پنجاب اسمبلی میں مردوں کی اکثریت نے ''ورنہ‘‘ کے خوف سے خواتین کے حق میں جو بِل پاس کیا وہ ان کے اپنے گلے پڑ گیا۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا اس بِل کی آمد کے ساتھ ہی سیاسی مولوی اور مسٹر ایک دوسرے کے گلے پڑ گئے۔اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ گلے پڑنے والے سیاسی تقسیم سے بھی آگے نکل گئے۔ پہلی مثال سپیکر قومی اسمبلی کا بیان ہے۔فرمایا، ہم پنجاب اسمبلی کے پاس کردہ خواتین بل پر تحفظات دور کرنے کے لیے تیار ہیں۔اب سپیکر قومی اسمبلی سے یہ کون پوچھے ،صوبے کے سپیکر نے جو بل بغیر کسی''تحفظات‘‘ کے پاس کر دیا، پوری صوبائی اسمبلی نے اس پر اعتراضات نہیں کیے۔آپ آئین کی کس شِق یا کس قانون کے تحت''تحفظات‘‘دور کرنے کا حق استعمال کر رہے ہیں؟خاص طور پر وہ تحفظات جو پنجاب اسمبلی کے جلسہ نما اجلاس میں کسی ایک رکن نے بھی ظاہر کرنے کی ہمت نہیں کی۔
خواتین بِل اب وفاقی شرعی عدالت کی پراپرٹی ہے۔اس لیے اس پر فیصلہ آنے تک قانونی طورپر یہ بِل متنازع نہیں رہا۔اسے زیادہ سے زیادہ عدالت میں زیرِ التوا (Sub-Judice)کا نام دیا جا سکتا ہے۔کوئی نہیں جانتا، فیڈرل شریعت کورٹ ''سود کیس‘‘کی طرح اس مقدمے کی سماعت کب کرے گی...؟شرعی عدالت جب بھی یہ سماعت کرے ،فیصلہ اسی نے کرنا ہے۔ بِل پر اٹھائے گئے اعتراضات قرآن اور سنت کی کن شِقوں کے منافی ہیں ...؟یا سیاسی مولانا رسم و رواج کو شریعت کہہ کر بِل پر معترض ہیں...؟آئین کے آرٹیکل8میں اس کے لیے (Custom)رواج اور(Usage)رسم کے لفظ استعمال ہوئے ۔
شرعی عدالت کے روبرو مقدمے کا کوئی نتیجہ نکلے نہ نکلے، اس کا سیاسی نتیجہ پہلے ہی نکل آیا۔ سرحدی، قبائلی اور خلیجی طرز کی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں نے معطل سیاسی اتحاد کے لیے پھر سے سر جوڑ لیے ۔وہی اتحادجس کو مشرف کے دور میں ''مُلا ملٹری الائنس‘‘المعروف ایم ایم اے کہا گیا۔ قوم نے دیکھا ، ملا ملٹری الائنس والے سیاسی مولوی حضرات نے فاٹا سے سوات تک، بلکہ مارشل لاء سے جرنیل کی وردی سمیت ،ساڑھے 9سالہ اقتدار تک سیاسی الائچی کے خوشبودار حلوے کو کس طرح نیست و نابود کیا۔
پنجاب اسمبلی کے متنازع بِل کا پہلا ہفتہ پنجاب کے تخت کی قانونی مارکیٹ میں کھڑکی توڑ ثابت ہوا۔ابتدائی ہفتے کے دوران میاں بیوی کے درمیان عائلی جھگڑوں پر مشتمل 1780مقدمات صرف لاہور فیملی کورٹس میں لائے گئے۔ خلع کی بنیاد پر خاوند سے طلاق لینے کی خواہشمند خواتین نے سینچری بنا ڈالی؛چنانچہ 135مقدمات کے ذریعے خواتین نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عدالت سے شادی توڑ دینے کی درخواست کی۔
آج کل پنجاب پولیس خادمِ اعلیٰ کی ذاتی نگرانی میں ''گُڈی لُٹ ایکشن‘‘میں مصروف ہے۔اس نے اسی ہفتے میں دو کمال کر دیئے۔پہلا کمال راولپنڈی شہر کے علاقے محلہ حاجیاں میں ہوا۔جہاں17سالہ بے گناہ اسامہ حمید اپنے انکل کے گھر پنڈی کینٹ آیا ہوا تھا۔اسامہ اپنے کزنز کے ہمراہ اڑتی پتنگیں دیکھنے کے لیے چھت پر چڑھا۔اسی دوران گُڈی لُٹ ایکشن کا مقامی پولیس کمانڈر چادر اور چار دیواری کو پاؤں تلے روندتے ہوئے پتنگوں پر حملہ آور ہوا۔بچہ پکڑ مہم کے دوران دھکا لگنے سے اسامہ چھت سے نیچے جا گرا۔بے آسرا بچے نے معصوم جان مالکِ دو جہان کے سپرد کر دی۔
دوسرا کمال پنجاب کے شہرِ اقتدار میں ہوا۔جہاں متنازع قانون کے24گھنٹے کے اندر ایک خاتون تھانے جا پہنچی۔اس امید کے ساتھ کہ تازہ قانون اس کی مدد کے دروازے کھول دے گا،خاتون نے گرین ٹاؤن تھانہ لاہورمیں تحفظِ خواتین قانون کے تحت خاوند کے خلاف درخواست دی۔لیکن پنجاب پولیس آخر پنجاب پولیس ہے، جس کے خادم سے لے کر خاوند تک سب معصوم ہیں۔بیچار ہ تخفظِ خواتین قانون مجریہ2016ء پہلے ہفتے میں ہی پولیس کے ہاتھوں بے آبرو ہو گیا۔تھانے کے'' وڈے‘‘ نے خاتون کی مدد کرنے کے بجائے وڈاخاوند ہونے کا ثبوت دیا۔ 19ویں صدی کے گھِسے پِٹے برطانوی قانون ،تعزیراتِ پاکستان کے تحت ہومیو پیتھک پرچہ کاٹا۔خواتین کو تخفظ دینے کے لیے قانون تو بن گیا لیکن پولیس کو اس قانون کے تابع کون کرے گا؟
ایک بات طے ہے اب تخفظ ِخواتین قانون سیاست اور سیاسی سودے بازی کے لیے استعمال ہو گا۔خواتین کی امپاورمنٹ کی دعویداری ایک طرف،پاکستان کے آئین میں خواتین کے حوالے سے یہ قانون بننے سے بہت پہلے کافی ہدایات موجود ہیں۔ریفرنس اور ریکارڈ کے لیے آئین میں درج ریاست رہنما اصول بہت واضح ہیں۔جیسے آئین کا آرٹیکل32۔جس میں لوکل گورنمنٹ کے اداروں میں خواتین کے لیے علیحدہ نشستیں مخصوص کرنے کا حکم۔ تخفظِ خواتین کے لیے آئین کا آرٹیکل 34بھی واضح ہدایت دیتا ہے۔ قومی زندگی میں خواتین کی بھرپور شرکت اور ہر شعبہ زندگی میں خواتین کی نمائندگی کے اقدامات کیے جائیں۔
Full participation of women in national life.Steps shall be taken to ensure full participation of women in all spheres of national life.
آئین کے آرٹیکل35 میں ریاست کو ہدایت کی گئی وہ شادی، خاندان، ماں اور بچے کے تخفظ کے لیے بروئے کار آئے۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں خواتین کے لیے آرٹیکل 51کی روشنی میں ''ریزرو سیٹ‘‘رکھی گئیں۔لیکن ہماری مردانہ جمہوریت ویمن امپاورمنٹ سے شرماتی ہے۔اسی لیے آج تک نہ کوئی خاتون سپریم کورٹ کی جج بنائی گئی، نہ ہی کسی ہائی کورٹ کی چیف جسٹس۔ اعلیٰ عدلیہ میں صرف7خواتین جج ہیں۔جبکہ مرد جج حضرات کی تعداد 130ہے۔سپریم کورٹ آئینی اور عملی طور پر انصاف کا آخری ادارہ ہے۔سپریم کورٹ میں17مرد ججز لگائے گئے اور کوئی خاتون جج موجود نہیں۔سندھ ہائیکورٹ میں ایک خاتون اور33مرد ججز۔ لاہور ہائیکورٹ میں53مرد ججز کی بھاری اکثریت کے مقابلے میں صرف 3خواتین جج ہیں۔بلوچستان ہائیکورٹ میں ایک خاتون اور7مرد ججز۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں سارے جج مردہیں جبکہ کوئی خاتون موجود نہیں۔نجانے کیوں خواتین کو اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کے عہدوں پر تعینات نہیں کیا جا رہا۔
ایک اور اہم ادارہ ملک کی ایگزیکٹو ہے۔ اعلیٰ بیوروکریسی میں خواتین سیکرٹریوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ۔وفاقی کابینہ میں اس نمائندگی کا حال اور بھی پتلا ہے۔ مردانہ جمہوریت کا وزیراعظم،اپوزیشن لیڈر،سپیکر،ڈپٹی سپیکر،چیئر مین سینٹ،ڈپٹی چیئرمین ،پارلیمانی لیڈر،دونوں ایوانوں کے لیڈر آف دی ہاؤس اور اپوزیشن لیڈر سب کے سب مردانہ جمہوریت کے اہم ستون ہیں۔ملک میں خواتین کی آبادی 52فیصد65فیصد یوتھ میں اکثریت نوجوان لڑکیوں کی ہے۔اہم اداروں میں یا تو انہیں جان بوجھ کر پیچھے رکھا جاتا ہے یا ان کی نمائندگی صرف نمائشی۔
محمدعربیﷺکے دین میںثقہ احادیث کی راوی ارفع ترین عزت مآب امہات المومنین ہیں۔سیدہ خدیجہ الکبریٰ ؓسے لے کر سیدہ عائشہ صدیقہ ؓتک۔ہم سپر سیاسی معاشرہ ہیں۔جس میں دائیں اور بائیںبازو کی سیاست،نظریے،کاز اور طبقاتی سیاست دفنا دی گئی ۔موجودہ سیاست کا مدعا مفاہمت ،منافقت، ترغیبات، مراعات،عہدے اورپرمٹ ہیں۔اس میں صنفِ نازک کو حصہ کون دے...؟