پاکستانی وزیراعظم ،سرکار،کابینہ، انڈین لابی اور وزیر ذاتی دفاع نے پٹھان کوٹ کا مقدمہ خوب لڑا۔یوں لگتا تھا پنجاب پولیس کے تھانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایس ایچ او کو'' وڈے‘‘آئی جی نے ملزم پکڑنے کا حکم دے دیا۔ بھارت میں پٹھان کوٹ واقعہ کی ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے ہی مودی سرکار نے حملے کا رخ پاکستان کی طرف موڑ ڈالا۔ہماری سرکار جو غیروں کے سامنے تابعدار اور اپنوں پر یلغار کی عادی ہے، اس نے حاضر جناب کا نعرہ بلند کیا۔بھارت نے جو فون نمبر ہمیں دیا اس ایک ٹیلیفون نمبر پر رابطہ کرنے والے سات افراد اور ان سے رابطہ کرنے والے درجنوں دوسرے بھی دھر لیے۔خیالی دفتر سیل ہونا شروع ہوئے اور ہماری ہوائی کار کردگی کی وجہ سے بہاولپور کا ایک مدرسہ انڈین میڈیا ٹرائل کے لیے ہم نے'' خود آفر‘‘کر دیا۔اس خدمت گزاری کے جواب میں مودی سرکار نے مذاکرات بند کرنے کا اعلان کیا ۔ ساتھ ہی بھارتی وزیر دفاع منوہر پریکارکے ذریعے جلد پاکستان کو مزہ چکھانے کا''کولڈ‘‘ اعلان ِ جنگ بھی کر دیا۔
بھارت کی اس کھلی بد تمیزی کے جواب میں ذاتی دفاع کا عارضی پاکستانی وزیر بولامیں چھٹی پر ہوں۔باقی کابینہ کو تو جیسے سانپ عرف ناگ دیوتاسونگھ گیا۔خاص طور پر اس مشیر نمبر 2کو جس نے چندہفتے پہلے پاکستان میں بھارتی جارحیت کے ثبوتو ں پر مبنی ''ڈوزئیر‘‘ کولہرایا تھا۔یہ تھا مودی سرکار ، اس کے دوستوں اور سرپرستوں کا تحریر کردہ ڈرامہ ایکٹ ''نمبر ون‘‘۔
ڈرامے کا ایکٹ نمبر2اب شروع ہوا ہے۔بھارتی وزیر دفاع کی دھمکی کے اگلے روز نیا سال پاکستان میں غارت گری کی نئی لہر لے کر داخل ہوا۔کوئٹہ ، فاٹا اور پھر چارسدہ سب کے سامنے ہے ۔اے پی ایس پشاور کی طرح چارسدہ کے بے گناہ علم کے پیاسوں کی شہادت رنگ لائی اور لائیو کال میں مشغول موبائل فونCRIME SCENE یعنی جائے واردات پر پکڑے گئے۔چنانچہ ابتدائی تحقیقات کے بعدچار سدہ واردات کی واقعاتی ، عملی، براہ راست اور لا سلکی شہادت و گواہی کی ساری انگلیاں جلال آباد میں ہندوستانی قو نصل خانہ کی جانب اٹھ گئیں۔پاکستان میں ہندوستان کا مقدمہ لڑنے والے24گھنٹے تک بد ترین دہشت کے منظر نامے سے ہٹ کر غوطہ لگا گئے۔ایک روزہ مراقبے کے نتیجے میں وزارتِ امورِ غیر، عرف وزارتِ خارجہ نے کہا تفتیش کے بعد ردِ عمل دیں گے۔کیا دنیا کے کسی اور ملک میں اپنے تحقیقی نظام اور تفتیشی اداروں پر وزارتِ خارجہ ''ردِ عمل‘‘ دیتی ہے یا اسے سپورٹ دیتی ہے؟یہ وہی وزارتِ خارجہ ہے جس نے کشمیر کاز سے پاکستان سے اوفا میں بے وفائی کی۔فرانس کے مذاکرات قوم سے چھپائے۔وزیراعظم اور مودی کی کٹھمنڈو ملاقات پر سیاہ پردہ ڈالا۔لاہور میں ڈیڑھ سو بھارتیوں کو بغیر ویزے کے پاک سرزمین پر دندنانے کی اجازت دی۔بھارت کی ''را‘‘ کا چیف اور بھارتی وزیراعظم رائے ونڈ کے اندر جبکہ ہمارے متعلقہ لوگ باہر تھے(میرے پاس اور بھی تفصیلات ہیں لیکن اس ماں دھرتی کی بے عزتی کو اشتہار نہیں بنانا چاہتا، اس لیے اشارہ ہی کافی سمجھیں۔)
اب آئیے دوسرے پہلو کی جانب اور وہ یہ کہ وزارتِ خارجہ پاکستان کا بین الاقوامی ترجمان ہے۔اس وزارت کا حال موغادیشو جیسا ہے،جہاں شہر کے مختلف علاقوں میں مختلف طاقتور گروپ قابض ہیں۔تین سال سے اس بے چاری بیوہ کو اجتماعی شادیوں کے موسم میں بھی دولہا(وزیر ِ خارجہ) نہیں مل پایا۔کئی وزارتوں کی ٹوپیوں والے وزیراعظم اس کے اصل سرتاج جبکہ2ریٹائرڈ بابے اس کے مشیر اورمحض ایک پروٹوکول افسر والی ڈیوٹی پر مامور اس کا سیکرٹری۔اس وزارت نے کبھی بھارت،افغانستان یا امریکہ کے بعض حلقوں کی طرف سے مسلح افواج یا دفاعِ پاکستان کے ذمہ داروں اورپاکستان کے قومی اثاثوں پر اٹھنے والے بے جا سوالات کا جواب نہیں دیا۔بھارت کا وزیر داخلہ ہو یا وزیر دفاع اس کی ہرزہ سرائی پر بھی یہ وزارت مستقل گونگی ہے۔پٹھان کوٹ کے ڈرامے کے ڈراپ سین سے پہلے ہی ہمارا جو میڈیا ٹرائل شروع ہوا وہ بھی اس کی خاموشی نہ توڑ سکا۔لیکن اگلے روز جب جنرل راحیل شریف نے افغانستان کے مجبور صدر اشرف غنی اور امریکی فوج کے کمانڈرسے چارسدہ واردات پر بات کی تواس خبر پر فوری ''ردِ عمل‘‘دیا،جس نے ہماری خارجہ پالیسی اور خارجہ کاروبار کرنے والی وزارت پر بنیادی سوالات اٹھا دیے۔ان سوالات کی طرف جانے سے پہلے اتنا ضرور ذہن میں رکھیں کہ ردِ عمل کا لفظ کسی ملک کی وزارتِ خارجہ اپنے اداروں یا ذمہ داروں کے حوالے سے استعمال نہیں کرتی،بلکہ ردِ عمل مخالفانہ عمل یا بیان کا ہوتا ہے۔یہاں ہمارا آرمی چیف ہے جس کی جانب سے افغانستان کی لیڈر شپ کو بتایا گیا کہ چارسدہ سانحے کی پلاننگ، فنانسگ ،سہولت کاری اور بار برداری سب کچھ افغانستان میں ہوا۔اس خبر کو آئی ایس پی آر نے جاری کیا۔وزارتِ خارجہ قوم کو بتائے کہ ''را‘‘ چیف ،بھارتی آرمی چیف ،بی ایس ایف سمیت آخری مرتبہ اس نے کس کے بیان پر ردِ عمل جاری کیا تھااور ساتھ یہ بھی کہ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان پر حاشیہ آرائی کس زرخیز ذہن کی پیدوار ہے تاکہ قوم جان سکے ''سہولت کار‘‘ کی صف میں کون کون ایسا ہے جو ایوانِ اقتدار کی آستین میں گھسا ہوا ہے۔
پوٹھوہار ی محاورے کے مطابق زندگی کو موج میلہ سمجھنے والے ایک کردار کا نام میاں موج ہے۔ہمارے میاں موج طرزِ حکومت نے دو کمال اور بھی کیے۔پہلا:ملک آنسوؤں ،بارود کی بو اور خون میں ڈوبا رہا، نواز شریف نیدر لینڈکی ملکہ میکسیماسے فوٹو سیشن میں مصروف تھے۔دوسرا: ''وزارتِ امورِ غیر‘‘کا ردِ عمل افغانستان کے کام آگیا؛چنانچہ بغیر تحقیق اشرف غنی بولا،چارسدہ حملہ میں افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں ہوئی۔ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ ہم پاکستانی شواہد ماننے سے انکار کرتے ہیں۔جس ملک کی اپنی وزارتِ خارجہ ان شواہد کو ماننے سے انکاری تھی اسے اور کون مانے گا؟وزارتِ خارجہ کے ردِ عمل والے بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا مختلف سطحوں پر ہم افغانستان سے رابطہ میں ہیں۔قوم کو یقین رکھنا چاہیے افغانستان کا انکار انہی ''ٹریک ٹو‘‘رابطوں کا نتیجہ ہے۔ایران اور شام جیسے ملک ڈنکے کی چوٹ پر سفارتکاری کرتے ہیں۔ہماری 2 نمبر خارجہ پالیسی ''2نمبر ٹریک‘‘ والی ڈپلومیسی پر زندہ ہے۔کیا اب بھی کسی کو شک ہے، ہمارے دفاعی اور سیاسی ادارے ایک صفحے پر نہیںہیں؟
وطنِ عزیز میں بد امنی ،اسلحہ ،ہیروئن مغربی بارڈر سے اسمگل ہوتا ہے۔قوم سمجھتی ہے پاکستان کے پاس جرائم کی نرسری کو بند کرنے کے تین راستے ہیں:
اول:چمن تا طورخم ،لیزر بردار دیوار بنائی جائے جس کی تعمیر کا کام کل سے شروع ہو۔
دوم:کوئٹہ اور پشاور روزانہ پہنچنے والے 30 سے50ہزار افغانیوں کا راستہ روکا جائے۔
سوم:ملک بھر میں پھیلے افغان مہاجرین کو فوراََ اشرف غنی کی جھولی میں ڈالا جائے، اورنج ٹرین کے بجٹ کا صرف چوتھا حصہ یہاں لگائیں،پاکستان محفوظ ہو جائے گا۔
مگر فوج کہاں...میاں موج کہاں...؟