رواں بجٹ کی چھکا چَھک تقریر میں وزیرِ خزانہ نے کمال انکشاف کیا۔ کہا: درجن بھر بین الاقوامی لوگ کہتے ہیں پاکستان ترقی یافتہ ہے۔ابھی اس لطیفے پر معیشت، تجارت، برآمدات اور گورننس کی دنیا میں قہقہے لگ رہے تھے کہ سرکاری میڈیا نے ایک اور دَرفنُطنی داغ دی۔ ''پاکستان ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں ٹاپ ٹین پر آگیا‘‘۔ مجھے کویت،قطر،متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، چین، جاپان، کوریا، ملائیشیا، تھائی لینڈ، برونائی وغیرہ پر ترس آیا جنہیں راتوں رات ہماری وزارت ِ خزانہ پیچھے چھوڑ گئی۔
امپورٹڈ شوکت عزیز کی بنائی ہوئی خزانے کی ٹیم کے دو کمالات آپ پڑھ چکے ۔تیسرابھی دیکھ لیجئے۔اس کمال کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔جدید بینکنگ کے ماہرین حیران ہیں کس طرح پاکستان نے ترقی کی چار منزلیں دو سال میں طے کر لیں۔ آئیے ذرا تفصیل دیکھتے ہیں۔
پہلی منزل ،پاکستان میں قومی بچت سکیم سمیت ہر طرح کی بچت سکیموں کا صفایا ہو گیا۔معیشت کے سارے نظریے "Domestic Savings"یعنی اندرونی بچتوں کو ترقی کی پہلی سیڑھی سمجھتے ہیں۔ موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم نے بڑی محنت اور منصوبہ بندی کے تحت معیشت کی اس بنیادی سیڑھی کو دھماکے سے ہوا میںاُڑا دیا۔
دوسری منزل،معیشت کی رگوں میں دوڑنے والے خون کا نام ''گردشِ زر‘‘ ہے ‘ جس کا واحد جائز ذریعہ بینک اور مالیاتی اداروں میں روزانہ اور لگاتار کیش ٹرانزیکشن ہیں۔چھوٹے ،میڈیم ،اور میگا بزنس مین روزانہ کی بنیاد پر کیش ٹرانزیکشن کے محتاج ہیں۔ان پر0.6فیصد ٹیکس لگا دیا گیا۔یہیں پر بس نہیں ہوئی ۔بلکہ بینک سے بینک تک رقم بھجوانے پر بھی ''سمدھی ٹیکس‘‘ لگایا گیا۔ اس کا نتیجہ ہُنڈی مارکیٹ اور مَنی چینجر کے کاروباریوں سے پوچھ لیں۔قومی مالیاتی ادارے اور بینک ٹھپ کرنے کا اس سے اچھا فارمولا شاید ہی جدید دنیا میںکہیں اور رائج ہوا ہو۔
تیسری منزل،وفاقی حکومت کا ادارہ شماریات آخری سانسیں لے رہا ہے۔آج کلا س مریض ِ جاں بہ لب سٹیٹیکس بیورو آف پاکستان پر بھی انہی کا قبضہ ہے۔پھر بھی اس ادارے سے چھوٹا موٹا سچ با ہرنکل ہی آتا ہے۔تازہ سچ یہ ہے کہ پچھلے 11ماہ میں پاکستان کی برآمدات کا گراف نیچے ہی گیا۔ ہماری برآمدات کا صرف ایک سیکٹرہی معیشت کو ڈالروں کا سہارا دے رہا ہے۔اس سیکٹر کا نام ہے ٹیکسٹائل انڈسٹری۔باقی برآمدات آٹے میں نمک جتنی بھی نہیں۔ان بر آمدات میں کمی کی وجہ پومی بٹ،تُمی بٹ ، گلو بٹ یا تُمہ بٹ گورننس ہے۔
چوتھی منزل ڈی ایف آئی کو کہا جاتا ہے۔جس کا مطلب ہے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری(Direct foreign investment) ۔وزارتِ خزانہ کے ماتحت ادارے نے11ماہ میں ڈی ایف آئی میں بھی اُلٹی گنگا بہنے کی نشاندہی کر دی۔
پنجاب میں ٹیکسوں کی تاریخ دلچسپ رہی ہے ۔اگر جگّا نائیوں کے ہاتھوں نہ مارا جاتا تو ہم آج بھی جگّا ٹیکس دے رہے ہوتے۔جگّا ہر کیش ٹرانزیکشن پر ٹیکس لیتا تھا۔کسی گاؤں میں بکری بِک جائے اور جگّے کو ٹیکس نہ ملے تو وہ گاؤں جلا دیتا۔شادی کی سلامی،میراثیوں پر پڑنے والی ویلیں،ہیجڑوں کے ناچ پر ،بچہ پیدا ہونے پرہرجگہ جگّا ٹیکس لاگو۔کراچی میں جگّا کی جگہ لنگڑا ٹیکس، کاناٹیکس، ٹُنڈاٹیکس، چُھراٹیکس،اور کالیا ٹیکس نے لے لی۔شہرِ پاکستان میں جگّا وصول کرنے کے لیے مادھوری اور پنکی بھی میدان میں آئیں۔البتہ اس کا نام بدل کر بھتہ ہو گیا۔جگّا، ٹیکس وصول کرنے کے لیے ڈانگ، گنڈاسا، بَلم، سوٹا، چُھرا، برچھا،کھُونڈااور گھوڑا استعمال کرتا تھا۔بھتہ لینے کے لیے ہنڈا، سوزوکی،ٹی ٹی،کلاشنکوف،گولیاں، بزوکہ اور رُقعہ استعمال کیاجاتا ہے۔پنجاب کے محکمہ ریونیو نے ایسا ہی ایک رُقعہ ڈی جے بٹ کو بھی بھجوادیا۔اس بیچارے غیر سیاسی موسیقار نے سیاست میں عہدہ ہتھیانے کے لیے جو ڈرامہ کیا تھا وہ اُلٹ کر اس کے اپنے ہی گلے پڑ گیا۔ابھی تو اسے ایک صوبائی سیلز ٹیکس کا نوٹس ملا۔ انکم ٹیکس، ایڈوانس ٹیکس،وِد ہولڈنگ ٹیکس،کیش ٹرانزیکشن ٹیکس،وفاقی سیلز ٹیکس، تقریبات ٹیکس،ایف بی آر ٹیکس، تنبو ٹیکس کے نوٹس تیاری کے آخری مراحل میںہیں۔یہ نوٹس ملنے کے بعد ڈی جے بٹ یا جلسے چھوڑ دے گا یا موسیقاری۔بالکل ویسے ہی جس طرح بھارتی فلموں کے گانے گانے والا فیصل آبادی قوال جب سے کیش ٹرانزیکشن سمیت انڈیا میں پکڑا گیا‘ اس نے انڈیا جانا ہی چھوڑ دیا۔ حالانکہ اس قوال نے بھارت میں اپنی پہلی کیسٹ کا آغاز نمستے اور سَت سری ا کال سے کیا تھا۔بھارت میں مَنی لانڈرنگ ٹائپ گرفتاری کا اعزاز حاصل کر نے والے اس قوال نے بھارتی فلموں کے گانے ریکارڈ کروانے اور رقم وصولنے کے لیے دبئی کا انتخاب کیا‘ بالکل ہمارے ذہین وزیرِ خزانہ کی طرح جو آئی ایم ایف کی ہر قسط ''بقلم خود‘‘ دبئی جا کر وصول کرتے ہیں۔پاک سرزمین پر واپسی کے بعد فتح کا اعلان ان لفظوں میں ہوتا ہے۔ ''قرض کی ایک اور قسط مل گئی‘‘۔ لیکن وزیرِ خزانہ نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ وہ قرض جس نے پاکستان کے بچّے بچّے کو مقروض کر دیا آخر جا کہاں رہاہے...؟
سیاسی تاجر حکمرانوں نے کیش ٹرانزیکشن ٹیکس کے حوالے سے پاکستان کے اصل تاجروں سے مذاکرات کیے۔پھر ان تاجروںکو ''ماموں‘‘ بنانے کے لیے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کروا دیا۔حالانکہ حکومت جانتی ہے پارلیمنٹ کے پاس کیے ہوئے فنانس بِل کو آرڈیننس سے نہ بدلا جا سکتا ہے نہ منسوخ کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ ٹیکس لگانے کے لیے صرف اور صرف پارلیمنٹ با اختیار ادارہ ہے۔
آپ اسے قوم کی بدبختی کہیں یا کسی کارگزاری کی سزا۔یہ سچ ہے کہ آج پاکستان کی زمینوں پر لینڈ مافیا کااور پاکستان کے خزانے پر مَنی لانڈرنگ مافیا کا قبضہ ہے۔کچھ دن پہلے اس کی تفصیلات میری نظر سے گزریں۔ایک انتہائی بڑا نام بلکہ ایک عدد ''ٹرائیکا‘‘ اس مافیا کو لیڈ کر رہی ہے۔پاکستان میں ہُنڈی کا کاروبار تقریباً بیٹھ گیا تھا۔ حالیہ بجٹ نے مئی،جون ،جولائی میں اسے چار چاند لگا دیئے۔اسی لیے مئی میں بینک ٹرانزیکشن پر0.6فیصد ٹیکس والی خبر چلائی گئی۔جون اور جولائی میں یہ ٹیکس نافذہو گیا ۔ مئی اورجون میں پاکستان کی بڑی بھاری رقم ہنڈی سے باہر گئی۔کوئی ادارہ اس کی تحقیق کرے اور چوری کا مال برآمد بھی کرائے۔ رقم کی برآمدگی اگر پاکستان کے سالانہ میزانیے سے کم نکلے توخود ہی اپنا نام بدل لے۔
کوئی نہ کرنا ایں سچّی گَل
اِک اِک گَل وِچ، سو، سو، وَل
تھُکّاں نال پکوڑے تَل
قوم نوں چُونا لائی جا
نچی جا، نچائی جا...
منی لانڈرنگ کے ماہر سیاستکار وں نے رشتوں کے تقدس کا بھی جنازہ نکالا۔ایک طرف سے اباّ جان اپنے بیٹے کو کیش کا تحفہ دیتے ہیں۔ جواباً دوسری طرف سے بیٹا اپنے اباّ جی کو ڈالروں کا قرض حسنہ جاری کر رہا ہے۔ تاجروں کے مطالبات کاحشر نشر ''اصلی تاجرانہ‘‘ حکومت میں لیّہ،راجن پور ،مظفر گڑھ اور پنڈی کے شہریوںجیسا ہوا۔ہر شہر میں میگا پراجیکٹ کے دعوے،ہر شہر کے لیے علیحدہ علیحدہ سبز باغ اور جونہی بارش شروع ہوئی‘ حکمران جدّہ اور لندن کی چھتریوں کے نیچے چُھپ کر جا بیٹھے۔جبکہ غریب عوام کے پاس 2010ء میں جو کچھ بچا تھا وہ تازہ سیلاب لے گیا۔
تاجروں سے تاجر حکمرانوں کا مقابلہ ہے ۔دیکھئے کو ن سا تاجر جیتے گا۔کیش ٹرانزیکشن ٹیکس کے خاتمے والا، یا منی لانڈرنگ کی سر پر ستی والا۔