"RKC" (space) message & send to 7575

کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سن … (4)

عمران خان کو اندازہ نہ تھا کہ سوشل میڈیا ان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ وہ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ اس فن میں صرف وہ اور ان کی جماعت ہی ماہر ہیں اور یہ کہ صرف پی ٹی آئی کی میڈیا ٹیم اور ان کے ہمدرد ہی اپنے مخالفین خصوصاً شریف خاندان کو مات دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے مخالفین ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ (ن)لیگ کو جدید دور کی اس خطرناک ٹیکنالوجی کا کوئی اَتا پتا نہیں تھا۔
نواز شریف ملک کے وزیراعظم اور اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب ہونے کے باوجود اس وقت تک ٹویٹر پر اپنے اکاؤنٹ نہیں بنا سکے تھے۔ نواز شریف کو شاید مشکل سے قائل کیا گیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا کو جوائن کریں۔ آخر کار جب وہ جیل سے علاج کرنے لندن گئے تھے تو کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنا اکاؤنٹ اوپن کیا۔ یقینی طور پر اس اکاؤنٹ کو آپریٹ کرنے یا کھلوانے میں مریم نواز صاحبہ کا ہاتھ ہوگا کیونکہ انہیں بہت پہلے پتا چل گیا تھا کہ اب سوشل میڈیا کے بغیر سیاسی یا ذاتی زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ بالکل اُسی طرح جیسے کبھی آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کو قائل کر لیا تھا کہ اگر شریف خاندان کا سیاست میں مقابلہ کرنا ہے تو پھر اُن جتنا پیسہ بھی کمانا ہو گا۔ شاید مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف کو قائل کر لیا تھا کہ اب پرانے انداز اور پرانے صحافیوں یا کالم نگاروں کے ساتھ مل ملا کر یا گپ شپ لگا کر سیاست نہیں کی جا سکتی۔ عمران خان کا مقابلہ کرنا ہے تو سوشل میڈیا پر ایکٹو ہونا پڑے گا۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہو گا۔ یوں نواز شریف قائل ہوئے اور اپنا ٹویٹر اکاؤنٹ کھولا۔ یہ اکاؤنٹ تو نواز شریف کا تھا لیکن وہاں سے ٹویٹ کا فیصلہ مریم نواز ہی کر رہی تھیں۔ نواز شریف کیمپ میں اگر کوئی سوشل میڈیا کی اہمیت اور اس کے خوفناک اثرات سے اچھی طرح واقف تھا تو وہ مریم نواز صاحبہ تھیں کیونکہ وہ پی ٹی آئی کا براہِ راست ٹارگٹ تھیں۔
اگر دیکھا جائے تو عمران خان کے اس سوشل میڈیائی طوفان کے آگے مریم نواز صاحبہ نے کسی حد تک بند باندھنے کی کوشش کی لیکن ان کی یہ کوشش وزیراعظم ہاؤس میں رہتے ہوئے تو کامیاب نہ ہو سکی کہ شاید وہ اس وقت سیکھنے کے عمل سے گزر رہی تھیں لیکن اپوزیشن میں انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینا آ گیا تھا۔ اگرچہ اس دوران ان کی طرف سے ہمارے شہید دوست ارشد شریف کے ایئرپورٹ پر رکھے تابوت پر نامناسب ٹویٹ بھی کیا گیا۔ ان کا خیال تھا کہ ارشد شریف نے ان کی والدہ کے پاکستان لائے گئے تابوت پر ایسا ہی ٹویٹ کیا تھا۔ انہیں کسی نے غلط بتایا تھا۔ ارشد شریف نے مریم نواز صاحبہ یا ان کی والدہ پر کبھی اخلاق سے عاری ٹویٹ نہیں کیا تھا۔ خیر بعد میں انہیں کسی اچھے انسان نے سمجھایا کہ ان مواقع پر ایسا ٹویٹ کرنا نامناسب سمجھا جاتا ہے‘ چاہے وہ بندہ آپ کا کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ رہا ہو‘ جس پر مریم نواز صاحبہ نے وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا۔ میں نے بھی مریم نواز صاحبہ کے اس ٹویٹ پر جواب دیا تھا کہ کسی نے آپ کو غلط بتایا ہے‘ آپ کو گمراہ کیا گیا ہے۔ ارشد شریف نے کبھی ایسی بات نہیں کی تھی۔ ارشد شریف اپنے ٹی وی شوز میں شریف خاندان اور پاناما پر پروگرام کرتا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ ٹویٹر پر ذاتی نوعیت کے حملے کرتا تھا۔ خیر مریم نواز صاحبہ اپنی پارٹی لیڈرشپ کو سوشل میڈیا پر قائل کرنے میں کامیاب رہیں۔
مریم نواز کیلئے ایک اور بڑا مسئلہ یہ تھا کہ (ن) لیگ میں اکثر بزرگ سیاسی رہنماؤں کو سوشل میڈیا کی الف بے تک کا علم نہ تھا جبکہ عمران خان کے پاس ایسے نوجوان تھے جو سوشل میڈیا کا use and abuse اچھی طرح جان گئے تھے بلکہ یوں کہیں کہ شریف خاندان کی جان کو آگئے تھے۔ اس لیے شریف خاندان کیلئے اب اس نئے میڈیم سے دور رہنا اپنا نقصان تھا۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ نواز شریف نے ٹویٹر شاید 2021-22ء میں جوائن کیا جبکہ پی ٹی آئی اس پر دس برس سے حکمرانی کررہی تھی۔ جو بیانیہ عمران خان نے شریف خاندان کی حکومت اور دولت کے خلاف بنانا تھا وہ کب کا بنا کر اس کے ذریعے وزیراعظم بھی بن چکے تھے اور اب نواز شریف کو ٹویٹر پر لانچ کیا جارہا تھا۔ اسی سے اندازہ لگا لیں عمران خان ان سب سے کتنا آگے نکل چکے تھے اور انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین پر غلبہ پا لیا تھا۔ عمران خان اور ان کی ٹیم نے مریم نواز کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو کو بھی ٹارگٹ کیا ہوا تھا۔ خان کے بقول‘ انہوں نے مریم نواز اور بلاول بھٹو کو نوجوان نسل کے سامنے شریف اور زرداری خاندان کی وہ نئی نسل بنا کر پیش کیا تھا جن کے خاندانوں نے تین تین‘ چار چار دفعہ ملک پر حکمرانی کی لیکن اس ملک کی حالت نہ بدل سکے۔ اُلٹا شریف خاندان کے پاس لندن میں جائیدادیں تو زرداری صاحب کے پاس سوئس بینک میں ساٹھ ملین ڈالرز رکھے تھے جو پاکستانی عوام کے پیسے تھے۔ خان نے یہ بیانیہ بنایا کہ اب ان دونوں خاندانوں نے بلاول بھٹو اور مریم نواز کو آگے کر دیا ہے تاکہ یہ عوام پر اگلے تیس چالیس برس مزید حکومت کرسکیں۔ یوں ان دونوں خاندانوں کی مشترکہ حکومت تقریباً سو سال تک محیط ہو جائے گی۔ کیا پاکستانیوں نے ساری عمر اِن دو خاندانوں کے زیر سایہ زندگیاں گزارنی ہیں؟
یہ بات نوجوان نسل کو اچھی طرح سمجھ آرہی تھی اور عمران خان نے یہی بیانیہ دے کر سب کو شریف اور زرداری خاندان کے خلاف کر دیا تھا۔ رہی سہی کسر جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید نے پوری کر دی کیونکہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کی صورت میں جنرل باجوہ کو 2019ء میں مدتِ ملازمت میں توسیع ملنی تھی تو جنرل فیض نے 2022ء میں آرمی چیف بننا تھا جبکہ آئی ایس پی آر کے ایک جنرل نے ڈی جی آئی ایس آئی لگنا تھا۔ ان تین جرنیلوں کا پلان اسی وقت کامیاب ہو سکتا تھا جب عمران خان 2018ء میں وزیراعظم بنتا۔ پھر خان کو وزیراعظم بنوانے کیلئے ان تینوں نے ہر قسم کی طاقت استعمال کی۔ جس جنرل نے ڈی جی آئی ایس آئی لگنا تھا اس نے بھی ایک ٹیم بھرتی کرکے سب کو سوشل میڈیا پر گالی گلوچ پر لگا دیا۔ جو بھی عمران خان کی صلاحیت‘ قابلیت یا ٹیم کی نالائقیوں پر بات کرتا تو اس پر پوری سوشل میڈیا بریگیڈ چھوڑ دی جاتی تھی۔ پھر اینکرز کو دھمکیاں دینے یا نوکریوں سے نکلوانے کا کام شروع ہوا۔ سب کو کہا گیا کہ اگر جرنلزم یا نوکری کرنی ہے تو عمران خان کی بیعت کرنا ہوگی۔ ان جرنیلوں کیلئے یہ اب زندگی موت کا کھیل بن چکا تھا جس میں وہ ہارنا افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ اس پورے کھیل میں عمران خان کے علاوہ کچھ سابق جج صاحبان‘ صحافی‘ مقتدرہ کے حمایت یافتہ اینکرز اور ان سے بڑھ کر سوشل میڈیا کا بہت بڑا کردار تھا۔ اُس جنرل نے ففتھ جنریشن جنگ کے نام پر پورے سوشل میڈیا پر آگ لگا دی تھی۔ سوشل میڈیا اب آگ‘ زہر اور غلاظت اُگل رہا تھا اور کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں تھی۔
عمران خان اس وقت تک تو مزے اور چسکے لیتے رہے جب تک یہ سوشل میڈیا کی آگ مریم نواز اور بلاول بھٹو کا گھر جلا رہی تھی لیکن جب اس بے قابو آگ نے خان کے اپنے گھر کا رُخ کیا اور بشریٰ صاحبہ کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونا شروع ہوا تو انہوں نے ڈی جی ایف آئی اے کو پندرہ لوگوں کی فہرست بھیج دی کہ ان پر دہشت گردی کے پرچے دو کیونکہ وہ بشریٰ صاحبہ کی فوٹو شاپ تصویریں غلط کمنٹس ساتھ سوشل میڈیا پر پھیلا رہے تھے۔ ڈی جی ایف آئی اے اس پر تیار نہ تھا۔ وزیراعظم ہاؤس میں ڈی جی اور خان صاحب کے سینئر افسران میں تلخی تک ہوگئی۔ عمران خان نے بشریٰ صاحبہ کے خلاف مہم پر ایکشن نہ لینے پر ڈی جی بشیر میمن کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔ ڈی جی بشیر میمن بھی ڈٹ گیا۔ جنگ بڑھ گئی تھی۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں