جنابِ والا!آپ غلط سمجھے۔
آج کی تین کہانیوں میں چیف خان ایوب،چیف چوہدری ضیاء اور چیف سید مشرف کی کہانیاں شامل نہیں ہیں۔نہ ہی چیف آغایحییٰ سے لے کر چیف ضیاء بٹ کی داستانیں ۔آج کا وکالت نامہ،جدید پاکستان کے تین اہم ترین آئینی اداروں کے تازہ ترین تین عددچیف کا (Curriculum Vitae) سمجھ لیں۔جسے عرفِ عام میں اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تعارف بھی کہہ سکتے ہیں۔آئیے سب سے پرانے چیف سے شروع کرتے ہیں۔موصوف آج کل پاکستان کی ایگز یکٹو اتھارٹی یا راج نیتی کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔جناب نواز شریف۔ان کی داستانِ سیاست پوٹھوہار کے ایک کرنیل سے شروع ہوئی،جو بریگیڈیئر بن کر ریٹائر ہوئے،پھر جنرل جیلانی کے دروازے تک گئی؛چنانچہ نواز شریف ضیاء دور میں پنجاب کے وزیرِ خزانہ کے عہدے تک جا پہنچے۔ضیاء نے انہیں اپنی عمر لگ جانے کی سچی دعا دی،جو قبول ہوئی۔جبکہ شہید بینظیر بھٹو نے اس کے لیے ''ضیاء کی باقیات‘‘کا لفظ استعمال کیا۔
ضیاء دورِ آمریت میں نواز شریف کے بارے میں ان کے سیاسی مرشد نے کہا تھانواز شریف کا ''کِلہ‘‘ مضبوط ہے۔اسی مضبوط کِلے کی بنیاد پر وہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے ہوتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ کی ہیٹرک بنانے میں کامیاب ہوئے۔یہ الگ بات ہے ان کا ہر الیکشن متنازع ہی رہا۔اپوزیشن نے اسے ہمیشہ چوری ،سینہ زوری،چھینا جھپٹی اور دھاندلی والا مینڈیٹ کہا۔ہمارے ملک کے سیاسی چیف ایگزیکٹو نے اقتدار کی'' محل سَرا‘‘سے ''سرور پیلس‘‘ تک، 4عشرے اقتدار و اختیار کا مزہ چکھا۔اس سب کے باوجود ان کی حسرتوں میں آخری مغل تاجدار ِ دہلی بہادر شاہ ظفر کی حسرتوں کا عکس نظر آیا۔بہادر شاہ ظفر صاحبِ ذوق،صاحبِ علم اور صاحبِ مطالعہ بادشاہ تھے۔بلاشبہ صاحبِ درد بھی۔بہادر شاہ نے کہا ؎
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
یہ بھی عجب اتفاق ہے۔ اس ماہ حکومتی چیف ایگزیکٹو اورچیف آف آرمی سٹاف دونوں خود بولے، جبکہ عدل کے سابق سیاسی چیف جسٹس والی بلٹ پروف کی گونج میں وزیراعظم کی ایک''سمری‘‘بول پڑی۔سب سے پہلے حکومتی چیف ایگزیکٹو نے دل کے پھپھولے ان الفاظ میں میڈیا کے سامنے رکھے ''پانچ سال پَلک جھپکنے میں گزر جاتے ہیں۔یہ عرصہ بہت تھوڑا ہے‘‘
یہاں تاریخ سے چند مثالیں یاد آتی ہیں آپ بھی سن لیں۔فاتح القدس سیدنا عمر ابنِ خطاب ؓ کا عرصہ اقتدار تقریباًدس سال تھا۔پورے برصغیر کو جی ٹی روڈ،ڈاک ،پینے کا پانی فراہم کرنے والے شیر شاہ سوری کا عرصہ اقتدار چار سال۔پہلے منتخب آئینی وزیر اعظم قائدِ عوام کا عرصہ اقتدار ایک ٹرم۔جن کی ضرورت اورخواہش تین عشرے بھی پوری نہ کر سکیں،ایسے لوگ تاحیات اختیار مانگتے ہیں۔
اب آئیے عدل کے سیاسی چیف جسٹس کی طرف ۔یہ کہانی موجودہ وزیراعظم کو بھیجی گئی سمری نمبر 4192/SPM/2013 مورخہ21.1.2016سے شروع ہوئی۔جس میں نواز شریف نے تین آرڈر کیے۔جو اس سمری کے پہلے پہرے میں یوںدرج ہیں۔
پہلا آرڈر،
"The bullet proof vehicle of Cabinet Division has been allocated to Mr .Jistice Muhammad Iftikhar Chaudhry as a special dispensation for a period of 3 months from the date of his retirement".
(کیبنٹ ڈویژن کی بلٹ پروف گاڑی مسٹر جسٹس افتخار چوہدری کو خصوصی طور پر اس کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے لے کر 3ماہ کے لیے دی گئی)
دوسرا آرڈر،
"It is expected that during this period the retired justice would be able to make adequate arrangements through his own means"
( توقع ہے کہ اس عرصے میں ریٹائرڈ جج اپنے پَلّے سے مناسب بندوبست کر لے گا)۔
تیسرا آرڈر،
"The Prime Minister has agreed with secretary Cabinet and secretary Interior that ,under the rules ,the cost of POL/maintenance expenditure of the protected vehicle is not Liabitity of the Government and can be picked up by the user of the vehicle through personal arrangement.
(وزیراعظم کو سیکرٹری کابینہ اور سیکرٹری داخلہ سے اتفاق ہے کہ حکومتِ پاکستان کے رولز کے تحت پیٹرول اور مرمت کے اخراجات حکومت ادا نہیں کر سکتی اور یہ گاڑی استعمال کرنے والے کو ذاتی ذرائع سے ادا کرنے ہوں گے)
ان احکامات کی روشنی میں توقع تھی،وہ گاڑی تین مہینے میں واپس کرے گا۔یعنی 7جنوری تا اپریل 2014ء۔ تین ماہ بعد نہ گاڑی واپس ہوئی،نہ خود اپنی گاڑی کا بندوبست کیا۔نہ اپنی جیب سے پیٹرول ڈالا۔اگلا فقرہ احتساب کے اداروں کی توجہ چاہتا ہے۔وزارتِ پارلیمانی امور کے ڈپٹی سیکرٹری غلام سرورنے Law and Justice Divisionکے نام خط
مورخہ21-01-2016نمبریF.2(261)/2014-SOL-111
بھیجا۔خط کے ساتھ گوشوارے کے مطابق عوام نے اس گاڑی کے پٹرول وغیرہ کا خرچہ 40لاکھ13ہزار 4سو48روپے ادا کیے ۔جبکہ صرف مرمت پر33لاکھ75ہزار29روپے خرچ ہوئے۔اختیارات کا ناجائز استعمال اور کسے کہتے ہیں؟ وزیراعظم کے احکامات پر عمل نہیں ہوا۔معاملہ لٹکا کر قوم کی گاڑی قوم کے گارڈ اور قوم کا مال شیرِمادر سمجھنے والے کا راستہ سپریم کورٹ کے ایک حکم سے رک گیا۔قائم مقام چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے حکم جاری کیا:4فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کیس کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق کرے۔حنیف راہی کی پٹیشن سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے تک زیرِ التوا کر دی۔اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ۔تمہیں غافل رکھا مال کی کثرت نے۔یہاں تک کہ تم قبروں تک جا پہنچے۔ (سورۃ التکاثر۔آیات 1 تا 2)یاد رہے بھارت کے چیف جسٹس کی تنخواہ 1لاکھ روپے ہے۔ہمارے ہاں پینشن تقریباً8لاکھ ماہانہ۔نوکر ،چاکر،فون سپریم کورٹ سے ملنے والی گاڑی تحفہ۔
اب آئیے تیسرے چیف راحیل شریف کی طرف۔اس آرمی چیف کی قیادت میں کراچی سے خیبر تک امید بحال ہوئی۔شہروں کی روشنیاں اور قوم کا اعتماد بھی ۔خبر یہ ہے اقتدار کے ٹھیکیدار احسانات کا ''بوجھ‘‘ لادنے کے موڈ میںتھے۔مگر نشانِ حیدر کے وارث نے بوجھ والوں کے غبارے سے ہوا نکا ل دی۔تاریخ میں وہی سلامت رہتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل سکیں۔باقی کی داستان'' بچہ سقہ‘‘ سے شروع ہوتی ہے ''احمد شاہ رنگیلا‘‘ پر ختم ۔
3چیف کی3کہانیوں میں سے کون سا چیف کامران ہے اور کون کون بندۂ شکم۔سوشل میڈیا پر جدید تاریخ پڑھ لیں۔
اطلاعاً عرض ہے ۔29نومبرکو5لیفٹیننٹ جنرلز کی سنیارٹی یوں ہو گی۔جنرل مقصود احمد،جنرل زبیر محمود حیات،جنرل سید واجد حسین،جنرل نجیب اللہ خان اور جنرل اشفاق ندیم ۔ان میںسے 4کی تاریخ ریٹائرمنٹ 13جنوری2017ء ہے۔جبکہ جنرل اشفاق ندیم 8اگست 2017ء کو ریٹائرہوں گے۔
3چیف اور 3کہانیوں کا کلائمیکس دیکھ لیں۔ سیاسی چیف کے خلاف بد عنوانی کے مقدمے پر ابھی تک مستقل حکم امتناعی جاری ہے۔جوڈیشل چیف کو پہلی گاڑی 1991ء ماڈل دی گئی۔موصوف کو پسند نہ آئی۔انصاف کا تقاضا پورا کرنے کے لیے1991ء بلٹ پروف ہتھیا لی۔تیسرے چیف نے عمر بھر کی نوکری کا اثاثہ ،اپنے 2پلاٹ، شہیدانِ وطن کے لواحقین کو ہدیہ کر دیئے۔
قیس سا پھر نہ جَنا، کوئی بنو عازم میں
فخر ہوتا ہے قبیلے کا، سدا ایک ہی شخص