مولانا صاحب نے جونہی دو دفعہ سر ہلایا‘ لوگ خوشی سے جھوم اٹھے کہ کام بن گیا۔تھوڑے وقفے کے بعد کیمرہ مقرر پر پہنچا جہاںسے ارشاد ہوا، مجھے ایڑیاں رگڑنے دے ،چشمہ یہیں سے نکلے گا۔
یہ میٹرو بس والی سرکار ی تقریب کا ویڈیو کلپ ہے جو اسلام آباد کے ایک سرکاری ہال میں منعقد ہوئی۔
اسی روز وزیراعظم کے سمدھی نے آئی ایم ایف کا لکھا ہوا بجٹ پڑھا‘ وہ بھی ایسی برق رفتاری سے کہ آئی ایم ایف والوں کے علاوہ بجٹ کسی شہری کی سمجھ میں نہیں آیا۔وزیرِ خزانہ کو خود اپنا پڑھا ہوا بجٹ کتنا سمجھ آیا اس کے ثبوت بھی دو ویڈیو کلپس میں موجود ہیں۔پہلے میں غصّے سے ''لال بھبھوکا‘‘ وزیرِ خزانہ نے وفاقی دارالحکومت کے سینئر رپورٹر کو کہا، ''یہ بد تمیز کون ہے...؟ اسے باہر نکال دو‘‘۔ لیکن جب سارے رپورٹر احتجاج میں اُٹھ کر کھڑے ہوئے اور کہا‘ ہم بھی جا رہے ہیں تو سمدھی صاحب نے فوراََ برادرانِ یوسف والا پیار کرنا شروع کر دیا۔ ان کے غصے کی جھاگ فوراََزیرِ زمین چلی گئی۔ اس طرح وہ سوال جن کے جواب دینے کے لیے وزارت خزانہ نے لاکھوں روپے سے پریس کانفرنس بلوائی تھی ‘ اس میں سوال کرنے والے جواب کے انتظا ر میں ایڑیاں رگڑتے رہ گئے۔
اگلے دن پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس تھی۔ سمدھی ٹی وی چینلز اور اخباروں پر دوبارہ چڑھ دوڑے۔ ان کا خیال تھا میڈیا والے بجٹ کو غلط طور پر پیش کر رہے ہیں ۔نہ مہنگائی ہوئی نہ ہی عوام دشمنی۔دوسرے دن بھی میڈیا والوں نے بھرپور سوال اُٹھائے۔ پہلے سوال پر ہی وزیرِ خزانہ سٹپٹا گئے۔ حسبِ توقع میڈیا اور سرکار میںایک بار پھر دوسری سرحدی جھڑپ ہو ئی۔شکر ہے تیسرے دن اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس نہیں کی ورنہ ان جھڑپوں کی ہیٹ ٹرک مکمل ہو جاتی۔
پہلے میرا خیال تھا بجٹ کے کچھ حصے وکالت نامے میں شامل کروں۔ اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ جوکام میں نے کرناتھا وہ سرکار نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔آج ملک کے جس کونے میں جو پاکستانی دال،مرغی ،گوشت ،پیاز سبزی ،آلو مٹر ،دھنیا ،ٹماٹر خریدنے جائے گا‘ اسے بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ کیسا بجٹ آیا ہے ۔ہر چیز کا بھاؤ خریدار کا منہ چڑاتا ہے ۔ آلو پیازتو گد گدی پر اُترآئے ۔گد گدی بھی سخت بے رحمی کے ساتھ۔ وہ ملک جہاں معیشت زرعی ہے‘ زمین سونا اگلتی ہے‘ وہاں غریب محنت کش عوام دو وقت کی روٹی کے لیے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ہر بازار اور ہر دکان کے سامنے خالی جیب بھوکے مزدور دال کا ریٹ پوچھنے کے بعد اسے خرید نہیں سکتے۔دکاندار سے کہتے ہیں‘ وطن کی مٹی سے کہو مجھے ایڑیاں رگڑنے دے۔
بات شروع ہوئی ایڑیاں رگڑنے سے اور پہنچی ہے بجٹ تک۔یہ جاننا آپ کا حق ہے کہ اس بجٹ کے بعد کون کون سے لوگ اور کون کون سا شعبہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔مشرف کو آرمی چیف بنا نے سے پہلے نواز شریف کی سیاست پنجاب کی پَگ کے گرد گھومتی تھی۔مگر ''جدّہ یاترا‘‘ نے شرفاء لاہورــکی سیاست سے پگ کو بیدخل کر دیا۔اب پنجاب کی پگ کی عزت افزائی کی تین جگہیں باقی بچی ہیں۔ بڑے ایوان جیسے ایوانِ صدر،وزیراعظم ہائوس، اسمبلیوں میںکاروں اور ایوانوں کے دروازے کھولنے والے یہ پگ پہنتے ہیں۔فائیو سٹار ہوٹل وہ دوسرادربار ہے جہاںیہ پگ ہر آنے جانے والے کے لیے جھکتی ہے۔اس پگ کا تیسرا مقام بڑی بڑی عدالتیں ہیں۔ جہاں ''پگ بردار‘‘ اہلکار عدالت کے آغازسے پہلے جُوتابجا کرمظلوموں کو اطلاع دیتے ہیںکہ انصاف شروع ہونے والا ہے۔ اس جوتے کی آوازسن کر بڑے بڑے وکیل ،سیاستدان، سائل اور بیوروکریٹ فوراََ کھڑے ہو جاتے ہیں۔جس دور میں موجودہ حکمران پنجاب کی پگ پر لگے ہوئے داغ دھونے کے لئے ترستے تھے تب کالا باغ کا بھی ذکر ہوتا تھا۔ بجٹ2015-2016ء میںکالا باغ کی انٹری بند ہو گئی۔پاکستان کے سیاسی نظام کے بعد مفاہمت کا سانپ کالا باغ جیسے قومی پروجیکٹ کو نگل چکا اور کالا باغ بیچارہ حکمرانوں سے زبانِ حال سے اس بات کی اجازت طلب کر رہا ہے کہ وطن کی مٹی اب مجھے اجازت دے میں ایڑیاں رگڑوں۔اسے یقین ہو گیا ہے کالا باغ سے کوئی چشمہ پاکستانیوں کو پانی کی بوند بھی سپلائی نہیں کرے گا۔
جب موجودہ شیروں کا پہلا سال شروع ہوا قوم کو بتایا گیا ملک میں سکیورٹی کے سارے مسائل صرف ایک وجہ سے ہیں۔ سکیورٹی اداروں کے درمیان قابلِ کار انٹیلی جینس شیئر کرنے کا نظام نہیں ہے ۔پھر گلو بٹ والے دھوم دھڑّلے کے ساتھ قومی تحفظ پالیسی کا ڈھول بجا۔قومی سلامتی کے ڈرامے کا دوسرا سین نیشنل سکیورٹی کا تھا۔ چھ مہینے سینیٹ میں حکومت کہتی رہی پالیسی خفیہ ہے۔ کاپی آپ کو نہیں دے سکتے۔ویسے ہی جیسے ماڈل ٹاؤن قتلِ عام پر قوم کے عین مفاد میں جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ خفیہ ہے۔شدید بدمزگیوں کے بعد حکومت ایوانِ بالا میں ''فوٹو کاپی‘‘ لے آئی۔پاکستانیوں نے نیکٹا کا استقبال یوں کیا۔
سیئو نی میرا ماہی ،میرے بھاگ جگاون آ گیا
قوم کے بھاگ جگانے نیکٹا کے ادارے نے بھی نون حکومت سے درخواست کر دی کہ مجھے ایڑیاں رگڑنے دو۔اس بجٹ میں نیکٹا نے ساڑھے نو سو ملین مانگے۔لیکن اسحاق ڈار کسی سے زیادتی نہیں کرتے۔سمدھی نے قومی سلامتی کے چشمے کو پانی سے بچانے کے لیے اسے کالا باغ کی صف میں لٹا کر ایڑیاں رگڑنے کی اجازت دے دی۔
ایڑیاں رگڑنے والی ایک وزارت وہ بھی ہے جس کے قیام کے ساتھ ہی 80ء کی دہائی میں زور دار لطیفہ ہوا۔میرے موکل اور وزیر دوست کے والد صاحب تب صوبہ سرحد سے اس وزارت کے پہلے وفاقی وزیر بنے۔پورا نام میں احتراماً نہیں لے رہا‘ لیکن وہ وزیر بننے کے بعد جب وزارت میں آئے تو اپوزیشن کے تیار کردہ صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ وہ پنی وزارت کا نام بتائیں۔شاہ صاحب نے ایسا نام بتایا کہ وہ مستقل قہقہہ بن گیا اور لطیفہ بھی۔انہوں نے ہندکو میں کہا مخولیات کا وزیر ہوں ۔ہندکو اور پوٹھوہاری میں مخول کا مطلب ہے ہنسی مذاق۔اسی محکمے کے نئے وزیر نے ملک میں جارحانہ موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے بجٹ تیار کیا۔ پھر وزارتِ خزانہ کو ڈیمانڈ بھجوا دی۔ بیچاری وزارت کے ساتھ وزیرِخزانہ نے بیوہ جیسا سلوک کیا۔ متعلقہ وزیر آج کل سخت غصے میں ہے‘ جس کا اظہار انہوں نے سینیٹ میں تقریر کے دوران اپوزیشن لیڈر کو سامنے رکھ کر کیا۔میں سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر کی بات کر رہا ہوں۔اس تقریر کے اگلے روز مجھے قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اپنے چیمبر میں کافی پلائی۔انہوں نے اپنی تین گھنٹے کی تقریر کا ذکر چھیڑا۔ مجھ سے تبصرہ جاننے کے لیے مجسم سوال بن گئے۔ایک خاتون ایم این اے اور چار سندھی ارکانِ قومی اسمبلی بھی موجود تھے اور اتفاقاً یہ سارے سیّد تھے۔میں نے کہا شاہ صاحب ''ڈھوک سیّداں‘‘ میں اکیلا اعوان ہوں پھر بھی تبصرہ اپنی مرضی کا کروں گا۔میں نے کہا آپ کی تقریر کے بعد بھی اپوزیشن والے جب اسمبلی سے باہر نکلتے ہیں تو انہیں لوگوں سے یہ کہنا پرتا ہے:
''آپ یقین کریں اللہ کی قسم ہم ہی ''اصلی تے وڈی‘‘ اپوزیشن ہیں‘‘
اس پر ڈھوک سیّداں میں قہقہوں کا سیلاب آ گیا۔خورشید شاہ صاحب نے جمہوریت کے فضائل بیان کرنے کی کوشش کی۔اس بات کے بعد میں نے انہیں پوٹھوہاری زبان کا ''گوری گاں‘‘ (سفید گائے) والا لطیفہ سنایا جس کے بعد اپوزیشن لیڈر نے جمہوریت کے حق میں روایتی تقریر بندکی۔ ان کی دونوں تقریریں مفاہمت کی ایڑیاں رگڑنے سے آگے نہ جا سکیں ؎
نئے وزیر نئے شہریار آئے ہیں
چمن میں دشمنِ فصلِ بہار آئی ہے
نہ ان میں نُکتہ شناسی‘ نہ ان میں فہم ِ بلند
عجیب لوگ سَر اختیار آئے ہیں
ہمارا خون جھلکتا ہے ان کے طرّوں میں
جدید وضع کے پروردگار آئے ہیں