ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن اور وزیراعظم ہاؤس کے مابین سوشل میڈیا کے علاوہ بھی کئی معاملات پر اختلافات چل رہے تھے۔ سوشل میڈیا کا ایشو وزیراعظم ہاؤس اور ڈی جی ایف آئی اے کے درمیان اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا اور وزیراعظم نے بشیر میمن کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا‘ لیکن سندھ کا میمن افسر بھی ڈٹ گیا کہ وہ ایسا کام نہیں کرے گا جس سے یہ تاثر ابھرے کہ وہ وزیراعظم ہاؤس کے دباؤ پر حکومت کے سیاسی مخالفین اور صحافیوں کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے کارروائیاں کررہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے بشیر میمن کو وزیراعظم عمران خان نے بڑی شاباش دی تھی جب انہیں بتایا گیا کہ یہ وہ افسر ہے جس نے سندھ سے تعلق ہونے کے باوجود نواز شریف دور میں آصف زرداری کے 40ارب روپے بینک اکاؤنٹس سکینڈل میں تحقیق کی تھی بلکہ زرداری صاحب اور ان کے درمیان کچھ تلخی بھی ہوگئی تھی۔ میمن نے زرداری صاحب کے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا تھا۔ فالودہ اور رکشے والے بینک اکاؤنٹس کی بھی تفتیش کی گئی بلکہ انور مجید کو بھی ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔ یوں عمران خان جب وزیراعظم بنے تو انہیں بتایا گیا کہ یہ وہی افسر ہے جس نے بینک اکاؤنٹس والے سکینڈل پر بہت کام کیا تھا۔ جب بشیر میمن ڈی جی کے طور پر زرداری صاحب کے خلاف 40ارب سکینڈل کی تحقیقات کررہے تھے تو اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی‘ یوں بشیر میمن کا یہاں اسلام آباد میں تو کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا تھا کیونکہ (ن) لیگ کی حکومت تھی اور اُن دنوں آصف زرداری اور نواز شریف ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہونے کی اداکاری کررہے تھے۔ لیکن سندھ میں بشیر میمن کی بہو‘ جو کہ ڈاکٹر ہے‘ کو تنگ کرنا شروع کر دیا گیا‘ جو کہ سندھی یا دیہاتی کلچر میں نہیں کیا جاتا۔ مردوں کے جھگڑوں میں خواتین کو نہیں لایا جاتا نہ ہی اس طرح کی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ مگر سندھ حکومت وہ فارمولا چلا رہی تھی کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے لہٰذا بشیر میمن کے خاندان کو ٹارگٹ کیا جارہا تھا‘ لیکن وہ اس دباؤ میں آنے سے انکاری تھے۔ اس لیے جب عمران خان وزیراعظم بنے تو انہیں بشیر میمن میں ایک ایسا افسر نظر آیا جو زرداری صاحب‘ غنی مجید اور انور غنی کو گرفتار کر سکتا ہے تو پھر اس کے سامنے (ن) لیگ کے لیڈر تو کچھ بھی نہیں۔ خان سب مخالفین کو جیل میں ڈالنا چاہتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ میمن کسی کو نہیں چھوڑے گا۔
عمران خان نے اپنے روایتی انداز میں ڈی جی کی بہت تعریف کی تاکہ وہ میڈیا میں مخالفین اور سیاستدان سب کو جیل میں ڈال دیں۔ عمران خان کا خیال تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ بھی منی لانڈرنگ کیس میں سزا کا سامنا کررہے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز پہلے سے جیل میں تھے اور وہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ اب اگر شہباز شریف اور حمزہ کو بھی سزا دلوا کر ڈس کوالیفائی کرایا جاتا تو پھر (ن) لیگ ختم ہو جائے گی اور پی ٹی آئی پنجاب میں اگلا الیکشن آرام سے جیت جائے گی۔ اس دوران 2022ء میں جنرل فیض حمید بھی آرمی چیف ہوں گے اور ایک سابق ڈی جی آئی ایس پی آر آئی ایس آئی کے سربراہ ہوں گے یوں سب راستے ہموار ہوں گے۔ اس سے پہلے خان صاحب چاہتے تھے کہ ایف آئی اے خواجہ محمد آصف پر بھی غداری کا مقدمہ درج کرے۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک سمری کابینہ میں لائے جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک کا وزیر خارجہ اور وزیر توانائی ہو کو بھی وہ اقامہ لے کر دبئی میں ایک کمپنی کو کنسلٹنسی دے رہے تھے اور ہر ماہ انہیں سولہ لاکھ روپے مل رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ کہ وہ پاکستانی آئین کے تحت وزارت نہیں چلا رہے تھے‘ لہٰذا یہ مفادات کا ٹکراؤ تھا اور خواجہ آصف پر غداری کا مقدمہ بنتا ہے۔ خواجہ آصف کے خلاف مقدمہ تیار کر کے کابینہ نے منظوری دی۔ وہاں کابینہ کے وزیر چپ رہے کہ مقدمہ تو کرائیں لیکن غداری کا مقدمہ ہو گا تو یہ نیا ٹرینڈ شروع ہو جائے گا۔ عمران خان کے وزیروں کی اجلاس میں خاموشی کا بیک گراؤنڈ تھا‘ ان سب کو علم تھا کہ عمران خان جن لوگوں سے نفرت کی حد تک دشمنی پالے ہوئے ہیں ان میں خواجہ آصف سرفہرست ہے۔ اس نفرت کے پیچھے دو تین وجوہات تھیں۔ ایک تو جب عمران خان 2014ء میں دھرنے کے بعد پارلیمنٹ گئے تو خواجہ آصف نے مشہور زمانہ تقریر کی جس میں انہوں نے کہا کہ دیکھیں اس پارلیمنٹ کو 126دنوں تک گالیاں دینے کے بعد یہ سب وہیں آگئے ہیں۔ ان کا یہ فقرہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ '' کوئی شرم ہوتی ہے‘ کوئی حیا ہوتی ہے‘ کوئی گریس ہوتی ہے‘‘۔
وہ جملہ پی ٹی آئی کے ارکان کو سخت ناگوار گزرا کیونکہ وہ ہر وقت ٹی وی شو اور سوشل میڈیا پر چلتا رہتا تھا اور پی ٹی آئی والے شرمندگی محسوس کرتے تھے۔ خواجہ آصف اپنی جملے بازی کی وجہ سے پہلے آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کو بہت چبھتے تھے تو اب عمران خان کو۔ اوپر سے سیالکوٹ میں عثمان ڈار اور خواجہ آصف کی پرانی سیاسی دشمنی چلی آرہی تھی۔ ڈار اس وقت عمران خان کے بہت قریب تھے اور انہیں لگتا تھا کہ خواجہ صاحب دھاندلی سے جیتے ہیں۔ رہی سہی کسر جنرل باجوہ نے پوری کر دی جب ایک دفعہ اپوزیشن لیڈروں سے آرمی میس میں خفیہ ملاقات میں الیکشن میں دھاندلی کے ایشو پر سب کے سامنے کہہ دیا کہ خواجہ آصف نے ان سے الیکشن والی رات مدد مانگی تھی۔ ان کی اس بات سے یہ تاثر پھیلا کہ خواجہ آصف ہار رہے تھے اور انہوں نے جنرل باجوہ سے مدد مانگی اور یوں عثمان ڈار کو ہرا کر انہیں جتوایا گیا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اس وقت عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے عسکری قیادت دھاندلی کرا رہی تھی اور انہوں نے جنرل باجوہ کو فون کیا کہ وہ اداروں کے اہلکاروں کو روکیں۔ انہوں نے شکایت لگائی تھی‘ فیور نہیں مانگی تھی۔ خیر یہ بات بھی عمران خان بھول جاتے لیکن خواجہ آصف سے ان کی اصل دشمنی اس وقت پڑی تھی جب چند سال پہلے خواجہ صاحب نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے کینسر ہسپتال کا چندہ بیرون ملک لگا دیا تھا‘ وہ پیسہ ڈوب گیا اور یہ بات عمران خان نے چھپائی ہوئی تھی۔ اس پر خواجہ آصف اور عمران خان میں مقدمے بازی بھی چل رہی تھی۔ جب عمران خان وزیراعظم بنے تو ان کی ہٹ لسٹ پر شہباز شریف‘ حمزہ شہباز‘ خواجہ آصف‘ احسن اقبال‘ سعد رفیق‘ شاہد خاقان عباسی وغیرہ سب تھے۔ عمران خان سب کے نام ڈراپ کر سکتا تھا خواجہ آصف کا نہیں اور عمران خان کی راہ میں رکاوٹ ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن تھے۔ عمران خان ڈی جی کی اس مزاحمت سے چڑ گئے کیونکہ خان صاحب جلدی میں تھے اور سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کے بعد اگلا ہاتھ صحافیوں پر ڈالنا چاہ رہے تھے اور سوشل میڈیا کے لیے نیا قانون لا رہے تھے جس کے تحت چھ ماہ تک کسی صحافی/ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی ضمانت نہیں ہو سکے گی۔ نیب بھی تین ماہ کا ریمانڈ لیتا تھا لیکن عمران خان نے کہا کہ ایسی خبر‘ جسے وہ فیک سمجھیں گے‘ پر سب کی گرفتاری ہو گی اور چھ ماہ تک ضمانت نہیں ہو گی۔ عمران خان کو خواجہ آصف کو گرفتار کرنے کی جلدی تھی لیکن حیرانی تھی کہ سب اپوزیشن گرفتار ہو کر جیل پہنچ گئی لیکن خواجہ آصف ابھی تک باہر پھر رہے تھے۔ عمران خان سخت ناراض تھے کہ وزیراعظم وہ ہیں لیکن ان کے حکم کے باوجود خواجہ آصف کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟ آخر ایک دن عمران خان پر وہ بڑا راز کھل گیا کہ خواجہ آصف کو کون بچا رہا تھا۔ خان خواجہ کو جیل میں ڈالنے کے لیے کسی حد تک جانے کو تیار تھا۔ خان نے فون اٹھایا۔ (جاری)