آج کی سب سے بڑی بلکہ المناک حقیقت یہ ہے کہ اگر عراقی بچہ محفوظ نہیں‘ تو فرانسیسی بچے بھی آنسو بہانے پر مجبور ہیں۔جن طاقتوں نے دنیا کو عالمی گاؤں (Global Village) کا نام دے کر اسے استعمار کی کالونی بنایا‘ وہ ایک بنیادی حقیقت بھول بیٹھے ہیں‘ یہ کہ اس عالمی گاؤں کے ایک سِرے پر اگر آگ لگائی جائے گی‘ تو اس کے شعلے عالمی ہواؤں کی زد میں ہوں گے۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ‘ لیکن یہ شعلے اور ان کی تپش عالمی گاؤں کے ہر فرد تک ضرور پہنچے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں ریاست کے منیجر اور اقتدار کے مالکان کا کردار کیا ہے؟
دنیا کے دو ایٹمی ملکوں‘ پاکستان اور فرانس میں رونما ہونے والے واقعات کو ''کیس سٹڈی‘‘ بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں پشاور سکول کے معصوم بچوں کا واقعہ اور فرانس میں پیرس حملوں کے بعد‘ عالمی کیس سٹڈی کے ان دو ملکوں میں تقابل بہت آسان ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں مالکانِ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان بنایا‘ اور اس کی تعریفیں کیں۔ اس قو می ایکشن پلان کے تین بڑے فریق تھے: پہلا‘ عساکر پاکستان‘ دوسرا‘ اقتدار کے ایوان اور تیسرا‘ قومی پارلیمان۔ اس ٹرائیکا کا اوّلین عنصر تو کئی سالوں سے ایکشن میں ہے۔ دوسرے دو‘ نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت پر تقریریں کرنے کے بعد دو مختلف سمتوں میں چل پڑے۔ حکومتی اشرافیہ 30 ارب روپے سے بڑی رقم کے ٹھیکے، میگا پروجیکٹس، میگا کمیشن اور میگا کِک بیک کی نہ ختم ہونے والی میراتھن دوڑ میں جُت گئی‘ جبکہ پارلیمان گرینڈ مک مکا کے میٹھے چاول سمیٹنے میں مشغول ہے۔
اس تناظر میں مسلح افواج کی کور کمانڈرز کانفرنس نے نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد پورے کرنے کی طرف سرکار کی توجہ دلائی‘ جبکہ اس سے پہلے ہی پوری قوم نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے حکومت کی غیر سنجیدگی پر تین حرف بھیج رہی تھی۔ اگلے روز میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب کی سربراہی میں قائم فل بنچ کے روبرو بنوں ضلع کونسل اور تحصیل کونسل انتخابی تنازع میں پیش ہوا۔ اس روز چیف جسٹس صاحب ایک مرتبہ پھر دل کے پھپھولے اور قوم کے سینے کے داغ سامنے لائے۔ کہنے لگے: ''پاکستان کو مانگے تانگے اور خیرات کے پیسوں پر کیوں چلایا جا رہا ہے؟ عدلیہ قوم کو انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے گی!‘‘۔ یہی باتیں جب کور کمانڈرز کانفرنس پریس ریلیز کے ذریعے سامنے آئیں تو نازک اندام جمہوریت فوراً خطرے میں پڑگئی۔
گرینڈ مک مکا نامی دکان کے سارے پرچون فروش چلائے کہ اب بات کھل چکی ہے۔ چیخ پکار کرنے والے اس گرینڈ جرگے کے پروموٹر اور ہدایت کار کہیں اور نہیں وزیر اعظم ہاؤس کے تہ خانے میں قائم سیکشن کے اندر بیٹھے ہوئے لوگ تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ نظام کسی نیشنل ایکشن میں شریک ہو سکتا ہے‘ نہ ہی اسے ایسے کاموں سے کوئی دلچسپی ہے۔ اس کی اوّل و آخر منزل اور مقصود، ذاتی مفادات اور ذاتی کاروبار تک محدود ہے۔ اس کیس سٹڈی کا شریکِ ثانی فرانس بدامنی کا شکار ہوا۔ صرف ایک رات کی کارروائی ثابت کرتی ہے کہ اگر کوئی نیشنل ایکشن موجود ہو تو پھر پلان پر ایکشن کا ذمہ دار کون ہے! اور ایکشن میں سرکار کو کیسے شریک ہونا چاہیے! حوالے کے لیے ان چند اقدامات کو دیکھ لیتے ہیں‘ جو پیرس فائرنگ کے بعد فرانسیسی حکمرانوں نے کیے۔
پہلا اقدام یہ کیا گیا کہ ایک رات میں 25 قوانین کے ریگولیشن‘ جن کا تعلق مختلف شہری حقوق کے ساتھ تھا‘ کو ایمرجنسی اختیارات کے تحت بیک جنبشِ قلم معطل کر دیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے بنیادی حقوق‘ جو تقریباً 500 سالہ لڑائی کے بعد فرانس کے عوام نے حاصل کیے تھے‘ کے خاتمے پر فرینچ ٹریڈ یونین کے علاوہ کسی سیاسی جماعت نے ایک لفظ تک نہیں بولا۔
دوسرا اقدام یہ کیا گیا کہ 24 گھنٹے کے اندر اندر حملہ آور ٹریس ہوئے‘ اور مارے بھی گئے۔ اب سہولت کاروں کی باری ہے۔ فرانسیسی قانون کے تحت سہولت کاروں کے لیے فرانس کی پولیس نے اپنی مہم کو Hunt یعنی شکار کا نام دے رکھا ہے۔ پیرس حملوں کے بعد 30 ہزار پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں نے لگاتار ایکشن جاری رکھا ہوا ہے‘ لیکن اب تک ایک پولیس والا بھی کسی حملے میں جان سے نہیں گیا۔
تیسرا اقدام یہ کیا گیا کہ فرانسیسی حکومت نے اس ایک حملے کو فرانس کے خلاف اعلانِ جنگ کہہ کر باقی سارے کام پسِ پشت ڈال دیے۔ نہ جنگلہ، نہ سریا، نہ میگا پروجیکٹس، نہ کِک بیکس‘ صرف اور صرف بدامنی کا رول بیک۔
اب آئیے ذرا تقابلی جائزے کی طرف۔ اگر ان دونوں مختصر سٹڈیز کو سامنے رکھیں‘ تو فرانس میں آپ کو ہر طرف نیشنل ایکشن نظر آئے گا۔ ایسا ایکشن جو کسی بھی ملک کے زندہ رہنے کے لیے ملک کے شہریوں کو آکسیجن ٹینٹ فراہم کرتا ہے‘ اور اقتدار میں بیٹھے ہوئے ریاست کے منیجروں کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ نیشنل سکیورٹی اور قومی مقاصد کے ساتھ اپنے اخلاص اورکمٹمنٹ کا مظاہرہ کریں‘ اور اگر آپ پاکستان کی ایٹمی ریاست کے موجودہ ذمہ داروں کا پلان دیکھیں‘ تو ہر طرف آپ کو اشتہار ہی اشتہار نظر آئیں گے۔ کہیں بدانتظامی کی وضاحت کا اشتہار۔ کہیں ظالمانہ ٹیکسوں کے جواز کا اشتہار۔ کہیں قومی خزانے سے بننے والی سڑک اور نالی پر موقع پرستوں کی تصویریں اور اشتہار۔ یوں لگتا ہے یہ پاک سرزمین دو خانوں میں بَٹ کر رہ گئی ہے‘ پلاٹستان سے اشتہارستان تک۔
نیشنل ایکشن پلان میں سے نیشنل ایکشن فوج کی ذمہ داری ہے‘ جبکہ حکمرانوں کا اپنا پلان ہے۔ اپنا بزنس‘ اپنی دکانداری‘ اور 500 نسلوں کے لیے سونے، چاندی، ہیرے، موتیوں کے ڈھیر‘ جن کو عرفِ عام میں ریال، ڈالر، یورو اور پاؤنڈ کہا جاتا ہے۔ آپ حکمرانوں کی تقاریر سنیں تو یوں لگتا ہے جیسے ابھی کچی آبادیوں میں من و سلویٰ اترا ہو‘ اور تقریر کرنے کے بعد لیڈر سیدھا بیوہ پینشنر استانی کے گھر جائے گا‘ اور ان کے کپڑے اور برتن مانجھے گا۔ پارلیمانی نظام بنارسی ٹھگوں کے ہتھے چڑھ چکا‘ جس میں عوام کے لیے شعبدہ بازی، اشتہار بازی اور نعرے بازی کی گنجائش باقی بچی ہے۔ ہاں البتہ اس طرزِ جمہوریت کو موقع ملا تو پاکستان کے عوام کے لیے بہت جلد اجتماعی خود کشی کے مراکز بنائے گی۔ یہی اس نیشنل طرزِ حکومت کا ایکشن بھی ہے اور پلان بھی۔