں حکومت‘ ہاؤس اور جمہوریت کی عزت ہے۔
بینظیر بھٹو کا میں بہت سے معاملات میں ناقد رہا ہوں لیکن وہ ایک پڑھی لکھی خاتون اور کتاب کی شوقین تھیں۔ کتابیں پڑھنے والا بندہ ہمیشہ دلیل مان لیتا ہے۔ اس کے ذہن میں کچھ وسعت اور لچک ہوتی ہے۔ وہ اپنی بات پر اَڑ نہیں جاتا اور نہ ہی ضد کا مظاہرہ کرتا ہے‘ اگر اسے کوئی مضبوط منطق دی جائے۔ بینظیر بھٹو میں بھی یہ خوبی تھی اور ان کے بعد یہ خوبی میں نے اپنے مرحوم دوست اور محسن ڈاکٹر ظفر الطاف میں دیکھی کہ وہ بہت کتابیں پڑھتے تھے اور اگر دورانِ بحث انہیں کوئی ٹھوس دلیل دی جاتی تو فوراً اپنی رائے بدل لیتے تھے۔ یہی ذہین اور پڑھے لکھے لوگوں کی نشانی ہوتی ہے کہ اگر سامنے سے اچھی منطق دی جائے تو اپنی رائے بدل لیتے ہیں‘ جبکہ کتابوں سے دور انسان اپنی ضد پر قائم رہے گا اور اسے اپنی اَنا کا مسئلہ بنا کر اپنے اور دوسروں کے لیے مسائل پیدا کرے گا۔ اسی لیے بینظیر بھٹو نے یوسف رضا گیلانی کی بات مان لی۔ اپنی حکومت‘ اپنے سپیکر اور ہاؤس کی عزت رکھ لی‘ چاہے انہیں جتنی بھی کڑوی گولی نگلنا پڑی۔
گیلانی صاحب شاید اسی بھول میں دوبارہ پروڈکشن آرڈرز جاری کر بیٹھے اور ناراض ہو کر بیٹھ گئے کہ جیسے بینظیر بھٹو نے انکی عزت رکھ لی تھی ویسے ہی اب شہباز شریف بھی رکھ لیں گے۔ لیکن گیلانی صاحب شاید یہ بھول گئے ہیں کہ شہباز شریف صاحب ہر کام کر سکتے ہیں‘ سوائے کتابیں پڑھنے کے۔ لہٰذا وہ بینظیر بھٹو والی جرأت دکھانے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں