"SBA" (space) message & send to 7575

میر یا ڈھول سپاہیا

میں نے ٹیلیفون اٹھایا۔دوسری طرف محترمہ بینظیر بھٹو شہید تھیں۔کہنے لگیں ابھی آ جائیں ارجنٹ بات ہے۔
اگلے30منٹ میں ان کے پاس پہنچا۔انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر کا بیان میرے سامنے رکھا (جو اب فوت ہو چکے)۔ مشیر نے کہا تھا‘ اگست میں آصف زرداری کو پھانسی دے دی جائے گی ۔ یہ بیان سندھ کے اخبارات میں شہ سُرخیوں سے چھپا۔نواز حکومت نے فوراً بعد فوجی عدالت اور دہشتگردی کا ایکٹ بنایا۔محترمہ بولیں‘ سجاد علی شاہ سخت مخالف ہے۔اس بیان کا مطلب بتائیں اور راستہ بھی۔میں نے تجویز کیا‘ بیان والے مشیر کے خلاف کراچی تھانے میں درخواست دی جائے اور چیف جسٹس کو آئین کے آرٹیکل 9کے تحت انسانی حقوق کی پٹیشن بھی۔چنانچہ یہی فیصلہ ہوگیا۔ اگلے دن میں کراچی گیا۔ سندھ پولیس کو درخواست دی۔ اس سے اگلے روز آفتاب شعبان میرانی،ناہید خان ،حاجی نواز کھوکر کو ساتھ لے کر میں اور بی بی سپریم کورٹ شاہراہِ دستور پہنچے۔میں نے چیف جسٹس کے سیکرٹری کو بتایا‘ درخواست دینے آئے ہیں‘ اس نے دروازہ کھول دیا۔
محترمہ سپریم کورٹ سے واپسی پر مجھے بلیو ایریا کے زیرِ زمین ریسٹورنٹ میں لے گئیں‘ جہاں پوچھا: اور کس طرح دفاع کیا جائے ۔میں نے کہا: مقتدر اداروں کو بیان کے بارے میں بتانا چاہیے۔انہوں نے مجھے اپنے ترجمان کے ساتھ جنرل اسلم بیگ سے وقت لینے کا کہا۔توقف سے کہنے لگیں‘ ایک اور دوست جنرل سے بھی ملیں ۔پھر نام بتایا جنرل حمید گل‘ میری حیرانی دیکھ کر کہنے لگیں‘ ان کے پاس آپ اکیلے جائیں ۔میری جنرل حمید سے یہ دوسری ملاقات تھی۔
اس سے پہلے راجہ اکرم صاحب آف بری امام نے ٹیلیفون پر بری امام ہاؤس میں یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب کرنے کی دعوت دی۔میں پہنچا توہزاروں لوگ تھے‘ جنرل حمید گل خطاب کر رہے تھے۔تقریروں کے بعد ہم پہلی بار ملے‘ کہنے لگے میری اور آپ کی دوستی ہونی چاہیے ۔میں بری امام ہاؤس سے نکلا۔ حضرت شاہ لطیف کے مزار کے دوسری جانب میرے کلاس فیلو وقار شاہ اور ان کے چھوٹے بھائی پیر مجاہد مرحوم کے گھر‘ جو یونین کونسل شاہ اللہ دتہ کے چیئرمین بھی تھے‘ چائے پینے چلا گیا۔راجہ اکرم کا خاندان لیگی مگر وہ سب کے لیے ''سالک‘‘ کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔پھر ملاقاتیں اور دوستی گھریلو تعلق میںتبدیل ہو گئے۔میری ہر تقریب میں جنرل حمید گل بڑے اہتمام سے بیگم صاحبہ ،بیٹی عظمیٰ گُل اور بہو کو ساتھ لے کر آتے۔ وہ صرف دلیر جرنیل اور چونڈہ محاذکے مجاہد نہیں بلکہ کُھلے پاکستانی تھے۔مذاق میںبھی ملک کے خلا ف کوئی بات برداشت نہ کرتے۔
ان کی تدفین کے بعد رات ان کے گھر پہنچا تو بیگم صاحبہ نے اندر بلا لیا‘ جہاں عظمیٰ نے شاندار واقعہ سنایا۔کہنے لگیں وہ بیٹی سے زیادہ پا کستان سے پیا ر کرتے تھے۔عظمیٰ گُل اور ان کے میاں کو سٹیشن کمانڈر نے ایک بلدیاتی قانون کی خلاف ورزی والی غلط فہمی پر تھوڑی دیر کے لیے زیرِ حراست لیا۔یہ خبر جنرل گل سے پہلے میڈیا تک پہنچ گئی‘ پھر انہیں عظمیٰ گُل کا فون آیا‘ عظمیٰ نے بتایا‘ وہ باپ کی آواز سنتے ہی رو پڑیں‘ کہا دیکھیں آپ کی بیٹی کے ساتھ ان لوگوں نے کیسا سلوک کیا۔ایسے موقع پر کسی بھی باپ کا ''ری ایکشن‘‘ یہی ہوتا کہ وہ بیٹی کی گرفتاری پر جذباتی ہو جاتا۔ لیکن حمید گل کیا تھے اور ان کے لیے پاکستان کیا چیزان کے جواب میں دیکھ لیں۔
حمید گل اپنی بیٹی سے کہنے لگے ''کس کے خلاف شکایت کر رہی ہو؟ فوج میری فیملی ہے اور سٹیشن کمانڈر اس فیملی کا ایک بچہ‘‘۔ عظمیٰ گل نے پھر کہا‘ ان کے میاں بھی گرفتار ہیں۔ آپ فوج کے اعلیٰ حکام سے احتجاج کریں۔جنرل نے کہا ''عظمیٰ اگر فوج تمہیں اور یوسف گل کو گولی مار دیتی تب بھی میں فوج کے خلاف شکایت نہ کرتا‘‘۔ عظمیٰ‘ ان کے بچوں اور گھر کی عزت مآب عورتوں کے ساتھ گھنٹے بھر سے زیادہ دیر بیٹھا رہا۔جنرل صاحب کے آخری وقت کے متعلق خواتین نے بتایا حمید گل کے دوڈاکٹر دوست ان کے ساتھ اس روز کھانے پر مدعو تھے۔6:30کے لگ بھگ جنرل حمید بھوربن مری کے علاقے علیوٹ میںواک کرنے گئے ۔7:45بجے واپس آکر پوری فیملی سے کہا آؤ دنیا ٹی وی پر اختلافی نوٹ دیکھتے ہیں۔ اختلافی نوٹ کے تقریباً اختتام پر انہوں نے بیٹی کو متوجہ کیا اور کہا سر میں درد کی ٹیس ہے ۔یہ ان کے آخری الفاظ تھے پھر و ہ صوفے پر بیٹھے بیٹھے اونگھنے کے انداز میں پیچھے ہو گئے۔علیوٹ سے مری شہر ، پھر ہسپتال تک کوئی گفتگو نہ ہو سکی۔ پریشر درجہ بدرجہ یوں کم ہوتا رہا جیسے ایک مطمئن روح آہستہ آہستہ مٹی کے پنجرے سے نجات حاصل کر کے پوری متانت سے سفرِ آخرت پر روانہ ہو رہی ہو۔
ان کے گھر سے اسلام آباد واپسی تک پاکستان اور اس کے عوام کی کئی بد بختیاں ذہن کے دروازے کھٹکھٹاتی رہیں۔بقول عمران خان اگر ذوالفقار علی بھٹو کو جینے کے لیے کچھ سال اور مل جاتے تو پاکستان کے بیشتر مسائل حل ہوجاتے۔کروڑوں لوگ کہتے ہیں اگر بینظیر بھٹو شہید اس دفعہ حکومت بنا لیتی تو پاکستان کی تقدیر بدل جاتی۔میں نے سوچا اگر لیاقت علی خان کے قاتل اپنے وار میں ناکام ہوتے تو نہ کبھی افغانستان کی جنگ ہوتی نہ اس میں ملوث ہو کر پرائی آگ اپنی جھولی میں ڈالتے۔ سوچ کی لہر آئی اگر ملک کا بدترین آمر ضیاء فوج اور قوم کے بارہ سال ضائع نہ کرتا تو جنرل حمید گل جیسا سچا سپاہی آرمی چیف بن جاتا۔اسی خطرے کے پیش نظر ضیاء الحق نے راحیل شریف کی طرح کے سارے جرنیلوں کو وقت سے پہلے اپنی سازش کا شکار بنایا اور ریٹائر کر دیا۔پھر خیال آیا کہ شاید سب جہانوں کے بادشاہ کو پاکستان کا کوئی اور امتحان مقصود تھا تا کہ اس قوم اور ملک کے دشمن بے نقاب ہو ں۔
کلا سیکل عربی کی ایک روایت ہے، کسی غریب الوطن کو گاؤں سے ملنے کے لیے آنے والا دوست بتا رہا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں کون کون مر چکا ہے ۔غریب الدیار شخص مرنے والوں کے نام سنتا اور نظر انداز کرتا رہا ۔جب ایک آدمی کا نام سامنے آیا تو وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ کہا‘ باقی سب جنازے تھے جن کو اُٹھنا ہی تھا ۔ہائے میرے وطن تیرا مرد بیٹا تمہیں چھوڑ گیا۔ جنرل حمید گل وطن کے ایسے ہی مرد بیٹے تھے ۔خوشی اس بات کی ہے ان کی پسندیدہ فوج نے مرنے کے بعد بھی ان سے وفا نبھائی۔مرنے والے کے ساتھ وفا یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کی قدرو قیمت کم نہ ہو۔عظمیٰ گُل نے بتایاراحیل شریف حمید گل کے جنازے کو کندھا دینے کے بعد ان کی گاڑی تک آئے۔عظمیٰ نے کہا‘ میں جنرل صاحب کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔راحیل شریف آگے بڑھے اور کہا We are one familyہم ایک ہی خاندان ہیں۔آہ ... ہمارا ڈھول سپاہی! 
جس نے میری شہرتِ گفتار کو بالا کیا
جس نے میرے آنسوؤں کو لولوئے لالہ کیا
جس نے حسن و عشق کی راتوں کو تاباں کر دیا
جس نے بت خانے کا بت خانہ مسلماں کر دیا
جس کا اُسلوب سخن بے خدشۂ ترمیم تھا
جس کے لہجے میں کمال کو ثر و تسنیم تھا
جس نے شاعر کی جوانی کو غزل خواں کر دیا
جس نے پت جھڑ میں بھی شاخوں کو گُل افشاں کر دیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں