"RKC" (space) message & send to 7575

کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سن … (7)

عمران خان کو اپنے دورِ اقتدار میں ایک ہی فکر لاحق رہی کہ وہ اپنے سب مخالفین کو فکس کریں‘ کسی سیاسی مخالف کو جیل میں بند تو کسی کو سیاست سے بین کردیں‘ کسی مخالف صحافی یا اینکر کے ٹی وی شو کو بند کرا دیں تو کسی کو ایف آئی اے کے ذریعے جیل میں ڈال دیں۔ یوں عدالتیں‘ جج‘ نیب اور ایف آئی اے‘ سب ان کیلئے اہم تھے۔ خان صاحب کا زیادہ وقت انہی ایشوز پر صرف ہو رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے نوجوان ووٹرز اور حامیوں سے یہی وعدہ کرکے آئے تھے کہ وہ ان سب کو سیدھا کر دیں گے‘ بس انہیں موقع مل جائے۔ اب انہیں موقع مل گیا تھا تو وہ دیگر ایشوز پر توجہ دے کر یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے ہٹایا گیا تو کچھ عرصہ بعد وہ ٹی وی انٹرویوز اور جلسوں میں یہ کہتے پائے گئے کہ اللہ کا شکر ہے پی ڈی ایم نے ہمیں ہٹا دیا اور ہم مقبول ہو گئے‘ ورنہ ہماری حالت تو بہت پتلی تھی۔ ان کے اپنے وزیر کہتے تھے کہ وہ دوبارہ الیکشن نہیں جیت سکتے تھے‘ اگر وہ پانچ سال پورے کر جاتے۔ گورننس اور ڈِلیوری سے زیادہ ان کی توجہ مخالفین کو جیلوں میں بند کرنے اور میڈیا پرسنز کو جکڑنے پر تھی۔ اس کام میں وہ یقینا کامیاب رہے لیکن دیگر شعبوں میں حالات بدتر ہو رہے تھے اور خان صاحب اب اپنے مقامی مخالفین کو فکس کرنے کے بعد اپنی توپوں کا رُخ عالمی سطح پر پاکستان کے دوستوں کی طرف کرچکے تھے۔ چین‘ امریکہ‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ یورپی یونین اور برطانیہ سے تعلقات خراب ہورہے تھے جس پر مقتدرہ متحرک ہوئی کہ خان صاحب پاکستان کے روایتی دوستوں سے تعلقات خراب کرکے ملک کو دنیا بھر میں اکیلا کر رہے تھے۔ یوں خان صاحب کو ہٹانے کی سوچ پیدا ہوئی کیونکہ خان کے وزیروں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ 2028ء تک اقتدار میں رہیں گے۔ کچھ نے کہا کہ وہ 2032ء تک رہیں گے۔ کئی ایک نے تو جنرل فیض حمید کو مستقبل کا پوتن قرار دے دیا تھا۔ حالانکہ ابھی جنرل فیض کی بطور آرمی چیف تعیناتی کا دُور تک کوئی امکان نہیں تھا لیکن وہ پہلے ہی آرمی چیف بن کر گھوم رہے تھے۔ جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی ہونے کے ناتے وزیراعظم سے روز ملتے تھے اور ان کا ہر اچھا برا کام کر رہے تھے جبکہ ان کے سیاسی اور میڈیا ناقدین کا ناطقہ بھی بند کیا ہوا تھا لہٰذا وہ انہیں پسند تھے۔ یوں خان صاحب نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑا مارا۔ جو تین چار افسران سنیارٹی میں جنرل فیض سے اوپر تھے‘ وہ پریشان ہوئے کہ اگر عمران خان نیا چیف ڈیڑھ سال پہلے ہی چن چکے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دیا جائے گا۔
دوسری طرف جنرل باجوہ بھی ناخوش تھے کہ ان کی توسیع کی تین سالہ مدت پوری ہونے سے ڈیڑھ سال پہلے ہی غیراعلانیہ نیا چیف مقرر کرکے ان کو کمزور کر دیا گیا تھا۔ انہیں عمران خان کے عزائم اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ یہ بات مقتدرہ کو ڈرا رہی تھی کہ خان صاحب ملک کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے پنے نوجوان ورکرز کی ٹائیگر فورس بھی تیار کرلی جس کو وہ پاورز دے رہے تھے کہ وہ عوامی پولیس کا کردار ادا کریں۔ خان کے ذہن میں ان نوجوانوں کا استعمال کچھ اور تھا کیونکہ یہ خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ ان کے خلاف ہلچل مچ رہی ہے۔ حکومت سے نکالے جانے کے بعد ایک انٹرویو میں انہوں نے خود کہا کہ انہیں جولائی 2021ء میں ہی پتا چل گیا تھا کہ انہیں ہٹانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے ‘اس لیے جب جنرل فیض کو ہٹایا گیا تو وہ سمجھ گئے کہ ان کے خلاف آپریشن شروع ہو گیا ہے۔
عمران خان سوشل میڈیا سے بہت زیادہ Obsessed تھے لہٰذا وہ وہاں اپنے خلاف یا اپنی اہلیہ کے خلاف کوئی بات پڑھ سکتے تھے‘ نہ ہی سن سکتے تھے۔ اب اس کا ایک ہی حل تھا کہ ایف آئی اے کے ذریعے سب مخالفین کو سبق سکھایا جائے لیکن ایف آئی اے کے پاس وہ قانونی اختیارات نہیں تھے جو عمران خان کو مطمئن کر سکتے۔ خان اپنے سوشل میڈیا ناقدین کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانا چاہتے تھے لیکن انہیں بتایا گیا کہ اس کام کیلئے آپ کو قانون بدلنا پڑے گا۔ یوں عمران خان نے 2016ء کا نواز شریف کا متعارف کرایا گیا پیکا قانون نکالا اور اس میں ترامیم کا فیصلہ کیا۔ تب ایک میڈیا اتھارٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا تھا جس کے تحت سخت قوانین متعارف کرائے جانے تھے۔انہی میں سے ایک قانون کے مطابق فیک نیوز کے نام پر کسی بھی بندے کو چھ ماہ جیل میں رکھا جا سکتا تھا جس کی ضمانت تک نہیں ہو سکتی تھی۔ جب تک اس ایشو کا فیصلہ ہوتا‘ وہ بندہ جیل میں ہی رہتا۔ چاہے چھ ماہ بعد وہ خبر درست نکل آتی‘ اس سے انہیں کوئی غرض نہ تھی۔
عمران خان نے سوشل میڈیا کو ٹائٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور ان قوانین کو عوام کے سامنے قابلِ قبول بنانے کیلئے خود ٹی وی پر خطاب کا فیصلہ کیا۔ اس خطاب میں خان صاحب نے تفصیل سے بتایا کہ کیسے سوشل میڈیا ایک خطرناک فورم بن چکا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ ہر حکمران‘ جس نے بھی یوٹیوب یا سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے کا منصوبہ پیش کیا‘ اس نے یہ دو تین جواز ضرور پیش کیے۔ ایک مذہبی جواز تھا کہ وہاں بہت گستاخانہ مواد موجود ہے اور دوسرا فیک نیوز کا جواز تھا۔ اب یہ دونوں جواز ایسے ہیں‘ جس پر بظاہر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا لیکن ان کی آڑ میں دیگر سخت سزائیں بھی سوشل میڈیا سے متعلق قوانین میں ڈال دی جاتی ہیں جس سے متعلقہ اداروں کو مزید اختیارات ملتے ہیں۔ خان صاحب کو تو یہاں تک محسوس ہوا کہ نواز شریف نے اپنے دور میں سوشل میڈیا کرائمز پر کم سزائیں رکھی تھیں‘ انہیں زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
عمران خان کو تب بریک لگانے کی ضرورت تھی لیکن وہ سب کے ساتھ بگاڑ چکے تھے۔ وہ قومی میڈیا کے خلاف بھی روز تقریریں کرتے تھے‘ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ پھر انہوں نے ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کو پروموٹ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ قومی میڈیا کی اہمیت اور اثر کو مزید کم کیا جائے۔ خان نے ٹی وی شوز کا مذاق اڑایا کہ اب انہیں کون دیکھتا ہے۔ اب تو ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کا دور ہے۔ یوں وزیراعظم ہاؤس میں ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز بلائے گئے۔ ایک وفاقی وزیر نے بھی مذاق بنایا کہ چھوڑو جی‘ اب ٹی وی کون دیکھتا ہے‘ اب اینکرز کا دور ختم ہو چکا‘ اب سوشل میڈیا کا دور ہے۔ دھیرے دھیرے پی ٹی آئی نے ان ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کو اپنے جال میں پھنسایا اور ان کے وی لاگ اور ریلز اپنے وٹس ایپ گروپوں اور فیس بیک پیجز پر پھیلانا شروع کر دیں تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ ویوز اور ویوز کے بدلے ڈالر مل سکیں۔ یوں پی ٹی آئی نے صحافیوں اور اینکرز کو ڈالر اکانومی سے جوڑ دیا کہ جو عمران خان کو مہاتما بنا کر پیش کرے گا اور ان کے مخالفین پر تبریٰ پڑھے گا‘ اس کے ری ٹویٹس بھی زیادہ ہوں گے‘ ویوز بھی زیادہ ملیں گے اور ڈالروں کی بازش بھی ہو گی۔ یوں اکثر اینکرز اور یوٹیوبرز نے صحافت کو خیر باد کہہ دیا۔ وہ جو دن بھر ذاتی محفلوں میں خان کی برائیاں کرتے تھے‘ رات کو ٹی وی شوز اور وی لاگز میں انہیں مہاتما بنا کر پیش کرتے کیونکہ پی ٹی آئی کے گروپ اور پیجز ان کو بزنس لا کر دے رہے تھے۔ یہ طریقہ ڈالر کمانے کا بہت بڑا بزنس ماڈل بن چکا تھا۔ ملک اور ملکی مفاد اب بہت پیچھے چلے گئے تھے۔ اب ڈالر کا حصول ہی واحد مقصد تھا۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کے خلاف بھی ٹرینڈز چلائے گئے۔ یہ کھیل خطرناک ہو رہا تھا جس نے آنے والے دنوں میں ریاست کو ٹف ٹائم دینا تھا۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں