وطنِ عزیز میں ہم وطنوں کے اجتماعی قتل اور بدامنی کا ہر واقعہ اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ جاتا ہے۔ ایسے بنیادی سوالوں پر حکومتی عہدوں پہ براجمان ''نو رتن‘‘ طرح طرح کے ناقابلِ یقین جواب دیتے ہیں۔ یہ جوابات سُن کر بیربل اور مُلا دو پیازہ تو ایک طرف رنگیلا اور منور ظریف کی فلمیں بھی شرما جائیں۔ سیاست کا ایک ایسا ہی مزاحیہ اداکار، رؤف کلاسرا کے ہاتھ آ گیا۔ رؤف کلاسرا خود کو بجا طور پر آدھا سرائیکی‘ آدھا پوٹھوہاری کہتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے اس مزاحیہ فنکار کو روہی میں دبوچا اور لئی میں لا کر نچوڑ ڈالا۔
72 ہم وطن تہہ خاک پہنچے۔ 300 زخمی ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ سینکڑوں پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور ہوئے۔ دوسرے کئی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ خدا کرے وہ اپنے پیاروں کے پاس واپس آنے کے لئے زندہ ہوں۔ پاکستان کی چھاتی پر اتنے بڑے زخم کے بعد ایک اور نورتن نے یوں ذہانت بگھاری ''دھماکہ تو پیرس اور برسلز میں بھی ہوتا رہتا ہے‘‘۔ پچھلے سال اسی ذہنِ رسا نے ہمارے مستقبل کے وارث معصوم بچوں کو یہ سبق پڑھایا تھا: ''بچو! کرپشن کرپشن ہے اور کرپشن تو ہوتی ہی رہتی ہے، کرپشن کا حساب صرف عوام لے سکتے ہیں‘‘۔
کوئی ان سے پوچھے،بلجیم میں برسلز سمیت چیف ایگزیکٹو سے لے کر سارے ریاستی یونٹوں کے حکمرانوں میں ایسا کون ہے جس کی حفاظت پر 8 ہزار پولیس والے تعینات ہیں؟ کس کے محل کی دیوار 24 فٹ اونچی ہے؟ کس خاندان کی سکیورٹی کا خرچہ 1 کروڑ روپے روزانہ ہے؟ جو سرکاری خزانے سے ادا ہوتا ہے۔ اور بلجیم کا کون سا عہدیدار ہے جس کے موٹر کیڈ میں سو سو گاڑیاں دوڑتی ہیں۔ بم پروف، بُلٹ پروف اور شرم پروف بھی۔
چلئے فرانس کی مثال دیکھ لیتے ہیں۔ فرانس کے صدر فرانکوئس ہولینڈ سمیت کابینہ کے کس رکن کے پاس اپنی ایئرلائن ہے؟ کس کے بیٹے دبئی میں بیٹھ کر اسے کروڑوں ڈالر قرضِ حسنہ بھیج رہے ہیں؟
اس المناک گھڑی میں 2 کردار اور بھی قابلِ توجہ ہیں۔ پہلے‘ وہی جو آج کل ''سیاسی اعتکاف‘‘ میں چلے گئے ہیں۔ موصوف کبھی سیاسی مخالفوں کو گلے میں رسّہ ڈال کر پنجاب کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کرتے تھے۔ سُنا ہے انہوں نے اقبال پارک سانحہ والے دن سے اپنی سکیورٹی ڈبل کر دی۔ ظاہر ہے ایسا ہونا بھی چاہیے۔ جس ملک میں 29 بچے، آدھا درجن مائیں اور نہتے شہری گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیئے جائیں‘ بارود ان کی لاشیں ناقابلِ شناخت بنا دے‘ وہاں سچا خادم وہی ہے جو اپنی جان بچانے کا مزید بندوبست کر لے۔
اِدھر خادمِ اعظم کو دیکھ لیں‘ جن کا قوم سے خطاب ان کے گلے کی پھانس بن کر رہ گیا۔ نہ حوصلہ، نہ امید‘ نہ روڈ میپ اور نہ ہی ادارہ جاتی کاوش۔ ایسے میں جنرل راحیل شریف اور مسلح افواج کے صبر کا پیمانہ چھلک جانا قدرتی بات ہے۔ سندھ کے لئے جو آرٹیکل 245 لگانا فرضِ عین سمجھیں‘ دھرنے کے لئے آرٹیکل 245 لگانا فرض منصبی جانیں‘ پنجاب کا ذکر آتے ہی نجانے کیوں ان حکمرانوں کی ہوائیاں اڑ جاتی ہیں۔ اگر ان کے پاس چھپانے کے لئے کچھ نہیں ہے تو پھر وفاق کو قانون کی زبان میں (Omnibus Order) یعنی ایک ہمہ گیر حکم جاری کر دینا چاہیے کہ جہاں قانون شکنی ہو وہاں عساکر بروقت پہنچیں۔
ایک اور طرح کے فنکار پنجاب پولیس میں بھی ہیں۔ ان فنکاروں کو جونہی کسی حادثے کی خبر ٹی وی سکرین سے ملتی ہے‘ وہ جن کپڑوں میں بھی ہوں دوڑ کر بیٹھک سے جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ پھر کیمرہ مینوں کو متوجہ کرنے کے لئے ہاتھ بلند کر کے ہوا کو احکامات جاری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ سانحہ اقبال پارک کی ویڈیو سرچ کرکے دیکھ لیں‘ یہ فنکار جو گیٹ کی حفاظت نہ کر سکے ہوائی احکامات میں مصروف نظر آئیں گے۔
وفاقی سرکار کے منصوبہ سازوں نے چار دن تک ڈی چوک کے حوالے سے بھی خوب فنکاری کی۔ اس فنکاری میں بڑھک، دھمکی، ایکشن، ری ایکشن کا خوب صورت ڈرامہ شامل کیا۔ گزشتہ شب وفاقی وزیروں نے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں کہ کس طرح ان کی المیہ فنکاری سے سانحہ اقبال پارک پیچھے چلا گیا۔ ان فنکاریوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے کارٹونوں کی جوڑی بڑی ہِٹ ہے‘ جس میں ایک طرف بھارتی وزیر دفاع دکھایا گیا جس نے دونوں ہاتھوں میں پاکستانی کبوتر کے پَر پکڑے ہوئے ہیں۔ نیچے لکھا ہے پاکستانی کبوتر بھارت کو برباد کرنے کے لئے حملہ آور ہو گیا۔ اس کارٹون کی دوسری جانب ہمارے وزیر اعظم نے کان بند اور ہونٹوں کو نگلی سے دبا رکھا ہے۔ نیچے تحریر ہے کون سا بھارتی ایجنٹ؟ حکومت نے نہ کچھ سُنا‘ اور نہ ہی کچھ بولے گی۔ کارٹون کی جوڑی کے نیچے یہ شعر درج ہے۔ ؎
ہم کبوتر بھی پکڑتے ہیں، تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ ایجنٹ بھی پکڑتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
جس دن پاکستانی میڈیا بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے زندہ ثبوت یعنی کل بھوشن یادیو کے اعترافِ جرم کی ویڈیو دکھاتا رہا‘ اس روز بھارت کی ٹی وی سکرینوں پر موت جیسی خاموشی چھائی رہی۔ بھارتی میڈیا کے فنکار ظاہر کرتے رہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یا پھر جیسے بھارتی قوم کے لئے پڑوسی ملکوں میں ریاستی دہشتگردی نہ تو انکشاف ہے‘ نہ کوئی بریکنگ نیوز۔
اقبال پارک جیسے سانحات کے حوالے سے بنیادی سوال یہ ہے: کیا وطنِ عزیز میں حفاظت، سکیورٹی اور پروٹیکشن صرف حکمرانوں اور اُن کے خاندانوں کے لئے مخصوص ہو چکی ہے؟ یا آئین کے آرٹیکل 4 اور 9 کی رُو سے جان و مال کا تخفظ سب کا مساوی بنیادی حق۔
ایک اور سوال برابر کی اہمیت رکھتا ہے۔ حکمران عوام کی حفاظت پر خزانہ خرچ کرنے کو گناہ کبیرہ کیوں سمجھتے ہیں؟ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ جب تک حکمرانوں کے محلوں اور ان کے نورتنوں‘ سب کے ساتھ عوام جیسا برابری کا سلوک نہیں کیا جاتا‘ انہیں بے نام اور بے موت مرنے والوں کے غم کا اندازہ نہیں ہو گا۔ پروٹوکول پر چھینا جھپٹی کرنے والے پروٹوکول سے دس بارہ ہزار لوگوں کو قومی ڈیوٹی کی خاطر کیوں فارغ کریں۔ کاش... عدل کے ایوان اور قانون سازی کے پردھان پروٹوکول کی وبا کا راستہ روکیں۔ ایسا ہونا شاید ممکن نہیں۔ پھر لے دے کے ریاست کے لئے ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے۔ وہ واحد راستہ یہ ہے کہ پہلے لوگوں کے بچے، چادر اور چاردیواری بچانے پر خزانہ خرچ کرے۔ باقی ترجیحات شہریوں کی حفاظت کا بندوبست کرنے کے بعد طے کر لیں۔
دوغلہ پن کام آ جاتا ہے، آڑے وقت میں
لیڈروں کو پھر یہ نسخہ آزمانے دیجئے
ٹی ویوں پر، چار دانشور اکٹھے ہیں تو کیا
ان پری زادوں کو بھی جوہر دکھانے دیجئے
عبقری کہلانے والوں کی معمر پود کو
منبر و محراب کی بولی چکانے دیجئے
روزناموں کے مدیرانِ وفا آموز کو
دلبرِ لاہور کا ڈنکا بجانے دیجئے
بات کہنے کی نہیں لیکن زباں پر آ گئی
نکتہ سنجان چمن کو، چہچہانے دیجئے