"SBA" (space) message & send to 7575

بِک گئی…بِکنے کی شے تھی

اگلی صبح افغانستان کے صدر استاد برہان الدین ربّانی، انجینئر گل بدین حکمت یار سے افغانستان کے وزیراعظم کے عہدے کا حلف لے رہے تھے۔
کابل پر قبضہ کرنے کی جنگ زوروں پر تھی ۔اس کے باوجود ہم اسلام آباد ائیر پورٹ پہنچے۔افغانستان کی قومی ائیر لائن آریانا کا لانگ باڈی روسی جہاز ہمار امنتظر تھا۔جس میںاسلام آباد ائیر پورٹ سے تیل بھرا گیا۔ہم جہاز پر سوار ہوئے۔ مسافروں کے لیے جو ناشتہ آیاائیر لائن کا عملہ اور پائلٹ اس کی اجتماعی ضیافت اڑا رہے تھے۔جہاز نے پہلے کابل ائیر پورٹ پر اترنے کے لیے نیچے آنا شروع کیا تو اس پر تین راکٹ فائر ہوئے۔جہاز کا بچ جانا معجزہ تھا یا پرواز کی بلندی، معلوم نہیں۔پھر جہاز بگرام ائیر بیس پراترا،جو کابل سے80کلو میٹر دور ہے۔لینڈنگ کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ گائیڈ یا نظام موجود نہیں تھا۔ایک افغانی جہاز کو پارک کرنے کے لیے دونوں ہاتھوں میں دو بڑے پتھر پکڑے کھڑا تھا۔جس نے جہاز کی ناک اور کاک پٹ کے نیچے ٹائر کے دونوں طرف پتھر رکھ دیئے۔
عملی طور پر یہ ''ون وے ٹکٹ‘‘ قسم کی مہم تھی۔ ہمارے کچھ ہم سفر اس خطرناک سفر کو '' روڈٹو اجتماعی خود کشی‘‘ قرار دیتے رہے۔اس قدر بربادی کے باوجود بھی آریانا ائیر لائن افغانستان کی '' فلیگ کیرئیر‘‘ ہی رہی۔داؤد سے نور محمد ترہ کئی تک اور پھر وار لارڈز آگئے مگر کوئی بھی اس قدر جرأت نہ کر سکا کہ وہ 32سالہ جنگ میں مبتلا ملک کی قومی ائیر لائن پر لوٹ سیل کا بورڈ لگائے۔افغانستان پر روس کا حملہ ہوا،پھر امریکہ، نیٹو، ایساف حملہ آور ہوگئے،لیکن آریانا ائیر لائن بچ گئی،کیونکہ آریانا پر تاجرحملہ آور نہیں ہو سکے۔
اب آئیے ہمارے ایک اور پڑوسی ملک ایران کی طرف، جس نے مڈل ایسٹ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑی۔ اس کے لاکھوں لوگ مارے گئے۔ملک معاشی پابندیوں کا تین سے زائد عشرے تک شکار رہا۔لیکن اس کی قومی ہوا باز''ایران ائیر لائن‘‘ایران کی پرچم بردار تھی۔اس لیے اسے فروخت نہیں کیا گیا۔ہمارا سابق مشرقی بازو 1971ء میں بھارتی جارحیت کے ذریعے کاٹ کر ہم سے علیحدہ کر دیا گیا۔اس کی پرچم بردار قومی ائیر لائن ''بی مان‘‘ خانہ جنگی ،مارشل لاء اور بھارتی قبضے کے باوجود بھی فروخت نہیں کی گئی۔بنگالی قومیت پرست بر سر اقتدار آئے لیکن بی مان پر تاجر حملہ آور نہیں ہو سکے۔
بھارت پاکستان کے چند گھنٹے بعد آزاد ہوا۔ہم 14اگست کو یوم آزادی مناتے ہیں جبکہ بھارت سمجھتا ہے اسے 15اگست 1947ء کو آزادی ملی۔اس کی پرچم بردار ائیر لائن ائیر انڈیاہے۔بھارت کے کئی وزیراعظم قتل ہوئے۔یہ ملک علیحدگی اور آزادی کی35تحریکوں کا سامنا کر رہا ہے۔بھارت نے پاکستان ،چین ،بنگلہ دیش اور تمام پڑوسی ملکوں سے چھوٹی یا بڑی جنگیں لڑیں۔بھارت پر ہندو راج تھا اور آج بھی ہے۔ بھارت نے کبھی گولڈ ن ٹیمپل دربار صاحب امرتسر پر حملہ کیا۔کشمیر پر چڑھائی ہوئی، جونا گڑھ ،حید آباد، سِکم اور بھوٹان پر حملے کرنے کے باوجود ائیر انڈیا محفوظ رہی۔اس لیے کہ بھارت میں بِرلا اورٹاٹا جیسے تاجراقتدار پر قابض نہ ہوسکے۔
فرانس کو ہوا بازی اور ائیر لائنز کی دنیا کا سب سے خوف ناک تجربہ ہوا۔ فرانس نے کنکارڈ جہاز اڑانے شروع کیے ۔یہ طیارے بجلی کی تیزی سے یورپ سے اڑان بھر کر، آدھے سے بھی کم وقت میں امریکہ جا پہنچتے۔پھر ساری دنیا نے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا کہ بظاہر شاہین نظر آنے والے جہاز دورانِ پرواز،ریت کے ٹیلوں کی طرح گِرنا شروع ہو گئے۔ایک کے بعد دوسرا۔کوئی طیارہ چارلس ڈیگال ائیر پورٹ کے رن وے پر آگ میں لپٹا نظر آیا۔کوئی رن وے کے باہر نچلی ہوا میں ، کوئی فضا میں اور کوئی لینڈنگ کے دوران آگ کا گولہ بن کر تباہ ہوا۔مگر ائیر لائن چلتی رہی ۔ یورپ میں برطانیہ کی قومی فضا ئی کمپنی برٹش ائیر لائن سمیت ہرملک میں ہڑتال ہوتی ہے،جس کے نتیجے میں سینکڑوں فلائٹس کینسل ہو جاتی ہیں۔ٹریڈ یونین کو یورپی ملک قانون کے تحت مزدروروں کے حق میں اجتماعی سودا کارایجنٹ مانتے ہیں۔ہمارے ہاں بھی صنعتی تعلقات کے قوانین کی روشنی میں مزدوروں کو یہی حق حاصل ہے۔ہماری ٹریڈ یونین عالمی ادارہ محنت کے ساتھ وابستہ ہے ۔اور بین الاقوامی مزدور تنظیموں کی رکن بھی۔
اس تناظر میں اپنے آپ کو عوامی نمائندہ کہلانے والی کابینہ اور وزیراعظم کا رویہ عجیب مضحکہ خیز یا آمرانہ ہے۔ آج تک جدید دنیا کے کسی وزیراعظم کی زبان سے ایسے جملے نہیںنکلے جو نواز شریف اور ان کے خزانچی سمدھی کے منہ سے پوری قوم نے سُنے۔ہڑتال کرنے والے جیل جائیں گے۔ہم بلیک میل نہیں ہوں گے۔مردم شماری نہ ہوئی تو آسمان نہیں گِرے گا۔ہڑتالیوں کو نوکریوں سے برخاست کریں گے۔ایک ٹاک شو میں کلاشنکوف کے برسٹ کی طرح حکومتی مؤقف ''برسانے‘‘ والے ن لیگی سینیٹر کی گفتگو پر اوریا مقبول جان نے برمحل تبصرہ کیا،کہا ''یہ زبان جنرل مشرف نے بھی کبھی نہیں بولی۔آپ کے ہوتے ہوئے قوم کو کسی ڈکٹیٹر شپ کی کمی محسوس نہیں ہوتی‘‘۔
مغرب سے مشرق تک کوئی حکومت اجتماعی سودا کار ایجنٹ کا ریفرنڈم اور الیکشن جیتنے والی مزدور تنظیموں کو بلیک میلر نہیںکہہ سکتی ۔نوکری سے نکالنے کا قانون موجود ہے۔وزیراعظم کو کوئی قانون اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی کارپوریشن کے ملازم کو ملازمت سے برخاست کرنے کی دھمکی دے یا حکم جاری کرسکے۔
اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے غصہ نے قوم کے 3عدد،''وسوسے‘‘یقین میں تبدیل کر دیئے۔
پہلا،پی آئی اے کو بیچنے والے ہی اس کے خریدار ہیں۔اوراسی لیے ان فروخت کنندہ ،خریداروں کو سودا خراب کرنے والوں پر شدید غصہ آ رہا ہے۔ 
دوسرے،پی آئی اے کی سودا کاری یا نجکاری اور خریداری میں جیٹ سپیڈ کی طرح جلدبازی ظاہر کرتی ہے کہ پی آئی اے کو بیچ کر اسے خریدنے والے اس موقع کو غنیمت سمجھ رہے ہیں۔ اور یہ بھی کہ پھردوبارہ پی آئی اے ہاتھ آئے یا نہ آئے۔اسی لیے وقت کم ہے ، سر مائے اور محنت کا مقابلہ سخت۔
تیسرے،پی آئی اے کے بعد پاکستا ن سٹیل ملز ،پاکستان ریلوے،واپڈا ،بجلی کمپنیوں اور اسٹیٹ لائف بھی اسی رفتار سے فروخت کے نام پر خرید لینے کی تیاری مکمل ہے۔صرف ''بیچ دو‘‘ کا نعرہ باقی رہ گیا ہے۔
بھارت کے آگے ہاتھ جوڑ کر مذاکرات کی صداء لگانے والی،افغانستان اور غیر ریاستی لوگوں کے درمیان گفتگو کی خواہش مند۔اپنے غریب مزدوروں سے مذاکرات کرنے سے انکاری، شیر دلیر حکومت اچھی حکمرانی نہیں تو اور کیا ہے۔؟ مزدور کسان،ہاری،کارکن اور محنت کش بلیک میلر ہیں۔انہی کی وجہ سے پاکستان بھکاری اور بے کاری کا نمونہ بن گیا ۔ان پر گولیاں برسانا سرکار کا'' حقِ تجارت‘‘ ہے۔ پھول ان کی قبروں پر ڈالے جائینگے۔
رات اُس بازار میں اک حُور وش کی سیج پر
اک فقیِہ شہر کی ریشِ حنائی بِک گئی
دھن دھنا دھن کی صدا میں کھو گیا احساسِ زُہد
منبر و محراب کی شُعلہ نوائی بِک گئی
بِک گئی بِکنے کی شے تھی ، پار سائی بِک گئی 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں