یہی کام سیدھے طریقے سے بھی ہو جاتا۔ نہ تنقید ہوتی نہ بدمزگی‘ نہ منتخب جمہوریت کی اس قدر بے توقیری۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت کے مالکان بادشاہ ہیں۔ اسی لئے آئین بھی بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ باقی بچے قومی ادارے تو حکمران حسبِ توفیق یا پھر باری آنے پر سب پر عدم اعتماد کرتے رہتے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن پر بنایا گیا نجفی کمیشن اس کا ٹریلر تھا۔ پاناما لیکس پر جیب کی گھڑی جیسا پرائیویٹ کمیشن بنانے کی کوشش، اس فلم کا افتتاحی منظر یا (Entro) ہے۔
تین دن پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں بنچ نمبر ایک نے کراچی کا اہم ترین سیاسی مقدمہ سنا۔ تنازعہ ہے بلدیاتی اداروں میں میئر‘ ڈپٹی میئر کے انتخابات پرچی Secret Ballot ڈال کر کیے جائیں‘ یا پھر ہاتھ کھڑے کر کے (Show of hands) کے ذریعے۔ چیف جسٹس اور بنچ کے دیگر جج حضرات نے مجھ سے بہت سے سوالات پوچھے۔ فاضل چیف جسٹس صاحب کا ایک سوال یہ تھا: پاکستان کا آئین الیکشن کمیشن کو جو اختیارات دیتا ہے‘ ان کو کیسے کم کر دیں؟ میں نے ادب سے جواب دیا: جناب آپ کو یاد ہے الیکشن کمیشن کو نیب کے سابق چیئرمین نے عادی قرض خوروں اور مشہورِ زمانہ کرپٹ عوامی نمائندوں کی ایک مکمل لسٹ بھیجی تھی۔ یہ 2013ء کے الیکشن سے پہلے کی بات ہے۔ نیب کے چیئرمین نے اس کے ساتھ کہا تھا کہ ان کے خلاف آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہلی کی کارروائی کی جائے۔ جناب وہ کارروائی کہاں گئی؟ نااہل قرض خور پھر عہدوں پر بیٹھ گئے۔ الیکشن کمیشن کے کان پر جُوں تک نہیں رینگی۔ مزید عرض کیا: الیکشن کمیشن کی ایک اور قانونی اور آئینی ذمہ داری بھی ہے۔ ہر الیکشن منعقد کروانے کے بعد اس کی جائزہ رپورٹ جاری کرنا۔ آج 2016ء کا اپریل آ گیا‘ 2013ء کے عام انتخابات کی جائزہ رپورٹ کہاں گئی؟
اس سے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس ثاقب نثار صاحب نے‘ جو اس سال کے آخر میں چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالیں گے، لاہور میں خطاب کیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے بھی موجودہ نظام کے حوالے سے دل کے پھپھولے پھوڑ ڈالے۔
ایسے ماحول میں حکمرانوں کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی کہ وہ ''کلین چِٹ برانڈ‘‘ پاکٹ کمیشن کی (Credibility) منوا سکیں۔ اس کی وجوہ میں جانے سے پہلے آئیے دیکھیں پاناما کا منظرنامہ کیا اہم اشارے دیتا ہے۔
پہلا اشارہ یہ کہ: نواز شریف اور ان کے بچے طوفان کی آنکھ میں ہیں۔ ان کے دفاع میں خادمِ اعلیٰ نے ابھی تک اپنے جوشِ خطابت کے جوہر نہیں دکھائے۔ دوسرا: خادمِ اعلیٰ اور ہمارے مشترکہ دوست وزیر داخلہ چوہدری نثار ہیں۔ پاناما لیکس پر ان کا رویہ بھی بے پروا خاموشی سے مختلف نہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم نواز شریف کا دفاع کرنے کے لئے کابینہ اور میڈیا سیل کے وہ لوگ سامنے آئے‘ جن سے عوام کو ویسے ہی چِڑ ہے۔ دارالحکومت کے باخبر ذرائع نے بتایا: وزیر اعظم کی مشہورِ زمانہ ذاتی دفاع کی تقریر کے لئے ان دو حضرات سے نہ مشورہ ہوا‘ نہ ان کی رائے لی گئی۔ کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو بھی پیش نظر رہے۔ خادمِ اعلیٰ کی انتہائی متحرک شریک حیات تہمینہ درانی صاحبہ کا مشورہ‘ جس میں انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر بالکل ''ٹھاہ‘‘ کے انداز میں نواز شریف اینڈ سنز کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی دولت پاکستان واپس لے آئیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ موجودہ صورتحال سے نکلنے کے لئے باپ بیٹوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تہمینہ درانی صاحبہ نے یہ بیان دینے سے پہلے اپنے قریب ترین حلقے میں مشاورت نہ کی ہو۔ اگر مشاورت نہ ہوتی تو یقیناً کوئی وضاحت یا تردید اب تک آ جانا چاہیے تھی۔ اسی ماہ وکالت نامہ آپ کو بتا چکا، وفاقی دارالحکومت کی کابینہ میں شدید دراڑیں ہیں۔ باوثوق ذرائع کہتے ہیں: یہ دراڑیں اب صرف حکومتی نہیں بلکہ خاندانی بھی ہیں۔
بات کا آغاز ہوا تھا عدلیہ کے حوالے سے، ایک اور گزارش بھی سن لیجئے۔ حکومت کی جانب سے ''پاکٹ کمیشن‘‘ قائم کرنے کے اعلان کے بعد میری بڑی تعداد میں سابق جج حضرات سے ملاقاتیں‘ اور رابطہ ہوا۔ اکثر سے ویسے ہی رابطہ و ملاقات رہتی ہے۔ پاکستان کے دو محترم سابق چیف جسٹس صاحبان جب بھی اسلام آباد تشریف لائیں‘ ملاقات کے لئے کرم فرمائی کرتے ہیں۔ میں نے دونوں سے پوچھا: پاکٹ کمیشن میں کون کون سے جج شامل ہونا پسند کریں گے؟ دونوں فاضل اور سابق چیف کا کہنا تھا: ہر عزت دار جج اس گندگی اور اچھلتے کیچڑ سے دور بھاگے گا۔ اس ساری صورتحال میں متعلقہ سوال ایک ہی بچتا ہے‘ اور وہ یہ کہ آخر ہمارے ''جمہوری‘‘ حکمران آزاد، غیر جانبدار اور فعال عدلیہ سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ خاص طور پر وزیر اعظم اور کابینہ میں ان کی حامی ٹیم۔
ماضی قریب کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ وہی چیف ایگزیکٹو اور وہی ٹیم ہے‘ جو سفید شرٹ کالی ٹائی اور کالا کوٹ پہن کر ہاتھ میں درخواستیں پکڑے اسی سپریم کورٹ کی سیڑھیاں چڑھے تھے۔ اس وقت ساری ٹیم مظلومیت کی ایکٹنگ کرتی رہی۔ اسی ٹیم کو سابق سیاسی چیف جسٹس نے من چاہا اور منہ مانگا ریلیف ہی نہیں‘ مثالی پروٹوکول بھی دیا تھا۔
آج پاکستان کے قومی اداروں کے لئے سب سے بڑا سوالیہ نشان ملک کے وزیر اعظم صاحب کا رویہ ہے۔ انہیں وہی پولیس پسند ہے‘ جو ان کے آگے ڈولفن کی طرح فرینڈلی ناچ کود کر سکے۔ کون نہیں جانتا جوا، سٹریٹ کرائمز بغیر کسی سرپرستی کے نہیں چل سکتے۔ پولیس سیاسی خدمت کرے تو ایک ایک عہدے پر ایک ایک افسر ساری زندگی بیشک بیٹھا رہے۔ بیوروکریسی کا اس سے بھی بُرا حال ہے۔ وہ کانپ بھی رہی ہے اور ساتھ ساتھ ہانپ بھی۔ ترقی، اچھے عہدے اور اچھے حالات کار سروس آف پاکستان میں خواب بن گئے۔ دستیاب معلومات کہتی ہیں، کسی ملک کے بادشاہ سے بھی اس کے ملکیتی ملازم اتنے تنگ نہیں ہوں گے۔ نہ میرٹ نہ میرٹ کی پروا۔ بلکہ میرٹ لفظ ہی حکمرانوں کی ڈکشنری سے غائب ہے۔ عوام کو سب سے بڑا ''لالی پاپ‘‘ یہی ملتا ہے کہ جمہوریت انہیں فوری اور سستا انصاف دے گی۔ آج عوام اس دعویٰ پر روئیں یا ہنس دیں؟ حکمرانوں کو خود اپنے ہی ملک کی آئینی عدلیہ پر اعتماد نہیں رہا۔ اسی لئے وہ گلی گلی پاکٹ کمیشن کا کشکول لے کر دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ شاید کہیں سے انہیں اپنی مرضی کا انصاف مل جائے۔
الیکٹرانک انقلاب کے بعد ہر شخص صحافی ہے۔ ہر آدمی سمارٹ کیمرہ، ویب سائٹ، فیس بک، ٹویٹر، ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس سے جڑا ہوا ہے۔ اب وہ حکمران خود بیوقوف دکھائی دے گا‘ جو قوم کو بیوقوف بنانے کے لئے کہے: آزاد عدلیہ میں بیٹھے فاضل جج اور نوکریوں کے متلاشی ریٹائرڈ پینشنر حضرات میں کوئی فرق نہیں۔
ان عقل کے اندھوں کو، الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے