کئی پبلشرزحضرات، بہت اچھے لکھنے والے سالہا سال سے اصرار کر تے ہیں کہ میں اپنی یادداشتیں مرتب کروں ۔ان میں انتہائی معتبر صحافی بھی شامل ہیں۔میرا مودبانہ جواب ہمیشہ یہی رہا، ابھی نہیں۔جب بھی وجہ پوچھی گئی تو کہتا ہوں پہلے تھوڑے لوگ ناراض ہیں ۔ نہیں چاہتا جو باقی بچے ہیں ان سے بھی دعا سلام ختم ہو جائے۔ رمضان سے چند روز پہلے میرے ذاتی مہربان اور تعلیم میں انقلاب برپا کرنے والی مکرم شخصیت نے کہا آپ ''ہتھ ہولا‘‘ کریں۔ ہر کوئی آپ کو دشمن سمجھتا ہے۔تب سے میں نے عام معافی کا سہارالیا ۔ ناراض دوستوں کے لیے اپنا دل اور دروازے دونوں کھول دیئے۔
لیکن رؤف کلاسرا جیسے دوست جوسیاست کی تیسری جنگِ عظیم کی تیاری میںمصروف ہیں ان کا خیال دوسرا ہے۔برادرم کلاسرا نے کہا اب وہ بھی آدھے پوٹھوہاری ہو گئے ہیں۔اس لیے ہر صبح میرے جیسے خالص پوٹھوہاریوں کی طرح پیسے دے کر لڑائی ڈھونڈنے گھر سے نکلتے ہیں۔
یادش بخیر جن دنوں میں کیبنٹ ڈویژن کا انچارج وزیرتھا‘رؤف کلاسرہ تب توشہ خانے کی فائلوں کے اندر گھسے ہوئے تھے۔وہی توشہ خانہ جس کا ابھی تک صرف ایک ہارواپس آیا ۔یہ توشہ خانہ نہیں طلسم ِہوش رُبا ہے ۔پاکستان میں جب بھی کوئی حکومت آتی ہے‘ صوبائی اور مرکزی بیوروکریسی میں مقدر کے سکندردوڑپڑتے ہیں۔ ان کی بیگمات وزراء کالونی میں دوستیاں لگاتی ہیں۔وہ خود اپنی مرضی کے ایسے پی ایس ،پرسنل سیکرٹری ،آپریٹر،سٹینو گرافر ،پی اے وزیر کے ساتھ لگاتے ہیںجو بیوروکریسی کو بتا سکے کہ وزیر صاحب کو کھانے میں کیا پسند ہے۔ شاپنگ کہاں سے کرتے ہیں۔ان کے شام کے کیا ''مشاغل‘‘ ہیں۔اکثر وزراء کا ایجنڈا دو نکاتی ہے۔پہلا یہ کہ وزارت سے اس قدر تجارت کرو کہ اگلا الیکشن خرید سکو۔دوسرا تاریخ کا یہ سبق یاد رکھو کہ میں نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھنا ۔اس وقت شاید ہی کوئی بیوروکریٹ ایسا ہو جس کے بنگلے ، پلاٹ یا کمرشل جائیدادیں پاکستان کے صرف ایک شہر میں واقع ہوں۔بے شمار کے پاس پہلی اور دوسری بیگمات غیر ملکی ہیں ۔کوئی بدبخت ایسا نہیں جس کے بچے پاکستان کے دیسی یا نیم ولایتی سکولوں میںپڑھتے ہوں۔مختلف کمپنیوں اور INGO میں حصّہ اور شراکت داری معمول ہے۔بیوروکریسی، نا اہل، خوشامدی اور ٹٹ پونجیئے اور وزیر حکمرانوں کو کس طرح اعصاب شکن مشورے دیتے ہیں اس کا ایک ثبوت آزاد عدلیہ کی بحالی نمبردو ہے۔ اس کا حال میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔موجودہ وزیراعظم نواز شریف برگر مارچ کی قیادت کرتے ہوئے رائیونڈ سے نکلے تو شہرکے سارے بدیسی ریستوران خالی ہو گئے۔اس دوران مارچ کو کامیاب کرنے کی ذمہ داری دو وفاقی سیکرٹریوں کے سپرد تھی۔دونوں کی رہائش لاہور میں ہے اور دونوں پکے درباری۔جو وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والا وفاقی وزیرپلان کا پروموٹر تھااس کو ''گرے ٹریفک‘‘ کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔وزیر نے پہلے وزیراعظم کو دھمکایا اور بتایا لاہور میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھاگ گئے ہیں۔ناکے خالی ہیںاور بہت جلد برگر مارچ اسلام آباد کے سارے ناکے رو ند ڈالے گا۔وزیراعظم نے صدر تک حالات کی یہ ہولناک تصویر امانت سمجھ کر پہنچائی ۔مِڈ نائٹ میٹنگ ہوئی جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا۔اس وقت تک بحالی کے اس طریقہء کار کی ہلکی پھلکی مزاحمت ہوئی۔جبکہ ڈبل کرکٹ کا بانی ہر سیکنڈ کے بعد جیب سے فون نکالتا ۔برگر مارچ والی قیامت کی آمد کی تازہ ترین نشانیوں سے حاضرین کو آگاہ کرتا۔جب مجھ سے رائے مانگی گئی میں نے سابق صدرِ پاکستان وسیم سجادکے تحفے میں بھجوایا ہوا آئین نکالا اور کہا کہ آرٹیکل 209کی رُو سے ا قدام کی حمایت کروں گا اور پبلک میں اس کا دفاع بھی ۔ لیکن ماورائے آئین کی نہیں۔اس دوران ڈیلر وزیر اور اس کے ویلر نے مجھے کہا چند گھنٹے بعد رینجرز چوکیاں چھوڑ دے گی اور اس کی ذمہ داری آپ پر ہو گی۔میں نے صدر سے کہا میں یہ ذمہ داری لیتا ہوں۔ اس کی جگہ کسی اور کو وزیر لگا دو۔ساتھ یہ بھی اضافہ کیا کہ رینجرز کی تربیت لڑنے اور مرنے سے شروع ہو تی ہے اور اسی پر ختم۔رینجرز پنجاب پولیس نہیں جو واردات دیکھ کر کنی کترائے اورکمزوروں پر دھاوا بول دے۔تھوڑی دیر بعد ایک فون آیا جس کے نتیجے میں آئین کے تحفظ اور جمہوریت کی بالا دستی کی ''لائن کٹ‘‘ گئی۔
پچھلے ہفتے سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ بلاول بھاگ گیا ۔کہیں کہا گیا سُپر مین واپس نہیں آئے گا۔اسی روز بلاول کی واپسی ہوئی اور اگلے دن ہسپتال میںمریضوں کی عیادت ہو گئی۔ایک اور اہم واقعہ بھی ہوا جس کی طرف بہت کم لوگوں کی توجہ گئی۔ابھی بلاول کے جہاز نے لینڈ نہیں کیا تھا کہ وہی پرانی آواز پھر گونجی... بلاول کو خطرہ ہے۔ذرا غور فرمائیں ان چار لفظوں میں کتنی کہانیاں پوشیدہ ہیں ۔ یہ حقیقت بھی کھول ہی دیتے ہیں۔
1۔اولاً، سکیورٹی خطرات الرٹ شخصیات کے بارے میں ہوں یا ادارے سے متعلقہ‘ ان کا علم صرف وفاقی حکومت کو ہوتا ہے۔بولنے والے کے کان میں کس نے پھونک ماری کہ بلاول کو خطرہ ہے۔ اگر واقعی ہی ملک کی بڑی سیاسی شخصیت کو خطرہ ہے تو اس کے بارے میں خاموشی مجرمانہ غفلت ہو گی۔متعلقہ ادارے بوقت ضرورت ایسے الرٹ کو ہمیشہ پبلک کرتے آئے ہیں ۔
2۔دوسرے ،خطرے کے اعلان کے لیے بلاول کی فلائٹ کے وقت اور اسی دن کا انتخاب کس نے کیا ۔حالانکہ بلاول کی واپسی کا وقت کسی کے بھی علم میں نہیں تھا۔اس اعلان کا مقصد بلاول کو کارکنوں اور عوام سے رابطہ کرنے سے روکنے کی بھونڈی کوشش تھی۔
3۔ثالثاً، بلاول نے اس بھونپو کی بڑھک پر قطعاً توجہ نہیں دی اور لینڈ کرنے کے چند گھنٹے کے اندر اندر ہسپتا ل میں لوڈ شیڈنگ کے متاثرین کے پاس جا پہنچے۔ایسے اعلانات کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر موقع پر من پسند حکومتوں کو بچانے کے لیے مخالفین کو سکیورٹی رِسک کا راز بتایا جاتا ہے۔ابھی پچھلے ہفتے ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد پر ایسا ہی انکشاف کیا گیا۔
4۔چوتھے،وہ کون ہے جو نہیں چاہتا کہ پاکستان کی سب سے بڑی ترقی پسند قوت کو پھر زندگی ملے...؟ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے بی بی شہید کے آخری جلسوں میں جتنے لوگ پنڈال کے اندرآتے تھے ان سے ڈبل ،ٹرپل مجمع پنڈال کے ارد گرد جمتا تھا۔ اس کی وجہ بھی ایسے ہی اعلانات ہوئے تاکہ غریب کارکنوں کو بتایا جائے کہ اگر اس پارٹی یا فلاں لیڈر کے پاس پہنچے تو ''بے موت‘‘ مارے جاؤ گے۔
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ سال 2007ء میں لندن کی ایک میٹنگ میں ایسے ہی کرداروں نے شہید بی بی کو پاکستان واپس آنے سے منع کیا تھا۔ان کے دلائل سن کر یوں لگتا تھا جس طرح خطرہ برطانیہ پہنچ چکا ہے۔اب پھر وہ مفت خور لشکر جن کی دو وقت کی روٹی لگی ہے‘ نہیں چاہتے کہ پیپلز پارٹی متحرک ہو ۔اسی لیے جب بھی کوئی اپنی د ل شکنی اور اس کے بعدر خصتی کا علان کرتا ہے ان کے ''معدے میں‘‘ لڈو پھوٹتے ہیں۔تنخواہ دارملازموں کے علاوہ دربارمیں جس قدر درباری کم ہوں گے ان مفت برّوں کے ڈیلی راشن میں اسی قدر اضافہ ۔آج کے پاکستان میں کون سا ادارہ یا شخص 100فیصد محفوظ ہے‘ اس کا جواب ہم سب جانتے ہیں۔لیکن بلاول کو اصل خطرہ سکیورٹی رِسک سے نہیں‘ مفت خور خوشامدی لشکریوں سے ہے جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے علاوہ سائیکلوں کو پنکچر لگانے والے، دیہاڑی دار یا پھر کیچڑ میں لتھڑے ہاری بلاول کے ارد گرد کھڑے ہوں ۔وہ چشم ِتصو رسے دیکھ سکتے ہیں کہ اگر ایسا مرحلہ آیا تو ان کے اٹالین سوٹ،فرانسیسی بوٹ،انگریزی ٹائی،امریکی شرٹ ،سوِس سونے کی گھڑی ،کلف لگے ہوئے لٹھے اور ان پر گولڈن بٹن والی جیکٹ‘ سب کچھ گندا ہو جائے گا۔