رینٹل مغربی دنیا میں کرائے پر چلنے والی ٹیکسی کیب کوکہتے ہیں۔جو میٹر ڈاؤن کیے بغیر چلنے کا نام نہیں لیتی۔اجنبی ملکوں کے عارضی مسافر جن گندے اور بدنام فلیٹس میں رہتے ہیں ان کے لیے بھی رینٹل کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے۔پھر وطن فروش اور عوام فروش ایسے لوگ جن کا مائی باپ شکم پروری کے علاوہ کچھ نہیں وہ بھی رینٹل کہلائے۔ڈکشنری ،الفاظ کے اغلاط العام استعمال اور مقامی لہجوں میں رینٹل کے اس سے ملتے جلتے کئی اور معنی بھی ہیں۔پاکستان میںتو رینٹل نے دھوم مچا دی۔ پوٹھوہاری میں کہتے ہیں ۔ دُھم ہی دھمادی۔
ہمارے ہاں ''رینٹل ساگا‘‘ بجلی پیدا کرنے والے جہازوں سے شروع ہوا۔ جوملک کے اندر آتے بھی گئے اور کھاتے بھی گئے۔اربوں ،کھربوں اڑانے کے بعد پتہ چلا کہ رینٹل ایک جگہ سے آئے او ر میٹر دوسری جگہ جا کر ڈاؤن ہوگئے۔وہ بھی اس رفتار سے ہر چیز رینٹل ہو گئی۔بڑے بڑے آئینی عہدوں سمیت۔اہلیت پیچھے رہ گئی اور رینٹل آگے سے بھی آگے نکل گئے۔کتنا آگے اس کا اندازہ لگانے کے لیے اس رینٹل کی تحقیقات ضروری ہیں۔جس کے لیے ایک واٹر لو سجایا گیا، واٹر سیل بنایا گیا۔اسی سیل میں ڈالروں کے بکسے خرچ کر کے پاکستان کے پانی کا مقدمہ ہارنے کا بندوبست ہوا۔آج کل کالاباغ ڈیم سمیت ،ڈیموں کی تعمیر کا موسم پھر لوٹ آیا ہے۔ لوگ جان گئے ہیں کہ رینٹل‘ ڈیموں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے۔ ڈیم بنانے میں عشرے لگتے ہیںسال نہیں۔رینٹل اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے ۔رینٹل تقدیر بدلنے کے لیے بھی ہوتے ہیں۔ لیکن قوموں کی نہیں رینٹل کی۔پوٹھوہاری کلچر میں ایک طالب علم فارسی سیکھتے سیکھتے فارسی میں رینٹل کی طرح غرق ہو گیا۔ بیمار ہوا ،پیاس لگی ،ماں سے پانی مانگنے کے لیے کہنے لگا آب آب ۔بیچارہ مر گیا (سیاسی موت نہیں)لیکن رینٹل رینٹل معاف کیجیے گا آب آب کہنے سے باز نہیں آیا۔دُکھی ماں نے اس کی بے وقت موت پر یوں نوحہ پڑھا۔ع
آب آب کر مویوں بچہ، ّتے فارسیاں گھر گالے
ترجمہ(مجھے کیا پتہ تھا پانی مانگ رہے ہو ورنہ گھرنہ اُجڑنے دیتی)
اجتماعی زندگی میں گھر کا سربراہ رینٹل پر چل نکلے تو بربادی اجتماعی ہوتی ہے انفرادی نہیں رہتی۔میرے نانکے علاقے کلیام اعوان کے راستے میں بانٹھ گاؤں کے قریب ریلوے کی ایک چھوٹی سی پلی بنی ہوئی تھی۔انگریز کے زمانے میں اس پُلی پر چند سو روپے سے لوہے کا جنگلہ لگادیا گیا۔اس پلی کو کراس کریں تو دائیں طرف ایک فرلانگ پر میرے خالو اور 1857ء کی جنگِ آزادی کے ایک ڈیکوریٹڈ مجاہد کیپٹن محمد افضل مرحوم کا گاؤں چھمبہ ہے۔محض دو فرلانگ کے فاصلے پر سیدھی سڑک کلیام اعوان جاتی ہے یہاں بڑے بڑے بورڈ لگا کر پلی کا ایک سے زیادہ دفعہ افتتاح کیا گیا۔کلیام اعوان کے عوام کو یوں لگا جیسے پاکستان کا خزانہ رینٹ پر چلا گیا۔ مقامی لوگ کہتے ہیں افتتاح پر افتتاح اتنا ہی بُرا ہے جتنا رینٹل نکاح خواں نکاح پر نکاح کرتے ہیں۔
کئی لوگوں کے لیے یہ خبر ہو گی کہ آج کا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کبھی پنڈی تحصیل کا حصہ تھا۔چھوٹا سا شہر تین کیفے،دو بیکریاں اور پراپرٹی ڈیلر۔ اس سے بڑا شہرتو گوجرخان تھا۔ جہاں باٹا سروس نے اپنی دکان کھول لی تھی۔جبکہ اسلام آبا والے سودا سلف اور جوتے خریدنے راجہ بازار جایا کرتے۔ تب پنڈی اسلام آباد کے درمیان آٹھ آنے کرایہ لینے والی سرخ رنگ کی ڈبل ڈیکر چلنے کا دور تھا۔اکثر بسیں اس وقت کے عظیم وزیراعظم قائد عوام شہیدذوالفقار علی بھٹو کو رومانیہ کے صدر لیئو چاؤ شسکو نے تحفے کے طور پر بھجوائی تھیں ۔رومانیہ سے لے کر برطانیہ تک سب کو اعتبار تھا کہ یہ وہ وزیراعظم ہے جو اپنی آبائی زمین بیچ کرسیاست کا خرچہ چلاتا ہے۔وہ نہیں جو پرائم منسٹر ہاؤس خالی کرتے وقت تحفے اور قالین ہی نہیں بلکہ بڑے گملوں میں لگے ہوئے پودے بھی گھسیٹ لے جائے گا۔اور جو اقتدار کاآخری گھنٹہ چھٹی والے دن بھی ٹھوک بجا کر لگائے گا۔اس کی ایک اور عبرتناک مثال سیاسی چیف جسٹس والی تھی۔ جس نے سرکاری نوکری کے آخری چند گھنٹوں کو 62سال کہا۔
بات ہو رہی تھی رینٹل کی۔ اسلام آباد میں اکثر لوگ G6 اور G7کے سرکاری کوارٹروں میںرہائش پذیرتھے۔ان کی اکثریت کا تعلق مشر قی پاکستان سے تھا۔زیادہ ترمیرے کلاس فیلو ،لڑکے لڑکیاں بھی بنگالی ہوا کرتے۔انہی دنوں ایف سیکٹر نئے نئے بننا شروع ہوئے۔ایک شام تازہ بنے ہوئے گھر کے باہر سکوٹر رُکا اور اپنے علاقے کی ایک خاتون کو گھر کے ایک پورشن کا رینٹل آفر ہوا۔خاتون اپنی فیملی کے پاس برطانیہ آتی جاتی رہتی تھی۔اس کے بعد خاتون برطانیہ گئی اور ساتھ رینٹل والا گھر بھی گیا۔چور چور ی سے تو جا سکتا ہے، ہیرا پھیری سے ہر گز نہیں۔
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر کوئٹہ کی ایک دلچسپ تصویر چلی جس میں ایک بڑا سا بینر دکھایا گیا۔اس پر لکھا تھا ''پلیٹ کرائے کے لیے خالی ہے‘‘۔ بہت سے لوگوں کو معلوم ہے کہ افغانی ف کو پ بولتے ہیں ۔یہ درحقیقت کھانا کھانے والی پلیٹ نہیں بلکہ فلیٹ کرائے کے لیے خالی تھا۔رینٹل کی ہوا ایسی چلی کہ پلیٹ الٹ گئی اور لوگ گھر کرائے پر دینے سے بھاگنے لگے۔حالانکہ اسلام آباد میں گھروں کا رینٹ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے برا بر بتایا جاتا ہے۔خالی پلیٹ ہو یا فلیٹ دونوں کی خیر ہے۔جن پاپیوں کے پیٹ کلو میٹروں تک چلے گئے انہیں کون بھر سکتا ہے ؎
کفن فروشیٔ اسلاف کاروبار ان کا!
کہاں کے لوگ کہاں آ کے ہو گئے گمراہ
خزاں تو خیر خزاں ہے گِلہ ہی کیا اس سے
بہار میں بھی ہوئے ہیں گلاب و لالہ تباہ
وہ اپنے چاک گریباں کی دھجیاں بیچیں
ہے دوستوں کا ارادہ اگر، تو بسم اللہ