"SBA" (space) message & send to 7575

اِن…صاف

آج وکالت نامے کا ٹائٹل تکسیر ِ لفظی کی عام سی مثال ہے۔بالکل دیسی جیسے روکو مت...جانے دو۔یا پھر روکو...مت جانے دو۔عام زبان میں اسے الفاظ کا توڑ پھوڑ کر کے استعمال کرنا کہا جاتا ہے۔اور الفاظ کے ٹوٹنے سے ان کا مفہوم تبدیل یا ریورس بھی ہو تا ہے۔ایک نکتے کے ذریعے محرم سے مجرم بننے والا شعر تو آپ کا سنا سنایا ہے۔آج ایک ایسی ہی بحث میں نے بھی سنی۔سپریم کورٹ کے عدالتی کمرے سے نکل کر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدارتی کمرے میں پہنچا تو برادرم علی ظفر ایڈووکیٹ کی کامیابی پر مٹھائی بٹ رہی تھی۔میرے دوست سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر،میرے گرائیں سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سردار اسلم،سابق جج اور وکیل لیڈر احسن بھون،میرے چیمبر فیلو اور بلوچستان کے سابق ایڈووکیٹ صلاح الدین مینگل،حافظ ثناء اللہ زاہد اور بہت سے وکلاء کمرے میں موجود تھے۔ہر طرح سے انصاف کا تذکرہ ہوتا رہا،جس کے ذریعے '' اِن‘‘ علیحدہ ہو گئی اور''صاف‘‘کہیں اورجا گرا۔اگر آپ کچہری چڑھیں یا عدالت جائیں تو آپ کی طبیعت صاف ہو جائے گی۔کیس لٹک گیا تو سمجھیں آپ کی جیب بھی صاف ہوگئی۔ نظامِ عدل کی یہ ٹوٹ پھوٹ ہر جگہ ہو رہی ہے،لہٰذا وکیلوں میں سے کچھ لوگ عدلیہ کے محافظ کہلاتے ہیںاور کچھ ایسے جنہیں قابو رکھنے کے لیے جنرل مشرف کے دور کا بنایا ہوا توہینِ عدالت کا عارضی آرڈیننس استعمال ہوتا ہے۔اسی لیے سپریم کورٹ بار کے نئے صدر برادرم علی ظفر کو کہنا پڑا کہ عدلیہ حد سے تجاوز کرے گی تواسے روکیں گے۔ورنہ اس سے پہلے یہ نعرہ ہمیشہ جج حضرات کے روسٹرم سے بلند ہوتا رہا کہ جو ادارہ بھی حدسے تجاوز کرے گا عدلیہ اسے روکے گی،اور اس کے ساتھ ساتھ جب بھی روکنے کا مرحلہ آیا عدلیہ کی بھاری اکثریت نے ایل ایف او پر حلف اٹھایا۔ایل ایف او جنرل مشرف کی تخلیق تھا۔اس سے پہلے ضیاء الحق کا بغل بچہ۔ضیاء دور کے بغل بچوں نے مشرف کے ایل ایف او کو ''اِن‘‘ سمجھا جبکہ اس کی کابینہ کو''صاف‘‘ بلکہ ستھری اور شفاف بھی،اسی لیے سیاسی جج کو چھٹی کرانے پر مشرف کا ٹرائل ہو رہا ہے،جبکہ عدلیہ کودینے والی چھٹی کا خالق صاف شفاف طریقے سے مشرف کی کابینہ سے نکلا اور سیاسی شیروں کے بھاڑے میں گھس گیا۔نظامِ انصاف کے صاف صاف کارناموں کی فہرست طویل ہے۔مثلاََ قائدِ ملت شہید خان لیاقت علی خان کا افغانی قاتل سید اکبر سزا ہونے سے صاف بچ گیا۔اسی طرح شہید قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قاتل پینشن لیتے لیتے مر گئے لیکن پاکستان کے اس عظیم محسن کا مقدمہ فیصلہ ہونے سے صاف محفوظ پڑا ہے۔یہ تو تھی ہمارے نظامِ قانون و انصاف کی گزشتہ تاریخ ۔کچھ نئے واقعات بھی قابلِ توجہ ہیں۔
مثال کے طور پر پنجاب پولیس میں حکمرانوں کے پسندیدہ سربراہان نے حال ہی میں ایک بیان کے ذریعے شہید ذوالفقارعلی بھٹو کے مقدمے میں مولوی مشتاق کے فیصلے کوکالعدم قرار دیا۔موصوف ایک ایسے صاحبِ صفت کے دفاع میں بولے جس کو فیصل آباد کے بابا شیرو نے آئوٹ لاء منسٹر کا ٹائٹل دے رکھا ہے۔کہنے لگے قتل کے جرم میں گرفتار ہمراہی ملزم کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ۔وہ شاید بھول گئے کہ اسی صوبے میں اسی شہرِ لاہور میں دو ملزموں کو سائیکل چوری ٹائپ مقدمات میں پھنسا کر زیرِ حراست لاہور لایا گیا۔ایک بڑی مذہبی جماعت کے سربراہ نے انہیں قرآن شریف پر تحریری یقین دہانی کرائی کہ آپ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بیان دیں اور اس کے بعد گھر جائیں۔یہ بدقسمت فیصلہ ابھی تک فیلڈ میں موجود ہے۔ اس طرزِ قانون و انصاف سے ایک ہی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔جس کے دورُخ ہیں۔
پہلا رُخ ہے اِن ، جس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو اندر نہیں جانا، چاہے چھت گِر جائے۔اور کچھ ایسے ہیں جو بے گناہ ہوئے یا معصوم الدم تب بھی صفحۂ ہستی سے صاف کر دیئے جائیں گے۔اس طرزِ عدل کی ایک مثال وہ ہے جو ہر روز کہیں نہ کہیں ضرور دی جاتی ہے۔اس دن سینکڑوں کی تعداد موجو د تھی جب ایک عادل نے اپنے بیٹے کی بے گناہی کے لیے قرآن شریف اٹھا دیا۔ایسی بے گناہی جو ابھی تک کسی عدالت میں ثابت نہیں ہو سکی ۔شاید اسی لیے پاکستان میںعام آدمی سمجھتا ہے کہ انصاف کے مندر،اقتدار کے تخت،ملک کے وسائل،پارلیمنٹ،ادارے ،بجٹ اور ترقی کے عمل میں ا ن کا کوئی حصہ نہیں ہے۔جب سے میڈیا میں الیکٹرونک ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کا اضافہ ہوا ہے،ہر شخص کو تبصرہ اور تجزیہ کرنے کا حق حاصل ہو گیاہے۔ایڈیٹوریل پالیسی اور سرکاری ایڈوائس روز بروز پسِ پشت جا رہے ہیں۔اس ماحول میں پاکستان کی وزارت ِ قانون و انصاف وزیراعظم کے دوروں کے اخراجات چھپانے کے لیے قانون کے پیچھے چھپ رہی ہے۔سیدھا سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف صاحب کے دورے شاہانہ سیر سپاٹا نہیں تو ان کے اخراجات کھول کر قوم کے سامنے رکھے جائیں ۔ویسے بھی آج نہیں تو کل کوئی نہ کوئی جانثار رپورٹر انہیں سامنے لے آئے گا۔تب ڈبل شرمندگی سے بچنے کے لیے اعدادو شمار کھول کر بیان کر دیں۔
یہ آفاقی سچائی ہے کہ کوئی معاشرہ عدل کے بغیر قائم نہیں ر ہ سکتا۔اسی لیے محسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفیﷺ نے ارشاد فرمایا:
''تم سے پہلے امتوں کی تباہی کا سبب یہی تھا کہ کمزور پر قانون پوری طاقت سے لاگو ہوتا تھا اور طاقت ور کو دیکھ کر قانون منہ پھیر لیتا تھا‘‘
آئیے دل کے دروازے،ضمیر کی کھڑکیاں اور اندر کی آنکھ کھول کر دیکھیں، کیا1ہزار4سو38سال بعد بھی ہم عام آدمی کو انصاف دینے کے لیے تیار ہیں۔کیا قانون آج بھی طاقت ور کے گھر کی لونڈی نہیںہے؟ ۔کیا ہمارا نظامِ عدل خوف اور تعصب سے آزاد اور بالاتر ہے؟۔میں چار عشروں سے ہر روز کٹہرا دیکھتا ہوںاور عدل کا ماتم بھی۔اپنا فیصلہ آپ خود کر لیں کیا قانون کی بالا دستی اور انصاف تک رسائی کے بغیر غریب کے آنسو خشک ہو سکتے ہیں؟۔کوئی اور کہے نہ کہے مجھے کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ آنسو نمکین نہیں بلکہ روز بروز رنگین ہوتے جا رہے ہیں۔
عوام کسی آپشن کی تلاش میں ہیں۔یہ عدل و انصاف کا موجودہ تصور غریبوں کی چوائس نہیں، مجبوری ہے۔؎
ہم کو شاہوں سے عدالت کی توقع تو نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں