"RKC" (space) message & send to 7575

بلے بلے‘ واہ واہ کا انجام

چند روز پہلے برطانوی پارلیمنٹ کے ایک ممبر سے پروگرام میں بات ہو رہی تھی‘ وہ بتا رہے تھے کہ برطانیہ میں اس وقت معاشی حالات کچھ اچھے نہیں۔ انہوں نے یہ حیران کن بات بھی بتائی کہ اب برطانوی یونیورسٹیوں کا بجٹ 30 فیصد تک کم کیا جا رہا ہے۔ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے جس سے لوگوں کی تکالیف بھی کافی بڑھ گئی ہیں۔ مزید کہنے لگے کہ برطانیہ میں دو ایشوز کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہوئی ہیں۔ ایک وجہ Brexit اور دوسری روس یوکرین جنگ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کا فیصلہ ٹھیک نہیں تھا‘ اس کے نتائج کچھ اچھے نہیں نکلے۔ دوسرے روس یوکرین جنگ بھی حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنی ہے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ اگر میں غلط نہیں کہہ رہا تو دونوں فیصلے اپنے دور میں بڑے پاپولر تھے لیکن دونوں فیصلوں نے برطانیہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ توغلطی تو عوام نے خود کی ہے‘ اگر اس وقت وہ ان دونوں فیصلوں کی وجہ سے پھنس گئے ہیں اور حالات خراب ہیں۔ میں نے کہا کہ بریگزٹ کا فیصلہ کرانے کے لیے سیاستدانوں نے عوام کو سنہرے خواب دکھائے تھے کہ ایک دفعہ یہ ہوگیا تو برطانیہ میں دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ لوگوں کو بڑی تعداد میں پیچھے لگا لیا کہ تمہاری زندگی بدل جائے گی اور لوگوں نے یقین بھی کر لیا۔ کچھ سیاستدانوں نے اسے ایک بڑا ایشو بنا کر اس پر ریفرنڈم بھی کرا لیا اور ایک وزیراعظم وہ ریفرنڈم ہارنے پر استعفیٰ دے کر گھر بھی چلا گیا۔ جس کے بعد سب انتظار کرتے رہے کہ اب تبدیلی آئے گی‘ اب سنہرے دن آئیں گے‘ اب وہ امیر ہوں گے۔ لیکن اب پتا چلا ہے کہ وہ فیصلہ غلط تھا‘ اس کے بعد برطانیہ کی اکانومی بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوئی ہے اور اب حالت یہ ہے کہ لوگوں کو روزگار نہیں مل رہا۔ اس سے پتا چلا کہ پاپولر فیصلے‘ جس میں عوام کی اکثریت کسی خیال کی حامی ہو‘ وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ آوازِ خلق ہر وقت بھی ٹھیک نہیں ہوتی۔
اب پاکستان سے جو لوگ برطانیہ جارہے ہیں انہیں نوکریاں نہیں مل رہیں۔ ممبر پارلیمنٹ بتانے لگے کہ اس وقت 90 ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ میں جاب ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کو برطانیہ بھیج رہے ہیں کہ شاید وہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں برطانیہ میں ایک پاکستانی لڑکی ملی جسے کوئی جاب نہ ہونے کی وجہ سے ایک چھوٹا سا فلیٹ چار پانچ لڑکوں کے ساتھ شیئر کرنا پڑ رہا تھا۔ کھانے کیلئے بھی اس کے پاس ایک پاؤنڈ نہ تھا۔ انہوں نے کسی کو کہہ کر اس کی نوکری لگوائی اور کچھ پیسے بھی دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ لندن میں آپ کی تعلیم کے مطابق نوکری ملنا مشکل ہے‘ ہاں دیگر چھوٹے موٹے کام مل جاتے ہیں۔ اگر آپ نے لندن سے ماسٹرز کیا ہے اور آپ اسی ڈگری سے متعلقہ نوکری چاہتے ہیں تو ایسا مشکل ہو گا۔
میں نے ان سے کہا کہ آپ نے روس یوکرین جنگ کی بات کی‘ یہ تو یورپ نے خود شروع کرائی ہے۔ کیا آپ لوگوں کو اندازہ نہ تھا کہ روس یوکرین کو نیٹو میں شامل نہیں ہونے دے گا؟ اس نے تو دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر یوکرین نیٹو میں شامل ہوا تو وہ اُس پر حملہ کرے گا۔ اس بات کا تو ایک عام سے بندے کو بھی علم تھا تو پھر یورپ کیسے اس بات کو نظر انداز کر رہا تھا کہ روس یوکرین پر حملہ نہیں کرے گا؟ میرے اس سوال پر وہ کچھ ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ اس میں یورپ یا یوکرین کا قصور نہیں ہے۔ اس جنگ کا ذمہ دار روس ہے جس نے حملہ کیا۔ سارا بحران اُس کی وجہ سے پیدا ہوا۔ پہلے بریگزٹ نے برطانیہ کو معاشی طورپر کمزور کیا تو بعد ازاں یوکرین جنگ نے مزید مشکلات پیدا کر دیں خصوصاً توانائی کی قیمتیں بڑھنے سے برطانیہ سمیت پورے یورپ میں مہنگائی اور توانائی بحران نے سب کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ وہی برطانیہ جہاں پہلے غیرقانونی یا قانونی امیگریشن کا عروج تھا‘ وہاں اب برطانوی خود تنگ پڑ گئے ہیں۔ اس لیے پورے یورپ میں دائیں بازو کی جماعتیں اقتدار میں آرہی ہیں‘ معاشی بحران سب کو متاثر کر رہا ہے۔ امیگریشن کے خلاف سیاسی ووٹ پڑ رہے ہیں اور تارکین وطن ہر جگہ مشکل میں ہیں۔
دوسری طرف آپ دیکھیں کہ امریکہ نے وہی کام کیا جو شہباز کو ممولے کے ساتھ لڑانے والے کرتے ہیں۔ جو بائیڈن یا امریکہ کو ایک اور افغانستان کی تلاش تھی تاکہ روس‘ جو دوبارہ ایک پاور بن گیا ہے‘ اسے کمزور کیا جائے۔ یوں یوکرین کو کہا گیا کہ چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گا۔ وہاں عوام میں بہت مقبول ایک ہینڈسم کامیڈین لوگوں کو پسند آ گیا جس نے کہا کہ ہم روس کے غلام تھوڑی ہیں‘ ہم اپنے فیصلے خود کریں گے‘ ہم نیٹو کا حصہ بنیں گے۔ روس کون ہوتا ہے ہمیں روکنے والا۔ اس سے پہلے جو یوکرین کی حکمران جماعت تھی‘ اسے روس کی کٹھ پتلی سمجھا جاتا تھا۔ یوکرین کے عوام کو اس کامیڈین نے روس کی 'غلامی‘ سے نجات دلانے کا نعرہ دیا اور پوری قوم نے اسے کندھوں پر بٹھا لیا۔ پاپولر لیڈرشپ کا ایک نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں میں اپنا چوائس درست ثابت کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ بس اس کی ریٹنگز اور مقبولیت میں کمی نہ آئے۔ اس مقبولیت‘ بلے بلے اور واہ واہ کیلئے لوگ جان دے بھی سکتے ہیں اور جان لے بھی سکتے ہیں۔ اس لیے دنیا بھر میں مقبول لیڈرز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جمہوریت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان کے پیروکار ان کو اپنا دیوتا یا گرو مانتے ہیں‘ نہ کہ ایک انسان جس سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کا لیڈر غلطیوں سے مبرا ہے اور اُس کے ناقدین قابلِ گردن زدنی ہیں۔ یوں پاپولر لیڈرز اور ان کے پیروکار فاشسٹ بن جاتے ہیں جو اپنے ناقدین کو ختم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ جو لوگ جمہوری طریقے سے عوام میں چند مقبول نعرے لگا کر حکمران بنتے ہیں آخر میں وہ سب سے بڑے ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں بلکہ ڈکٹیٹر بھی شاید ان سے کچھ بہتر ہوتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ سیدھے فاشسٹ بنتے ہیں اور اپنے معاشروں اور ملکوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔
وہی یوکرین جو چند برس پہلے پوری دنیا کو گندم کھلا رہا تھا آج خود بھیک مانگ کر جنگی بجٹ اور کھانا پینا پورا کر رہا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے‘ ہزاروں مارے گئے‘ انفراسٹرکچر الگ تباہ ہوا اور اب وہی پاپولر ہینڈسم زیلنسکی کہہ رہا ہے کہ وہ جنگ بندی کیلئے تیار ہے چاہے روس وہ سارے علاقے رکھ لے جو اس نے جنگ کے دوران قبضے میں لیے تھے۔ آدھا ملک گنوانے کے بعد ہینڈسم کو عقل آئی ہے کہ اسے چارے کے طور پر روس کے آگے ڈالا گیا تھا۔ پورا یورپ اُس وقت یوکرین کو تھپکی دے رہا تھا‘ انہوں نے ڈالرز دیے‘ اسلحہ دیا لیکن ایک فوجی بھی زمین پر نہ بھیجا کہ روسیوں سے لڑو۔ پھر نیٹو آپ کی مدد کو کیوں نہیں آیا؟ وہ دور بیٹھے آپ کو لڑاتے رہے۔ اب توانائی بحران اور مہنگائی کا رونا بھی رو رہے ہیں اور ذمہ دار روس کو سمجھتے ہیں۔ یقینا روس بھی ذمہ دار ہے لیکن کیا اپنے عوام کو بچانا زیلنسکی کا کام نہیں تھا؟ محض شہرت اور بلے بلے کیلئے اس نے بندے مروا دیے‘ ملک تباہ کرا لیا۔ اب صدر ٹرمپ نے بھی کہہ دیا ہے کہ یوکرین کا قصور ہے۔ تو کیا ملا ہزاروں بندے مروا کر‘ ملک کو تباہ کروا کے۔ صرف بلے بلے‘ واہ واہ۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جب یوکرین میں لوگوں پر بم اور میزائل گر رہے تھے اُس وقت ہینڈسم اپنی خوبصورت بیوی کے ساتھ ایک یورپی رسالے کے سرورق کیلئے ماڈلنگ کررہا تھا۔ یہ واہ واہ‘ بلے بلے کے شوقین پاپولر سیاستدان نالائق کے علاوہ بے رحم بھی ہوتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں