یہ طے ہو گیا وہ فرشتے ہیں، فرشتے تھے اور فرشتے رہیں گے، اس لیے کہ ان کی سیاسی پرورش ''فرشتہ صفت‘‘ نے کی۔ فرشتے آج کل اصلی پنجاب کے چوتھے حصے پر حکمران ہیں جبکہ فرشتہ راج کے لیے یہ بھی طے شدہ ہے کہ سارے بُرے لوگ سندھ، بلوچستان، کے پی کے یا پیپلز پارٹی میںپائے جاتے ہیں۔ اس تقسیم کے بعد اگر کوئی مطالبہ کرے کہ سیشن جج کے سامنے موجودہ وزیر ِخزانہ نے حلفیہ اقرار اوراس کے بعد منی لانڈرنگ کے جرم کا اعتراف کیا تھا، اس کا احتساب کرو یا پھر کوئی یہ کہہ ڈالے کہ ماڈل ٹاؤن والے ڈیڑھ درجن شہریوں کے قتل میں بر سر اقتدار نامزد ملزم گرفتار کرو یا ویڈیو پر رشوت لینے والے فاضل وزیر کی سرزنش کرو، اصغر خان کیس چلاؤ، ظاہر ہے ایسی حرکتِ شریف سے جمہوریت اور ملکی سالمیت خطرے میںپڑ جائے گی۔
اسی لیے جمہوریت بچانے کی خاطر صرف ساڑھے آٹھ ہزار گارڈ سرکاری خرچ پر فرشتہ راج کی حفاظت پر مامور ہیں۔ فرشتہ راج دربار کے ایک مشہور کلا کار نے الاپ لگایا : ملک کی85 فیصدکرپشن صوبہ سندھ میںہوتی ہے۔ لوگوں کا دل تو چاہتا ہے کہ پبلک کی سڑک پر پلازے بنانے والے کوخورشید شاہ جواب دیں، لیکن چوہدری شیر علی کا کیا کریں جو فیصل آباد میں ہر روزگھر کے بھیدی کی طرح لنکا ڈھا رہے ہیں۔ چوہدری شیر علی کی تازہ ویڈیو قابلِ توجہ ہے جس میں''بابا شیرُو نے ڈنڈا پھیرُو‘‘ انکشاف کیا۔ وزیراعظم کے قریبی عزیز وڈے چوہدری نے کہا، میں طوطے مینا کی کہانی نہیں سنا رہا، پھر اس نے لشکری وزیر کے ڈیرے کو بشمول کرپشن 95 فیصد برائیوںکا گڑھ بتایا۔
میں نے 1980ء کے عشرے میں وکالت شروع کی۔ تب جناب نصیراللہ بابر وفاقی وزیرِ داخلہ تھے۔ آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹرمیرے موکل کرنل شبیر کراچی آپریشن کے آرکیٹکٹ جبکہ پاسپورٹ آفس اور امیگریشن کا سابق ٹاؤٹ ایف آئی اے میں ادنیٰ درجے کا ملازم۔ اس نے ایف آئی اے اہلکاروں میں خود کو ممتاز بنانے کے لیے چِلّی کے سابق ڈکٹیٹر''آگشٹو پنوشے‘‘ جیسی ٹوپی کی نقل بنوائی۔ پھر بادشاہ ِوقت کے ایک بچے کے لیے وہی ٹوپی سونے کے تاروں سے تیارکی۔ وردی میں انسپکٹر والے تین عدد گولڈن سٹار بھی جَڑوادیئے۔
موصوف کے آبائی علاقے میں اس کے چھوٹے بھائی سے کسی نے پوچھا تمہارا بڑا بھائی کس محکمے کی ٹوپی پہنتا ہے؟ چھوٹے بھائی نے جواب دیا: میرے''بھاء جی‘‘ پُلس کی پُلس کے محکمے میں ہیں۔ سننے والا شدید حیران ہوا اور مجسم سوال بھی بن گیا۔کہنے لگا، پولیس کی پولیس کون سا محکمہ ہے؟ چھوٹے کو فیڈرل انویسٹی گیٹنگ ایجنسی کہنا نہیں آتا تھا، بولا وہی محکمہ جس کی پُلس وڈی پُلس کو بھی''پَھد‘‘ لیتی ہے(یہ وہ پولیس ہے جو بڑی پولیس کو بھی گرفتار کر سکتی ہے۔)
یہ بات ضمناً درمیان میں آ گئی۔ میں سپیشل جج سینٹرل اسلا م آباد کی عدالت میں آئی ایس آئی فیم میجر عامر جو اَب برادر میجر عامر ہو چکے ،کے کیس میں وکیلِ صفائی تھا۔ میں نے میجر عامر کے مقدمے میں آئی بی کے ایک انتہائی طاقتور سربراہ پر جرح کی۔ اسلام آباد ایئر پورٹ کے عقب میں واقع کمرۂ عدالت سے نکلنے لگا تو دروازے میں طاقتور گواہ صاحب کھڑے ہوگئے۔ مجھے کہنے لگے، آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے آج میری بڑی بے عزتی کی۔ میجر عامر کا لال چہرہ قندھاری انار بنتا دیکھ کر میں آگے ہوا اور موصوف سے کہا، آپ میرے منشی سے میرا کارڈ لے لیں۔ آپ کو بہت جلد وکیل کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ عدالت میں زوردار قہقہہ لگا اور ہم باہر نکل گئے۔ چند دن بعد میجر عامر باعزت بری ہوگئے۔ پریس کانفرنس میں جو کہا پچھلے ماہ اپنے ہی گھر میں شیخ القرآن مولانا طیّب اورکافی سارے اہم صحافیوں اوراینکروں کی موجودگی میں وہ واقعہ اور الفاظ میجر عامر نے پھر دہرائے جو یہ تھے: ''بابر اعوان کے دلائل سن کر جی چاہتا ہے ایک اور بغاوت کا اعلان کردوں‘‘۔
پھر کچھ عرصے بعد گواہ صاحب اندر ہوگئے۔ ان کی بیگم صاحبہ ناہید خان کو ساتھ لے کر مجھے وکیل کرنے کے لیے میرے چیمبر تشریف لائیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جغرافیہ یہ ہے کہ احتساب گول ہے۔ اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنے آپ کو مستقل اور تاحیات''تاجدار‘‘ سمجھتے ہیں، ساتھ ہی سکندرِاعظم سے بڑا فاتح بھی۔ جو لیڈر وقت پڑنے پر معافیاں مانگ لیتے ہیں وہ اپنے آپ کو چیتا کہتے ہیں، فرار میں عافیت ڈھونڈنے والے شیر اور ٹینک پر چڑھ کر ایوانِ اقتدار تک پہنچنے والے ہاتھی۔ ملکی سیاست کے اس گول مٹول چڑیا گھر میں جس نے مخالفوں کے لیے جو قانون بنایا وہ خود بھی اسی کے تحت گرفتار ہوا۔ گرفتاری سے یاد آیا‘ کے پی کے میں حکومت نے اپنے دو عدد حاضر سروس وزیر پکڑ لیے۔ ایک کے خلاف ابھی تک تفتیش میں کچھ بر آمد نہیں ہوا، پھر بھی وہ جیل میں ہے۔ دوسرے نے الیکشن کے دوران ووٹنگ کے بکسے کو ہاتھ لگایا تھا، اسے بھی جیل جانا پڑا۔ دونوں میڈیا ٹرائل میں گناہگار ٹھہرے۔ چھوٹے صوبے کے وزیر ہونے کا نقصان دونوں نے دیکھ لیا۔
احتساب کے نام پر 1990ء کی سیاست واپس آ نہیں رہی بلکہ واپس آ چکی ہے۔ ویسے یادداشت تازہ کرنے کے لیے دیکھ لیتے ہیں 1990ء کی سیاست تھی کیا؟ مثلاً شہید بینظیر بھٹو کا ٹرائل۔ مدعی ،گواہ اور عدالت تینوں جگہ ہاؤس آف شریف۔ قاسم ضیاء تفتیش سے پہلے گرفتار، ثبوت صفر۔ الزامات مضحکہ خیز۔ ویڈیو پر رشوت لینے والے بے گناہ۔۔۔۔ بغیر تحقیق، بغیر تفتیش، بغیرچالان، بغیر تھانہ کچہری اور بغیر کسی عدالتی کارروائی یا ٹرائل کے۔
کل شام کراچی کے ایک انتہائی معتبر صحافی کا فون آیا۔ وہی امتیازی سلوک کا سوال۔ میں نے کہا چلو حقائق کا سامنا کرو، عدالت کا سامنا کرو، ٹرائل کروائو، جمہوریت کو ڈی ریل مت کرو۔ میرا دوست سٹ پٹا گیا، کہنے لگا کیا مطلب؟ عرض کیا: یہ طے ہو گیا کہ وہ فرشتے ہیں، فرشتے تھے اور فرشتے رہیں گے۔ ان کے درباری اورگلو بٹ معززین ِعلاقہ، ان کے وزیر مشیر ولی اللہ، ان کے لیڈر ظلِ الٰہی اور ان کے ٹھیکے ''گنگا جَل‘‘ میں دُھلے ہوئے۔ اگلا سوال میں نے سنا ہی نہیں:
ہر بوالہوس ہے معتبر و باوفا یہاں
ہر راہزن ہے راہبر و میرِ کارواں
ہر اہلِ زر ہے خاک نشینوں کا ترجماں
لوگ اپنے قاتلوں کے ہیں عُشّاق میری جاں
حُسنِ تمام بجھتی ہوئی شام کو لکھو
وجہِ نشاط، نشۂ آلام کو لکھو