"RKC" (space) message & send to 7575

نواب یوسف تالپور بھی رخصت ہوئے

نواب یوسف تالپور بھی رخصت ہوئے۔ ایک اور دوست اس دنیا سے منہ موڑ گیا۔ ایک اور بیس‘ بائیس سالہ رفاقت کا خاتمہ۔ ایک اور اداسی۔ ایک اور غم۔
عرصہ ہوا نئے دوست بنانے چھوڑ دیے ہیں۔ کسی نے دوستی کی کوشش بھی کی تو پیچھے ہٹ گئے۔ اب دوستوں کے دکھ کون اٹھائے۔ 2012ء میں ڈاکٹر شیر افگن نیازی کی وفات سے یہ سلسلہ شروع ہوا جو ڈاکٹر ظفر الطاف سے انور بیگ‘ رانا اعجاز محمود سے اب نواب یوسف تالپور تک آن پہنچا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے نواب صاحب سے پہلی ملاقات ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر میں ہوئی تھی اور پھر ایک طویل دوستی کا آغاز ہوا۔ میں نے کتابوں میں پڑھا یا فلموں میں دیکھا تھا کہ خاندانی نواب کیسے ہوتے ہیں لیکن زندگی میں پہلی دفعہ ایک نواب سے واسطہ پڑا تھا بلکہ یوں کہہ لیں کہ تعلق بنا تھا۔ نواب صاحب کی الگ شان اور انداز تھا۔ وہ خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ بات کرتے اور کبھی تلخ گفتگو نہ کرتے تھے۔ وہ جب کراچی سے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کیلئے صبح کی فلائٹ پکڑتے تو پہلا فون ڈاکٹر ظفر الطاف کو کرتے کہ لنچ آپ کے ساتھ ہوگا۔ ان کی دوسری فرمائش ہوتی کہ رؤف کو بھی بتا دیں۔ مجھے ڈاکٹر ظفر الطاف کا فون آتا کہ نواب صاحب پہنچ رہے ہیں‘ آپ بھی آ جائیں۔ یوں لنچ پر لمبی گپ شپ لگتی اور شام کے چار پانچ بج جاتے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف ویسے تو سب کی عزت کرتے تھے لیکن جتنی عزت اور احترام وہ نواب یوسف تالپور کا کرتے‘ کسی اور کا نہیں کرتے تھے۔ ایک دن میں نے پوچھ لیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ تو وزیراعظم‘ صدر یا کوئی وزیر‘ کسی کو کبھی خاطر میں نہیں لائے۔ اپنی مرضی سے جاب کی اور مشکلات کے باوجود آپ کا انداز نہ بدلا۔ شاید ہی کسی وزیر سے آپ کی بنی ہو پھر نواب صاحب سے اتنی محبت کیوں؟ ڈاکٹر صاحب سنجیدہ ہو کر بولے کہ آج تک کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا۔ چلو آج تمہیں بتا دیتا ہوں۔ میں نواب صاحب کی اتنی عزت اس لیے کرتا ہوں کیونکہ نواب صاحب جیسے ظرف بھرے انسان اب کہاں ملتے ہیں۔
نواب یوسف تالپور 1993ء میں پیپلز پارٹی کے ایم این اے تھے۔ بینظیر بھٹو وزیراعظم بن گئیں تو انہوں نے نواب صاحب کو اپنی کابینہ میں وفاقی وزیر زراعت بنا دیا۔ جب وزیروں کا حلف ہوگیا تو نواب یوسف تالپور بینظیر بھٹو سے ملنے وزیراعظم ہاؤس گئے‘ ان کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی وزیراعظم سے درخواست کی کہ وہ سندھ سے ایک بیوروکریٹ کو وفاقی سیکرٹری زراعت لگا دیں‘ وہ ان کے پرانے دوست ہیں‘ ان کے ساتھ کام کرنے میں آسانی رہے گی۔ بینظیر بھٹو نے نواب یوسف تالپور سے کہا کہ کیا آپ ڈاکٹر ظفر الطاف کو جانتے ہیں‘ جو اس وقت سیکرٹری کے طور پر کام کررہے ہیں‘ آپ ابھی ان کے ساتھ کام کریں۔ نواب یوسف تالپور کے چہرے پر مایوسی دیکھ کر بینظیر بھٹو نے ہنس کر کہا کہ آپ کچھ دن ان کے ساتھ کام کریں‘ اگر آپ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ نہ چل سکے تو میں آپ کی مرضی کا سیکرٹری لگا دوں گی‘ ہم ڈاکٹر ظفر الطاف کو بدل دیں گے۔ نواب تالپور نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ اگر بینظیر بھٹو کسی افسر کے بارے میں اچھی رائے رکھتی ہیں تو چلو کچھ دن کام کرتے ہیں۔
وزیراعظم ہاؤس سے نکل کر انہوں نے ڈرائیور کو کہا کہ مجھے اپنی وزارت کے دفتر لے چلو۔ وزارت کے دفتر پہنچ کر وہ سیدھے ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر میں گئے‘ ڈاکٹر صاحب سے ملے اور مسکرا کر کہا: اس سے پہلے کہ لوگ آپ کو بتائیں‘ میں خود آپ کو بتانے آیا ہوں کہ میں نے وزیراعظم بینظیر بھٹو سے کہا ہے کہ آپ کو بدل دیں لیکن محترمہ نے میری بات نہیں مانی۔ ان کی آپ کے بارے میں رائے بہت اچھی ہے۔ اگر ان کی رائے آپ کے بارے میں اچھی ہے تو یقینا آپ اچھے افسر ہوں گے۔ آج سے ہم دونوں اکٹھے کام کریں گے۔ اب چلیں کہیں لنچ کرائیں۔ یوں ڈاکٹر ظفر الطاف اور نواب یوسف تالپور کے درمیان اُس طویل دوستی کا آغاز ہوا جس کا اختتام پانچ دسمبر 2015ء کو ڈاکٹر ظفر الطاف کی وفات پر ہوا۔ میں اُس دن لیہ میں اپنے گاؤں میں تھا۔ وہاں سے رات کو لاہور کیلئے نکلا تاکہ صبح ان کا جنازہ پڑھ سکوں۔ لاہور پہنچ کر میں اور ڈاکٹر صاحب کے لاڈلے بھتیجے رافع الطاف ایک دوسرے کے گلے لگ کر روئے۔ ایک عظیم انسان ہماری زندگیوں سے بہت جلدی رخصت ہو گیا تھا۔ نواب یوسف تالپور بھی کراچی سے خصوصی طور پر لاہور پہنچے تاکہ اپنے پرانے دوست کے جنازے میں شریک ہو سکیں۔ واپسی پر وہ میرے ساتھ اسلام آباد گاڑی میں آئے اور راستے میں ڈاکٹر ظفر الطاف کی باتیں کرتے رہے۔ انہیں بہت اداس دیکھا۔ کہنے لگے کہ اسلام آباد میں دل ڈاکٹر ظفر الطاف کی وجہ سے بھی لگتا تھا کہ ایک تو اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوں گے اور وہاں ڈاکٹر صاحب سے بھی مل لیں گے۔
نواب یوسف تالپور کا بینظیر بھٹو سے بڑا قریبی تعلق تھا۔ محترمہ ان کی بہت عزت کرتی تھیں۔ ایک دفعہ آصف زرداری چاہتے تھے کہ نواب یوسف تالپور اپنے بیٹے تیمور تالپور کے بجائے صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے سسرالی عزیز کو لینے دیں۔ آصف زرداری نے محترمہ سے بات کی تو بینظیر بھٹو نے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ٹکٹ نواب یوسف تالپور کا ہے۔ انہوں نے زرداری صاحب سے کہا کہ آپ نواب صاحب سے بات کر لیں‘ اگر وہ کہہ دیں تو پھر ہی فریال تالپور کے سسرالی عزیز کو ٹکٹ مل سکتی ہے۔ آصف علی زرداری نے نواب یوسف تالپور کو پیغام بھیجا کہ آپ بینظیر بھٹو کو کہہ دیں کہ آپ تیمور تالپور کیلئے ٹکٹ نہیں لے رہے۔ نواب صاحب نے انکار کر دیا کہ وہ ان کی خاندانی سیٹ تھی اور پھر ان کے بیٹے کے سیاسی مستقبل کا بھی مسئلہ تھا۔ زرداری صاحب تک جب نواب صاحب کے انکار کی خبر پہنچی تو انہوں نے بینظیر بھٹو کو یہ جواب بتا دیا۔ محترمہ نے کہا کہ آپ کی بدقسمتی‘ اگر نواب صاحب نہیں مانے تو ٹکٹ تو ان کے بیٹے کو ہی ملے گی اور پھر ٹکٹ تیمور تالپور کو ہی دی گئی۔ آصف علی زرداری نے دل میں گانٹھ باندھ لی اور نواب یوسف تالپور کے خلاف دل میں دشمنی پال لی۔ بینظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی کمان آصف علی زرداری نے سنبھال لی۔ زرداری صاحب سے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی صلح صفائی یا سیاسی برداشت پارٹی سے باہر کے لوگوں کیلئے ہوتی ہے‘ اپنی پارٹی میں وہ کسی کا انکار برداشت نہیں کرتے اور پورا بدلہ لیتے ہیں۔ یوں جب پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور زرداری صاحب صدر بنے تو نواب یوسف تالپور کو پانچ سال تک کابینہ میں نہیں لیا گیا۔ زرداری صاحب نے اس انکار کی وجہ سے نواب صاحب کو حکومت سے دور رکھا اور سندھ کے ترقیاتی کاموں میں ان کے حلقے کو بھی اہمیت نہ دی گئی۔ لیکن نواب یوسف تالپور کو کبھی افسردہ ہوتے یا اپنے انکار پر پچھتاوا کرتے نہ دیکھا۔ ہمیشہ خوش باش اور مطمئن رہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کا سیاسی مستقبل بچایا تھا اور اس کے مقابلے میں ان کی وزارت بہت معمولی سی بات تھی۔
نواب یوسف تالپور وضعدار اور ظرف دار سیاستدانوں کی شاید آخری نسل تھے۔ اسلام آباد آتے تو رونق لگتی تھی۔ ڈاکٹر شیر افگن‘ ڈاکٹر ظفر الطاف‘ ارشد شریف‘ انور بیگ کی وجہ سے اسلام آبادپہلے ہی خالی ہو چکا تھا‘ رہی سہی کسر اب نواب صاحب کے جانے سے پوری ہو گئی۔ ان کا انتظار رہتا تھا کہ وہ آسلام آباد آئیں گے تو محفل جمے گی‘ ڈاکٹر ظفر الطاف کی باتیں کریں گے‘ ماضی کو یاد کریں گے لیکن ہمارے نواب صاحب بھی رخصت ہو گئے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں