"SBA" (space) message & send to 7575

تقریر اور مستقل مزاجی

شہر اقتدار میں وزیراعظم کی جنرل اسمبلی والی تقریر پر تین طرح کے تبصرے جاری ہیں۔
پہلا تبصرہ :یہ ایک شاندار تقریر تھی۔
دوسرا تبصرہ زیادہ دلچسپ ہے ۔یہی کہ تقریر لکھ کر بھجوانے والوں کا شکریہ۔
تیسرا تبصرہ یہ کہ،یہ تقریر نہیں اوفا ڈیکلریشن کا نوحہ تھا۔
لیکن اصل سوال ان تینوں تبصروں سے زیادہ اہم ہے۔سوال ہے: کیا وزیراعظم اپنے کسی مؤقف کے بارے میں مستقل مزاج ہیں؟اس سوال کے جواب کے لیے تاریخ کاجائزہ لیناضروری ہے‘ جس کا اوّلین باب تحریکِ استقلال کے عروج سے شروع ہوتاہے۔جونہی تحریکِ استقلال عدم استقلال کا شکار ہوئی اس کے ٹرک میں سے پہلی چھلانگ لگانے والوں میں نواز شریف صاحب کا نام بھی شامل ہے۔پھر محمد خان جو نیجو اور غلام حیدر وائیں، وزیر اعلیٰ کھوسہ اور ان کے والد صاحب کے ساتھ سلوک مستقل مزاجی کے شاندار با ب ہیں۔
جنرل جہانگیر کرامت ،جسٹس سجاد علی شاہ ،آئی جے آئی، جماعت اسلامی ،اے پی ڈی ایم اور پی پی پی بعد ازاں اسی مستقل مزاجی کے اہم سنگ میل ثابت ہوتے رہے۔یہ تھے اندرونی مستقل مزاجی کی دیگ کے چند عددچاول ۔علاقائی اور بین الاقوامی مستقل مزاجی کے شاہکار بھی جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔موجودہ وزیراعظم صاحب نے جو نہی اقتدار سنبھالا وہ اور ان کے برادرِ خورد واہگہ بارڈر کی سرحد مسمار کرنے کی جاری مہم کی سر پرستی میں لگ گئے۔بڑے میاںصاحب نے فرمایا: یہ چھوٹی موٹی عارضی تقسیم یا لکیر اہم نہیں‘ اہم دونوں ملکوں میں ایک جیسا رہن سہن ہے‘ ہم اصل میں ایک ہی ہیں۔ وزیراعظم کی اس بے کراں خواہش نے جہاں واہگہ کے بین الاقوامی بارڈر کی خونی لکیر کے وارثوں کو خون کے آنسو رلا دیا‘ وہاں بیوروکریسی کا لاہوری گروپ بارڈر کے دونوں جانب واقع جاتی امرا کو ایک ثابت کرنے میں جُت گئے۔ کوئی ساڑھی خریدنے لگا،کسی نے برفی کی ٹوکری اٹھا لی۔اس مہم کا جواب سرحد پار سے سینکڑوں بار گولیوں‘ بمبوں اور دھماکوں کی صورت میں آیا۔اورایسا ہی تازہ ترین ثبوت دہلی کے قریبی گاؤں سے ملا جہاں ایک ہندوستانی مسلمان کو پتھروں اور لاٹھیوں سے مار مار کر زندہ درگور کر دیا گیا۔اس کا قصور یہ تھا کہ اس کے گھر سے گائے کے گوشت کی بو آ رہی تھی۔ ہندوتوا کی سرکار ی پالیسی نافذ کرنے والے حملہ آوروں کو مظلوم مسلمان کے گھر سے بیف کی بوٹی تو نہ ملی،مگر انہوں نے عفت مآب بیٹیوں اور عورتوں کی بوٹیاں نوچ لیں۔
چھوٹے میاں صاحب نے بھی اس مہم میںاپنا حصہ ڈالا۔وہ کبڈی کے ایک متنازع میچ میں تقریر کرنے کے لیے بھارتی پنجاب جاپہنچے‘جہاں بھارتی پنجاب میں واقع اپنے آبائی گاؤں جاتی امرا کے بزرگ سکھوں سے ملاقات کی اور ساتھ جھوم جھوم کر تقریر میں یہ شعر پڑھا:
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے گھر میں بھی سایہ جائے
بھارت کی مودی سرکار کو یہ شعر اس قدر پسند آیاکہ اس کے بعد سے آج تک ورکنگ باؤنڈری سیالکوٹ،نارووال اور ایل او سی پر سینکڑوں مرتبہ پاکستان کے شجرِ سایہ دار شیلنگ اور بارود کی زد میں آچکے ہیں۔ پاکستانی شہری سرحدی علاقوں میں شہید ہوتے رہے۔ خواتین کے پر خچے اڑ گئے ۔بچے بِن کھلے پھولوں کی طرح کٹ گرے‘لیکن اقتدار کے دونوں بڑوں نے بھارتی فوج کی مذمت کے لیے ایک لفظ نہ کہا۔
پھر اوفا کانفرنس آ گئی۔میں نے 'اختلافی نوٹ‘ میں اوفا کے معاہدے کو کوفہ کا معاہدہ کہا‘جس میں پاکستان کی حکومت اپنی شا ہ رگ کو بھول کر سفارت کاری کا ''فرینڈلی میچ‘‘ کھیلتی رہی۔ شسما سوراج نے وزیراعظم نواز شریف کے چار نکات کا جواب لڑاکی پڑوسن کی زباں میں دے دیا‘ جس پر سرکاری خرچے، پروٹوکول اور ہوائی ٹکٹ کے ساتھ جانے والی ہماری خاتون اہلکار اور وزیریوں خاموش رہے‘ جیسے وزیراعظم نے کوئی تقریر ہی نہیں کی اور شسما سوراج کی تقریر کا جواب دینا ان کے سرکاری حلف اور ذمہ داری میں شامل ہی نہیں۔ یہ الگ بات ہے ،ایک خاتون وزیر نے اپنے باس کی خو ش خوراکی والے ذوق کی تسکین کے لیے اپنے امریکی گھر میں پایہ پارٹی کر ڈالی۔پائے کہاں سے آئے یہ کہانی پھر سہی۔یہ پائے اس قدر لذیذ تھے کہ ان کے لیے ہماری لیڈر شپ نے میزبان ملک کے صدر کی عالمی ضیافت تک ٹھکرا دی اور اس طرح ثابت کر دیا کہ سری پائے کے معاملے میں ہم مکمل طور پر خود مختار ہیں ۔ ہماری مستقل مزاجی کا ثبوت مزید یہ ہے کہ پایہ پایہ ہوتا ہے‘ چاہے پھّجے کا ہو،کھبّے کا ہویاسجّے کا۔پایہ لاہور کا ہو ،واشنگٹن کا یا نیویارک کا ہمار ا اصولی مؤقف یہ ہے کہ پایہ صرف پایہ ہوتا ہے۔وہ سری مغز یا کھدّ کا محتاج نہیں۔
مستقل مزاجی کا تیسرا محاذاندرونی ہے۔یہاں اہم ملکی اداروں کے بارے میں لیڈر شپ مستقل مزاجی سے لڑائی کرتی ہے۔ان کے خیال میں کوئی غلیل والا ہے تو کوئی ساری خرابیوں کا ذمہ دار۔ عدلیہ ان کے حق میں فیصلہ دے تو اچھی ورنہ اس سے بُراسلوک اور ججوں کا میڈیا ٹرائل شروع۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لیے جو تقریر سارے سٹیک ہولڈرز نے مل کرتیار کی ہو گی اس میںسے بھارتی بے رحم ایجنسی ''را‘‘ مودی سرکار اور ان کی دہشتگردی کی تفصیل نکال دی گئی۔اس کے باوجود اگر ہمارے حکمران مستقل مزاجی کے ساتھ علاقائی پالیسی ،دوست اور دشمن کی پہچان اور اپنی ترجیحات کا قبلہ درست کر سکیں تو بھارت کے پھیلتے ہوئے پروپیگنڈا نما اثرورسوخ کا راستہ رک جائے گا۔
جب میں نے یہ وکالت نامہ لکھنا شروع کیا‘ تب جرمنی کے لوگ دیوارِبرلن گرانے کی پچیسویں سالگرہ منا رہے تھے ۔تین مظلوم ملکوں کے عوام آ ج بھی دیوارِ برلن کے ذریعے تقسیم ہیں۔پہلا: مقبوضہ فلسطین،دوسرا:وادیٔ جموں و کشمیر اور تیسرا: سیول اور پیانگ یانگ یعنی جنوبی اور شمالی کوریا۔اگر امریکہ کے صدر بارک حسین اوباما بھی مستقل مزاج ہیں تو وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کنکریٹ کی دیواریں گِرا کرظالم اور مظلوم طبقات والی مصنوعی لکیر مسمار کر دی جائے۔مغربی طاقتیں مسلم سرزمینوں پر کلسٹر بم،بمبار جہاز اور دہشت و وحشت والے گروہ کے تحفے بھیجنا بند کریں۔پھر وہ حکمران تاریخ سے سبق سیکھیں جو کلمہ گو مسلمانوں پر حملہ کرنے والی فوجوں کے خرچے کا بِل ادا کرتے ہیں۔ہمیں اس پا ک سر زمین میں مستقل مزاج حکمران پالیسی اور روڈ میپ چاہیے۔موجودہ اقتداری ٹولہ یہ روڈ میپ تب دے سکے گا جب یہ لندن،واشنگٹن،چین، ترکی،برازیل،دبئی اور قطر سے ڈالروں کے کنٹینر واپس لاکر اپنے بینکوں میں رکھنے کی عادت ڈالے گا۔
اپنی آہوں کا ستم گر پہ اثر ہونے تک
ہم کو جلنا ہے یو نہی رات بسر ہونے تک
صرف سودا ہی ضروری نہیں دیوانوں میں
سر بھی درکار ہے دیوار کو سر ہونے تک

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں