1967ء کے بعد آج تک جس پالیسی نے قبلۂ اول پرتسلط قائم رکھنے کے لیے اسرائیل کی سب سے بڑی حمایت کی وہ پالیسی تبدیل کر دی جائے تو ''القدس کمپاؤنڈ‘‘ مسجد اقصیٰ کی آزادی کی خود ضمانت بن سکتا ہے۔
وہ پا لیسی ہے کیا‘ یہ جاننے سے پہلے آئیے تھوڑا سا پس منظر دیکھ لیں۔1967ء وہ بدقسمت سال تھا جب اسرائیل نے اپنا دارالخلافہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا ۔سوائے فلسطینیوں کے مشرق وسطیٰ کی کسی طاقت نے اس صہیونی اقدام کی با معنی مزاحمت نہ کی‘نہ ہی امت مسلمہ کے با رسوخ ممالک اور بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے مغرب میں اثرو رسوخ رکھنے والی شخصیات نے اس بابت کوئی کردار ادا کرنا پسند کیا۔چنانچہ ایک طرف قبلۂ اول پر غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلم ممالک کے حاکموں کا کرداربند کمرے کی قراردادوں تک محدود ہوکر رہ گیا۔ دوسری جانب ،مشرق وسطیٰ میں مسلمان ملکوں کے جائز و نا جائز حکمرانوں نے ذاتی اور باہمی لڑائیوں کا جمعہ بازار لگا دیا۔ان کی توجہ کا نقطۂ ارتکاز شخصی اور خاندانی اقتدار سے آگے نہ بڑھ سکا،جس کے دو الم ناک نتائج برآمد ہوئے۔
پہلا نتیجہ، یہ کہ فلسطین کی تحریکِ آزادی فرقہ پرستی والی تقسیم کی زد میں آ گئی۔اس صورتحال سے فوری فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے فلسطین کو نئی دیوارِ برلن بنا کر دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
دوسرا نتیجہ،یہ کہ مشرق وسطیٰ بقول صدام حسین کے امّ الحرب یعنی جنگوں کی ماںمیں پھنس کر رہ گیا۔برائے نام ترقی پسند حکومتوں کے خاتمے کے لیے مغربی ملکوں نے مڈل ایسٹ میں کرائے کی فوجیں،جہاز اور ٹینک بھجوا دیئے۔مغربی اتحادی ، مقامی بادشاہتوں اور شہزادوں سے مل کر بظاہر مڈل ایسٹ میں جمہوریت بحال کر رہے تھے، لیکن ان جنگی مہمات کے دوران اسرائیل مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور مسلم امہ کمزور سے بھی کمزور ترین۔
اس کا ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے ۔ وہ یہ کہ مغربی افواج بظاہر مڈل ایسٹ کی بادشاہتوں کی رکھوالی کر رہی ہیں لیکن دراصل وہ پوری طرح سے اسرائیل کے ''باڈی گارڈ‘‘ کا کردار ادا کر رہی ہیں۔آج مغربی فوجوں کا سہارا لینے والے عرب لیڈر کہاں پہنچ چکے ہیں‘ اس کے کئی ثبوت موجود ہیں ۔صورتحال کو صیحح انداز میں سمجھنے کے لیے ان میں سے تین کا تذکرہ یہاںضروری ہے۔
اولاً،سوشل میڈیا پر آج کل کئی لنکس کے ساتھ ایک ذمہ دار عرب ریاستی عہدیدار کی گفتگو چل رہی ہے‘جس میں وہ کہتا ہے کہ تاریخی طور پر عرب اور اسرائیلی آپس میں کزن لگتے ہیں اور پھر یمن کے مسئلے کا حل نکالنے کا واحد راستہ اسے اسرائیلی فوجی امداد ملنے سے نکلتا ہوا نظر آتا ہے۔
دوئم،جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کا یہ بیان کہ مشرق وسطیٰ کے مہاجروں کے لیے یثرب اور حجاز کے دو مقدس شہر یورپ کے شہروں سے زیادہ قریب ہیں ۔ مشرق وسطیٰ کے مہاجر مکّہ اور مدینہ کا رخ کیوں نہیں کرتے۔آج جرمن چانسلر کو انتہا پسند گورے یورپ کا غدار کہہ رہے ہیں۔
تیسرے، پاکستان میں ہنگری کے سفیرنے ابھی اگلے روز ایک انٹرویو میں کہا، مشرق وسطیٰ کے مہاجر پڑوسی ملکوں میں جائیں۔ہنگری پر ان کی یلغار سمجھ سے بالاتر ہے۔
اگر مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں میں اس صورتحال کا نوٹس لینے کے لیے کوئی جرأت مند آوازموجود ہوتی تو وہ مغرب سے پوچھ لیتی کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کس نے مسلط کی؟لیکن اس سوال کا جواب ویسا ہی ہو سکتا ہے جیسا امریکہ نے اگلے روز کابل کے حکمرانوں کو دیا ہے۔قندوز میں ہسپتال پر امریکی بمباری پر کابل میں مودی کے حکمران دوستوں نے احتجاج شروع کیا ۔اس کے جواب میں امریکہ نے کہا کہ قندوز کے ہسپتال پر نیٹو کو بمباری کرنے کی درخواست کابل کے حکمرانوں نے خودکی تھی۔ڈاکٹروں اور مریضو ں پر بم گرانے کا فیصلہ امریکہ یا نیٹو نے نہیں کیا تھا۔
اس وقت مسلم امّہ کے نام پر مسلمانوں کی لیڈر شپ کے دعویداروں کا امتحان شروع ہوا ہے۔قابض اسرائیلی فوج نے گزشتہ ہفتے سے مسلم زائرین اورفلسطینیوں کے لیے القدس کمپاؤنڈ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان حکومتیں آگے بڑھ کر قبلۂ اول کو آزاد کروائیں۔ظاہر ہے اس کے لیے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔اس کام کے آغاز کے لیے اسرائیل کی موجودہ کارروائی تازہ جواز بھی ہے۔مسلم ممالک او آئی سی کے دسمبر والے اجلاس کا انتظار چھوڑ دیں۔وہ اجلاس اپنے وقت پر ہوتا رہے گا۔اسلامی ممالک کی کانفرنس اپنی ارجنٹ میٹنگ طلب کرے اور مطالبہ کردے کہ جو لوگ قبلۂ اول میں نماز پڑھنا چاہتے ہیں‘ ان کے لیے دروازے اور راستے کھول دیئے جائیں۔پھر اس مطالبے کو اقوامِ متحدہ میں لے جا یا جائے ۔ساتھ ہی وہ مسلمان ملک جو اپنے زائرین کو بیت المقدس جانے کی اجازت نہیں دیتے‘ وہ اس پابندی کو اٹھا لیں۔اس طرح ساری دنیا کے مسلمان بیت المقدس میں جمعہ اور دیگر نمازیں پڑھنے کے لیے چل پڑیں گے۔میرے سمیت ہر شخص کی یہی خواہش ہے اور یوں بیت المقدس کو اور وہاں مظلوم فلسطینی مسلمانوں کو دنیا بھر کے مسلم زائرین کی آمد سے بہت ریلیف اور تقویت ملے گی۔ویسے بھی ممالک کے تعلقات آپس میں کشیدگی کے جس درجے پر ہوں‘ مذہبی لوگ اپنی زیارتوں کا بائیکاٹ نہیں کرتے خواہ وہ براہ راست ہوں یابالواسطہ۔ اس کی دوعدد موجود مثالیں پاکستان سے دی جا سکتی ہیں۔
ایک ‘سکھوں کے دو اہم ترین مذہبی مقامات پاکستان میں واقع ہیں ۔پہلا ننکانہ صاحب میں بابا گرو نانک کا جنم استھان جبکہ دوسرا پنجاب کے ضلع اٹک کی تحصیل حسن ابدال میں دربار پنجہ صاحب۔پاکستان اور بھارت نے براہ راست جنگیں لڑیں‘ اس کے باوجود سکھ زائرین نے ساری دنیا سے اپنی ان دو زیارتوں کا بائیکاٹ یا مقاطعہ کبھی نہیں کیا۔
دوسری مثال ہندوئوں کے ضلع چکوال میں واقع مندر کٹاس راج کی ہے ۔ہندو مذہبی روایت کٹاس راج میں واقع جھیل کو شیوا جی کا آنسو کہتی ہے۔ہر قسم کے جغرافیائی، سیاسی اور علاقائی موسم میں ہندو کٹاس راج کی زیارت کو ضرور آتے ہیں۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قبلۂ اول کی آزادی کے لیے یہ پہلا قدم اٹھا دیں۔ ویسے بھی یہ شہر یہودیوں کا مرکز کبھی نہیں رہا‘عیسائی اور مسلمان بھی اسے انتہائی متبرک اور مقدس علاقہ سمجھتے ہیں۔ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے ۔یہی کہ کچھ عرب ممالک اپنے شہریوں کو بیت المقدس جانے کے ویزے جاری کر رہے ہیں۔کچھ دوسروں کے خیالات اوپر آپ نے دیکھ لیے ۔بدلے ہوئے عالمی منظر نامے میں پالیسی بدل کر اسرائیل کو دباؤ میں لایا جا سکتا ہے۔ قبلۂ اول کی طرف پہلا قدم تو اٹھے۔