2007ء کے بعد پہلی دفعہ دبئی ایئر پورٹ پر قدم رکھاتھا۔ میں نے‘ بحریہ ٹاؤن کے ملک ریاض حسین اور بیگم ملک ریاض نے بیگ اٹھائے اور چل پڑے۔مجھے لگا شاید غلط ایئرپورٹ پر پہنچا ہوں۔میری حیرانی دیکھ کر ملک ریاض بولے‘ یہاں سے ٹرین میں ٹرمینل نمبر3جائیں گے۔میں خوشگوار حیرت میں ڈوب گیا۔آخری بار شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ جو دبئی ایئر پورٹ میں نے دیکھا تھا اس کی اب دنیا بدل چکی ہے۔میرا دبئی آنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ملک ریاض صاحب نے فون پر پوچھا ‘ویزا ہے؟ یہ17تاریخ کی بات ہے۔ میں نے کہا‘ جی ہاں ہے تو سہی مگر صرف20ستمبر تک ۔ یوں میں متحدہ عرب امارات آیا۔یہاں اگلے روز دبئی کے امیر کا34سالہ بیٹا فوت ہوااور دبئی 3روزہ سوگ میں ڈوب گیا۔جوان شہزادہ کھیلوں اور فلاحِ انسانیت کی سرگرمیوں کے لیے خلیج بھر میں معروف تھا۔
اگلی صبح میں امارات ہلزکی نسرین روڈ پر تھا ۔ایک عظیم خاتون اور سچی عوامی لیڈر کی یادیں مجھے آٹھ ‘ نو سال پیچھے لے گئیں‘جب میں اور سندھ کے سابق وزیراعلیٰ برادرم آفتاب شعبان میرانی‘ شہید بی بی کی گاڑی میں ان کے ساتھ پچھلی نشست پر بیٹھے تھے اور ہماری منزل اسحاق ڈار کا وِلا تھا۔ یہ مذاکرات کا موسم تھا‘ جب نوازشریف اور ان کے اہلِ خانہ کو پیپلز پارٹی جمہوریت کی مہاتما نظر آتی تھی۔آج اسی امارات ہلز میں نسرین روڈ سے گزرتے ہوئے شہید بی بی مجھے اپنے آس پاس نظر آئیں۔18اکتوبر کو شہید بی بی کی واپسی کا پروگرام فائنل ہوا۔ پیپلز پارٹی کا ہر لیڈران کے جہاز پر چڑھنا چاہتا تھا۔ شہید بی بی نے مجھے کہا: ''آپ کراچی ایئرپورٹ کے ٹرمینل نمبر2پر کھڑے ہو جائیں‘ ساری دنیا سے میڈیا آئے گا‘ خاص طور پر عرب اور انگریز میڈیا‘آپ دونوں کو تازہ ترین صورتحال بتاتے رہیں گے۔میرا آپ سے ٹیلیفون پر مسلسل رابطہ ہو گا‘‘۔ میں دبئی سے واپس آیا۔اسلام آباد ایک رات گزاری اور کراچی پہنچ گیا۔18اکتوبر کو کراچی ایئر پورٹ جانے والے سارے راستے بند تھے۔ایک سینئر پولیس آفیسر نے اپنی نوکری کی قیمت پر مجھے ایئر پورٹ پہنچانے کا وعدہ کیا اور میں انہی کی گاڑی میں ٹرمینل نمبر 2 تک جا سکا۔شہید بی بی کو یقین تھا کہ وہ پاکستان کے لوگوں کی تقدیر بدل دیں گی‘لیکن اس ملک کے غریب لوگوں کی قسمت الٹ گئی۔
نسرین روڈ پر ایک ہی اونچی چار دیواری والا گھر ہے‘باہر اماراتی پولیس کا کیبن۔میں اترا‘ سابق صدر آصف زرداری میرے انتظار میں ٹہل رہے تھے۔گلے ملنے کے بعد لابی میں پہنچے۔پھر مجھے بی بی اپنی سیٹ پر بیٹھی نظر آئیں‘جہاں سے بائیں طرف سفید ماربل کی سیڑھی فرسٹ فلور پر جاتی ہے۔ایک دن یہیں کھڑے ہو کر میں نے بی بی کو آنسوؤں میں ڈوبے ہوئے دیکھا تھا۔کہنے لگیں‘ میری ماں بہت مضبوط عورت تھیں۔غریب عوام کے لیے سر پر لاٹھیاں کھائیں‘لیکن آج وہ کرسی سے گر پڑیں اور میں ان کا بہتا ہوا خون نہیں دیکھ سکی‘ اس لیے آنسو نکل پڑے۔پھر کہا‘ یہ ماں باپ بھی کیا چیز ہوتے ہیں‘ جن کے مضبوط بازو ،بلند حوصلے بچوں کو ساری دنیا سے بڑے نظر آتے ہیں۔پھر ان پر وہ وقت کیوں آتا ہے کہ یہ خود سے اٹھ بھی نہیں سکتے اور اپنے بچوں کے محتاج بن جاتے ہیں۔اس لابی کا مغربی کمرہ گھر کی پرائیویٹ نشست گاہ ہے‘جہاں ہم شہید بی بی کی تصویر کے پاس پہنچے۔ سابق صدر نے اپنے گھر کے کیئر ٹیکر کو بلایا اور کہا کہ تصویر کی دونوں سائیڈوں پر ہم کھڑے ہوں گے ‘فوٹو بناؤ۔
پھر ایک مشکل موضوع شروع ہوا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ صورتحال اور اس کی بحالی ۔میں نے اپنے حافظے میں درج ان12نکات پر گفتگو کا آغاز کیاجو پاکستان کا میڈیا ،تجزیہ کار اور خاص طور پرجیالے تقریباًاتفاقِ رائے سے بیان کرتے ہیں۔ہم گفتگو کے آدھے حصے میں پہنچے تو بلاول اوربختاور آ گئے ۔ساتھ ہی کہا گیا کہ کھانا تیار ہے۔لابی سے ہو کر دائیں طرف ایک مختصر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے... میرے بائیں آصف زرداری‘ بالکل سامنے بلاول بھٹو اور دائیں جانب بختاور ۔سابق صدر نے اپنے بچوں کو موضوع بتایااور1996ء کے واقعات بھی، جس میں میری عدالتی جنگوں اور عوام کی جدو جہد کا تذکرہ تھا۔اس کے بعد مجھ سے تقاضا کیا کہ گفتگو کا خلاصہ کرکے اسے آگے بڑھاؤ۔میں نے تینوں پر نظر ڈالی اور کہا‘ میں آپ کا لنچ خراب نہیں کرنا چاہتا‘لیکن اسرار پر گفتگو آگے بڑھائی۔کچھ باتیں پرائیویٹ گفتگو سمجھ لیں،اس لیے اسے کالم میں نہیں لکھوں گا۔لیکن دو اہم نکات یہ تھے:
پہلا:پاکستان ایسے کراس روڈ پر آ گیا ہے جہاں سے باخیریت باہر نکلنے کے صرف دو راستے ہیں۔ایک نظریۂ ضرورت والا‘ جس کے لیے سپریم کورٹ کے اکیسویں ترمیم والے فیصلے کے بعد پھر آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
دوسرا:اگلا راستہ‘ سوشلسٹ منشور کے ساتھ ترقی پسند پیپلز پارٹی کی بحالی۔
اس پر پُر مغز گفتگو ہوئی۔شرکاء نے اتفاق کیا۔یورپ سے ایشیا تک ترقی پسند قوتیں روز بروز سرگرم اور طاقتور ہو رہی ہیں۔اس مرحلے پر میں نے کچھ نام لیے اور اصرار کے ساتھ کہا کہ یہ کارکنوں کو بوجھ سمجھتے ہیںکیونکہ یہ پارٹی کو کاروبار اور لیڈروں کو عوام سے دور رکھنا اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔پھر میں نے اجتماعی قیادت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے کھل کر بات کی۔عرض کیا‘ ایسے لوگوں کو ذمہ داری دیںجو پاکستان کے لیے خواب رکھتے ہیں۔جن کے پاس پہلی ،دوسری اور تیسری آپشن صرف پاکستان ہے‘ جو عوام کے پاس جانے سے نہ گھبرائیں اور جن کے لیے غریب عوام کے دلوں میں پذیرائی کی گنجائش ہو۔میں نے یہ بھی کہا‘ جس سے اتفاق کیا گیا کہ جب سے پاکستان میں ترقی پسند سیاست ختم ہوئی ہے‘ عوام ٹیکس نما بھتے تلے دبے جا رہے ہیں ۔کچھ باتیں پھر سہی۔اس کے بعد میں نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ساتھ جدو جہد کے تجربات شیئر کیے۔
در حقیقت بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کی اصل بنیاد طبقات ہیں‘مگر ان پر کسی سیاسی جماعت کی توجہ اور فوکس نہیں۔راجہ گدھ والی کہانی آپ نے پڑھی ہوگی۔جب تک راجہ گدھ منڈلاتے رہیں گے تب تک عوام روتے رہیں گے۔راجہ گدھ کو پہلے خون پسند تھا لیکن اب وہ ہڈیاںچبانے میں مزہ لیتا ہے۔مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ سوشلسٹ معیشت اور نچلے طبقات کی سیاست پاکستان کا مستقبل ہے۔جو جماعت یہ بنیادی حقیقت فراموش کرے گی وہ سٹیٹس کو کے تاریخی برف خانے میں دفن ہو جائے گی اور ہر اونچی دیوار پر راجہ گدھ زبان کا چسکا پورا کرنے کے لیے خون اور ہڈیاں نشانے پر رکھے گا:
آہ بینظیر! تجھ کو کس پھول کا کفن دیتے
تو جدا ایسے موسموں میں ہوئی
جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے