گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے بنچ نمبر ایک میں سماعت کے دوران ظفر علی شاہ ایڈووکیٹ کو دیکھ کر مجھے1999ء والا مشہور ظفر علی شاہ کیس یاد آگیا۔ اس سے تین دن پہلے پنجاب کے سول ججز کے مقدمے میں میرے دلائل جاری تھے کہ موجودہ چیف جسٹس محترم انور ظہیر جمالی نے رولز میںغلطی کی بابت ریمارکس دیئے۔ عرض کیا ‘کچھ غلطیاں نا قابلِ معافی ہوں یا نہ ہوں، نا قابل تلافی ہوتی ہیں۔ پھر عرض کیا ''فیئرکومینٹ‘‘ کی رُو سے کہوںگا، اس عدالت کی طرف سے پی سی او کے نام پر 120جج حضرات کو گھر بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا۔ فاضل فل بنچ نے مسکراتے چہروں کے ساتھ اسے تاریخی غلطیوں میں شمارکیا۔ اسی شام لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شبر رضا رضوی اپنی تصنیف لے کر میرے دفتر تشریف لائے، عنوان ہے: The judgment 2009۔
اسے حسن ِاتفاق کہہ لیجئے، یہ اکتوبر کا مہینہ ہے۔ جب آپ وکالت نامہ پڑھ رہے ہوں گے 12اکتوبر کا دن ہو گا، لہٰذا 12 اکتوبر 1999ء کے واقعات یاد کرنے کا موقع بھی۔ اوپر جو آپ پڑھ چکے وہ بھی حسن اتفاق سے12اکتوبر1999ء سے ہی متعلق ہے۔ تیسرا حسن اتفاق یہ کہ 12اکتوبر1999ء کے متاثرین اورکچھ شریک جرم یعنی ہمراہی ملزم تیسری بار اقتدار پر قابض ہیں۔ چوتھا حسن اتفاق اس سے بھی دلچسپ ہے۔ انہی لوگوں کا کہنا ہے 12اکتوبر کے دن کوئی جرم نہیں ہوا اور اگر کوئی مجرم تھا بھی تو اسے PLD 2000 سپریم کورٹ صفحہ 869 پر درج فیصلے کے تحت آئینی تحفظ مل چکا ہے۔ لہٰذا اسے گیا گزرا واقعہ تصور کیا جائے، یعنی PAST AND CLOSED TRANSACTION۔ اصل سوال یہ ہے کیا 12اکتوبر 1999ء کو کچھ نہیں ہوا۔ دوسرا سوال یہ بھی کہ اگر 12اکتوبر 1999ء کو وزیراعظم ہاؤس میں لیڈروں کی پٹائی ہوئی، ان کے ہاتھ پیچھے باندھ کر انہیں کراچی پہنچایا گیا،کچھ لیڈروں کے ساتھ سینسر شدہ اور ناقابل اشاعت بد سلوکی ہوئی، پارلیمینٹ ٹوٹی، عدلیہ ایل ایف او پر حلف اٹھا کر واپس آئی۔کچھ باغیرت جج حضرات گھر چلے گئے، کچھ نے لوگوں کے پاؤں پکڑ کر نوکری حاصل کی توکیا یہ سب اچھا کی رپورٹ ہے؟ اگر نہیں تو 12 اکتوبر کا بڑا ملزم کون ہے؟
برادرم جسٹس شبر رضوی کی کتاب کے صفحہ 155پر ان سوالات کے جواب میں ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہے، جہاں سابق چیف جسٹس کے دستخط شدہ فیصلے کو درج کیا گیا۔ فیصلے کا صفحہ 1215کہتا ہے''اعلیٰ عدلیہ کا فرض ہے وہ ان حقوق کا احترام کرے، P.C.O NO.1 of 1999 کے مطابق جن کی نفی ہوئی۔ یہ مقصد صرف P.C.O کے تحت حلف اٹھا کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے P.C.O پر حلف اٹھا کر عدالتوں کو بند نہ ہونے دیا جائے۔ ملک میں انارکی، ابہام اور پرامن زندگی کو بچانے کے لیےP.C.O پر حلف اٹھانا ضروری ہے۔ عدلیہ کی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ جج نوکریاں چھوڑ کر عدالتیں بند کرواتے پھریں۔ اسی لیے اعلیٰ عدلیہ عدالتی آزادی کی خاطر جھگڑے والے معاملات حل کرتی ہے۔ یہ فیصلہ انگریزی میں ہے۔ متعلقہ پیرا لفظ بہ لفظ کتاب میں یوں درج ہے:
"A duty is cast upon the superior judiciary to offer some recompense for those rights which were purportedly violated in view of the promulgation of P.C.O No .1 of 1999.This could be achieved only by taking the Oath and not by declining to do so and thereby becoming a party to the closure of the courts,which would not have solved any problem whatsoever but would have resulted in chaos,anarchy and disruption of peaceful life, independence of judiciary does not mean that judges should quit their jobs and become instrumental in the closure of the courts.indeed,the latter course would have been the most detestable matters, of whatever magnitude they may be , should be decided/resolved by the judges of the superior Courts according to their conscience.
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی یاد رکھیں کہ اس فیصلے پر دستخط کرنے والے سابق چیف جسٹس چوہدری کے سگے کزن، ایک ہی داد کی اولاد 'رانا‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ موصوف نے ظفر علی شاہ کیس پر مٹی ڈالنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ بارکیس میں اپنا مؤقف بدل دیا۔ اس کا اضافی ثبوت جسٹس شبر کی کتاب میں صفحہ 156پر ہے۔ یہ حیران کن اور دلچسپ جوڈیشل ثبوت ملاحظہ کریں:
This court, while performing its role as " the beneficial expression of a laudable political realism" ,had three options open to it in relation to the situation arising out of the military take -over on Twelfth day of October , 1999: firstly it could tender resignation en bloc , which most certainly could be equated with sanctifying (a) chaos/ anarchy and (b) denial of access to justice to every citizen of Pakistan whatever he may be :secondly , a complete surrender to the present regime by dismissing these petitions for lack of jurisdiction in view of the purported ouster of its jurisdiction under P.C.O No 1 and Thirdly , acceptance of the situation as it is, in an attempt to save what "institutional values remained to be saved.This court ,after conscious deliberations and in an endeavour to defend and preserve the national independence ,the security and stability of pakistan ,sovereignty and honour of the country and to safeguard the interest of the community as a whole ,decided to maintain and uphold the independence of judiciary ,which in its turn ,would protect the state fabric and gurantee human rights/ Fundamental Rights.It took the Oath under P.C.O No .1 of the 1999 so as to secure the enforcement of law,
ترجمہ: '' یہ عدالت زمینی سیاسی حقیقت کے تحت اپناکردار ادا کرتے ہوئے سمجھتی ہے کہ 12 اکتوبر1999ئکے فوجی ٹیک اوور میں سے تین راستے نکلتے ہیں۔
پہلا، (a) عدلیہ اجتماعی استعفے دے جو انارکی اور ابہام پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
(b) یوں پاکستان کے ہر شہری پر انصاف تک رسائی کا دروازہ بند ہو گا۔
دوسرا، اگر یہ درخواستیں اختیار ِسماعت کی بنیاد پر خارج ہوں تو یہ P.C.O.NO.1 کے حق میں جائے گا۔ لہذا اس عدالت نے سوچے سمجھے مؤقف کے تحت قومی آزادی کے تحفظ، پاکستان کے دفاع اور ملک کی عزت کو مد نظر رکھ کر عوام کے تحفظ کا فیصلہ کیا۔ قانون کی بالادستی کی خاطر ہم نےP.C.O.NO.1 of 1999کے تحت حلف لے لیا‘‘۔
آخری بات سن لیں، بڑے مجرم کو تحفظ دینے والے اور اسے بچانے والے بھی بڑے مجرم ہیں۔
بقولِ شاعر: شریکِ جرم نہ ہوتے۔۔۔تو۔۔۔ مخبری کرتے!