"SBA" (space) message & send to 7575

اظہارِ محبت… سچے واقعات

اُن دنوں اٹک قلعے میں بڑی رونق تھی۔
نواز شریف صاحب اٹک قلعے میں دینِ اکبری کے خالق مغلِ اعظم کے کالعدم ''سوئمنگ پول‘‘ میں قید تھے۔ آصف زرداری اور نواز دور کے وزیر مواصلات بھی‘ جو بعد میں میرے دوست بن گئے۔ مرحوم سینیٹر اعظم ہوتی کا مقدمہ بھی چل رہا تھا۔ ان کی ہمشیرہ بیگم نسیم ولی، بھائی کی ہر تاریخ سماعت پر خود تشریف لاتیں۔ ولی باغ کا مُرغا پراٹھا بھجوانا ان کا معمول تھا۔ اہلِ خانہ بیگم صاحبہ کو بی بی صاحبہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ آج کل ان کے جواں مرگ بیٹے سنگین ولی خان کی بیٹی مریم سنگین میرے لا چمیبر کا حصہ ہیں۔ پنڈی تا لاہور موٹروے پر ایمرجنسی فون لگانے والی کمپنی کے مالک اور نواز شریف صاحب کے انتہائی قریبی دوست‘ کراچی کے شامیر خان اور ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر احمد ریاض شیخ مع فیملی کے مقدمے میں بطور وکیلِ صفائی کام کر رہا تھا۔ شامیر تب موجودہ وزیر اعظم کے لیے کراچی کے بہت مہربان تاجر تھے۔ شامیر نون لیگ کی موجودہ حکومت میں صدرِ پاکستان بنتے بنتے رہ گئے۔ کراچی کے اندر کی خبر رکھنے والے دوستوں کا کہنا ہے اگر وہ کسی لیڈر کے ''معدے‘‘ میں اُتر جانے کا فن جانتے تو آج ممنون حسین کی جگہ صدرِ پاکستان کا عہدہ یقیناً ان کے گھر ہوتا‘ جس کا تازہ ثبوت وفاقی دارالحکومت کے میئر کا چناؤ ہے۔
اٹک قلعے کے قیدیوں کے حوصلے‘ وہاں ٹرائل کرنے والے جج حضرات کے کمالات اور پراسیکیوٹرز کے حوالے سے کئی داستانیں ایسی ہیں جو علیحدہ علیحدہ کالم کا تقاضا کرتی ہیں۔ یہ ہوشرُبا کالم میں انشاء اللہ ضرور لکھوں گا۔ اُن دنوں میرے اسلام آباد آفس میں کئی جونیئر وکیل بطور شاگرد ایسوسی ایٹ تھے‘ مصطفیٰ نواز کھوکھر ایڈووکیٹ، بیرسٹر مسرور شاہ، بیرسٹر خرم ہاشمی، غزالہ بھٹی اور ذکی قریشی سمیت اسلامی یونیورسٹی کی تین نقاب پوش خواتین اور کچھ دیگر وکیل بھی۔
ان میں سب سے کم گو ''گُڑ‘‘ جتنا میٹھا، ذ کی قریشی تھا۔ سرائیکی علاقے کا یہ نوجوان نیا نیا اسلام آباد سے واقف ہوا تھا۔ خواتین کے ساتھ مجلس کا زبردست شوقین۔ غزالہ اندرونِ شہر پنڈی کی رہائشی تھی‘ بدن ڈھانپ کر کچہری جانے والی نوآموز لیڈی لائیر۔ ایک دن میں اٹک قلعے کے ٹرائل سے رات کے وقت بلیو ایریا لا آفس پہنچا تو میرے چھوٹے بھائی ایڈووکیٹ فاروق اعوان نے بتایا کہ غزالہ بھٹی پریشان ہے اور کافی دیر سے آپ کی منتظر۔ میں نے غزالہ کو کمرے میں بلایا‘ اور پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا۔ کہنے لگی: ذکی سے بہت تنگ ہوں۔ میں نے کہا: تفصیل بتائو۔ اس کے تفصیل بتانے پر پتا چلا کہ وہ غزالہ سے اکثر ''اظہارِ محبت‘‘ کرتا تھا۔ میں نے ذکی قریشی، منشی شبیر چودھری اور فاروق کو بھی اپنے کمرے میں بلا لیا۔ ذکی سے پوچھا: تم نے غزالہ سے اظہارِ محبت کیا؟ پہلے اُس نے لفظوں کے ہیرپھیر میں جواب اُلجھانے کی کوشش کی۔ میں نے زور سے کہا کہ استاد باپ ہوتا ہے، باپ سے جھوٹ نہیں بولا جاتا‘ تب وہ بولا کہ ''جی ہاں‘‘۔ میں نے پھر کہا: یہ اظہارِ محبت شادی والا ہے‘ یا فلرٹ کر رہے ہو؟ ذکی بولا: نہیں... سر جی میں سنجیدہ آدمی ہوں‘ سوچ سمجھ کر جواب دیا ہے۔ میں نے ذکی سے بیٹھنے کو کہا اور ایک چِٹ لکھ کر منشی شبیر کو پکڑائی‘ جس پر لکھا تھا: ''میلوڈی میں نکاح خواں کے پاس جائو‘ دو سیٹ نکاح نامے کے خرید لاو‘‘۔ 15 منٹ میں نکاح نامے میری میز پر رکھے تھے۔ 
اس دوران میں نے غزالہ کے والد صاحب کو ٹیلی فون کیا۔ خیریت دریافت کرنے کے بعد پوچھا: غزالہ کی شادی کی کہیں بات چیت تو نہیں چل رہی؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ تب میں نے ان سے کہا کہ میں بھی غزالہ کے لیے باپ جیسا ہوں‘ آپ اجازت دیں تو کوئی مناسب رشتہ دیکھ لوں؟ وہ بہت خوش ہوئے۔ نہ صرف اجازت دی بلکہ اپنی بیگم صاحبہ سے بھی میری بات کروائی۔ میں نے فاروق اور منشی شبیر کو گواہ بنایا‘ اور کہا: نکاح نامہ تیار کرو۔ غزالہ کو سمجھایا کہ آپ عاقل اور بالغ ہیں‘ نکاح نبیﷺ کی سنت ہے‘ اگر آپ کو قبول ہو تو میں آپ کا ابھی نکاح کروا دیتا ہوں‘ ذکی نے آپ کو پرپوز کیا ہے۔ غزالہ نے خالص مشرقی لڑکی کی طرح ہچکیوں میں ہاں کی۔ نکاح کے پرت پُر کیے گئے۔ فاروق نے نکاح نامہ اٹھایا اور ذکی کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے فوراً دستخط کر دیے۔ فاروق چیخ پڑا: ذکی شرم کرو‘ تم نے نکاح نامہ پر جعلی دستخط کیے ہیں۔ وہ پرت پھاڑ دیا گیا۔ دوسری دفعہ پرت کی خانہ پُری ہوئی اور ذکی قریشی نے ہنسی اور ندامت کے طوفان میں اصلی دستخط کر دیے۔ نکاح کے دونوں گواہ اس پر راضی نہ ہوئے؛ چنانچہ دولہا کا شناختی کارڈ چیک کیا گیا۔ لا آفس مبارکبادوں سے گونج اٹھا۔
اگلے ویک اینڈ پر بلیو ایریا کے ایک معروف ریسٹورنٹ میں میرے چیمبر کی طرف سے شادی کا کھانا ہوا‘ جبکہ نو بیاہتا جوڑے کے گھر میں باقی رسومات ادا کی گئیں۔ اب ماشاء اللہ غزالہ 3 بیٹوں کی والدہ ہیں‘ جبکہ ذکی کو سال میں ایک دو مرتبہ ''ہسٹری شیٹر‘‘ کی طرح اچھے چال چلن کے ثبوت کے لیے اب بھی طلب کرنا پڑتا ہے۔
مجھے یہ کہانی میرے شاگرد وکیلو ں نے 14 فروری کو یاد دلائی‘ جب پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سمیت بازار ''سینٹ ویلنٹائن‘‘ کے موضوع پر باہم بحث مباحثہ کے ذریعے دست و گریباں تھے۔ صبح کے وقت کراچی کے اخبارات میں ایک دلچسپ تصویر چھپی‘ جس میں مذہبی سیاست کرنے والی ایک جماعت کے تین عہدیدار دل کے نشان والے پھولوں کے گل دستہ ٹائپ چیز کو نذرِ آتش کر رہے تھے۔ ان کے پیچھے نقاب پہنے تین چار خواتین بھی دیکھی جا سکتی تھیں۔ مجھے علامہ صاحب کا شعر یاد آیا‘ جس میں انہوں نے ''سکندرِ اعظم‘‘ کو نہیں بلکہ محبت کو ''فاتح عالم‘‘ قرار دے رکھا ہے۔ ؎
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں، ہیں یہ مردوں کی شمشیریں 
یار لوگوں کو کراچی والی تصویر میں علامتی دل پر ملامتی آگ کی وجہ سمجھ نہیں آ سکی۔ جہادِ زندگانی میں اس جدید شمشیر زنی کا مظاہرہ دو جگہ 14 فروری سے پہلے بھی ہوا۔ پہل پشاور کی لوکل گورنمنٹ نے قرارداد کے ذریعے کی‘ پھر اس پر مرکز کی شمشیر بردار جمہوریت نے مُہر لگا دی۔
جمہوریت سے اظہارِ محبت کے لیے آرمی چیف نے بلوچستان میں جیپ چلائی۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر وزیر اعظم کی اونگھنے والی تصویر انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ نواز شریف صاحب نے جوابی اظہارِ محبت کے لیے 15 دن کے اندر اندر کہہ دیا ''ووٹ‘‘ ہمیں عوام دیتے ہیں‘ حکومت کوئی ''اور‘‘ توڑ دیتا ہے۔ مزید فرمایا: ''یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے‘‘۔ ہم نے اس تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے اسی کالم میں کہا تھا: تصویر اپنی جگہ، لیکن سویلین اور عسکری ادارے کا پیج اپنا اپنا ہے۔
جمہوریت نکاح نامے پر جعلی دستخط کرنے سے باز نہیں آتی‘ نہ ہی احتساب کے اداروں سے فلرٹ کرنا چھوڑتی ہے۔ حالات کی تصویر یوں ہے۔
صبا کچھ اور کہتی ہے، فضا کچھ اور کہتی ہے
فقیہانِ سیاست کی ادا کچھ اور کہتی ہے
سنبھل اے لغزشِ پا، جائزہ لے رنگِ محفل کا
ٹھہر اے دل، کہ بنیادِ وفا کچھ اور کہتی ہے
حرم رُسوا ہے، پیرانِ حرم سر در گریباں ہیں
مگر اب گردشِ ارض و سما کچھ اور کہتی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں