اپوزیشن کی کمزور حاضری کے باوجود ہاؤس آف فیڈریشن میں ہر اعتبار سے یہ ایک بھرپور دن تھا۔
موجودہ حکمرانوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ جس دن اپوزیشن سے مطلب نکلوانا ہو اسحاق ڈار سمیت با اثر وفاقی وزیر ایوان میں منت سماجت سے بھرپور'' ترلا ‘‘ پروگرام کرتے ہیں ۔ ارکان کی نشستوں پر جا کر مسکراتے بھی ہیں۔ اسی لئے حکومت کا خیال تھا وہ کسی بحث کے بغیر 22 ویں آئینی ترمیم کو قومی سمبلی کی طرح منظور کروا لے گی۔ آئینی ترمیم پڑھے بغیر نعرہ لگا منظور ہے؟ سب نے جواب دیا منظور ہے۔ سرکاری بنچوں کی حاضری مکمل تھی۔ مجھ سے وزیر خزانہ اور وزیر قانون نے کہا بِل آج منظور ہو جانا چاہیے۔ جواب دیا اکیسویں آئینی ترمیم کو پڑھے بغیر منظور کرنے کا طعنہ پارلیمنٹ کے منہ پر داغ کی طرح آج تک موجود ہے،اس لئے سینیٹ کے سارے ارکان کو موقع ملنا چاہیے وہ بِل پڑھ کر اپنی تجاویز دیں۔
وزیر قانون پارلیمانی رکھ رکھاؤ کا خیال رکھتے ہیں جبکہ ڈار صاحب کاروباری سودا بازی کی عادت نہیں چھوڑ سکتے۔ وزیر قانون نے بل کے مندرجات کے حوالے سے گفتگو کرنا چاہی، سمدھی صاحب نے درمیان میں جمپ لگا کر وزیر قانون کو ٹوکا، ساتھ کہا ان سے بحث مت کریں۔ یہ بحث میں سے بھی مخالفت کرنے کے مزید نکتے نکال لیں گے۔ سینیٹ آف پاکستان میں پہلا خوش قسمت دن تھا جب کئی وزیر ایوان میں اپنے اتحادیوں کے ووٹ گردن مروڑ اورگھما کر با ر بار گنتے رہے۔
تھوڑی دیر بعد وقفہ سوالات شروع ہوگیا۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن میں اربوں روپے کے گھپلوں کی تفصیل سامنے آئی۔ ارکان نے متعلقہ وفاقی وزیر سے سوال پوچھے۔ ان کے جواب پر کوئی رکن مطمئن نہ ہو سکا، چنانچہ مجھے کھڑا ہونا پڑا۔ میں نے نشست کا بٹن آن کیا اور بسم اللہ کے بعد کہا، جناب چیئرمین سینٹ! میری دعا ہے اللہ کرے آپ کو وزیر باتدبیر کے جواب سمجھ آئے ہوں ورنہ اس ایوان کے دونوں طرف بیٹھے معزز خواتین و حضرات میں سے کسی کو بھی وزیر کا کوئی جواب نہیں سمجھ آ سکا۔ اس پر قہقہہ پڑا اور چیئر مین سینیٹ نے کھلے دل سے یوںاعتراف کیا ''مجھے بھی وزیرصاحب کا کوئی جواب سمجھ نہیں آ یا‘‘۔ جس کے بعد فاٹا کے سوال کی باری آئی۔کئی ارکان نے پوچھا، فاٹا میں صنعت کی ترقی کے لئے کیا اقدامات ہوئے؟ ایک سوال پر میں کھڑا ہوا اور کہا بتائیں فاٹا میں (R.O.Zs) کے ڈالر کس پراجیکٹ میں لگے؟ اس کا جواب بھی آئیں بائیں شائیں والا تھا ۔ چیئر مین سینیٹ نے سخت نوٹس لیا، بولے ہم جانتے ہیں سینیٹ ایک نظر انداز شدہ ایوان ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت اسے نظر انداز کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ ہمیں پتا ہے حکومت اس ایوان کے فیصلوں اور قراردادوں کا کیا حشر کرتی ہے،اس لئے سوال و جواب کا یہ بے معنی وقت، قوم کے وسائل ضا ئع کرنے کے علاوہ کسی کام کا نہیں۔
میں پھر اپنی سیٹ پر کھڑا ہوا اور چیئرمین سینیٹ کی توجہ آئین کی طرف دلوائی۔کہا، آئین کے مطابق ملک کا صدر اس ایوان کا حصہ ہے۔ اسی آئین میں لکھا ہے فاٹا کا حکمران صدرِ پاکستان ہے۔ اسی کے فیصلے، ڈائریکٹیوز اور آرڈرز فاٹا کے علاقے میں قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپ صدر کو پارلیمنٹ میں طلب کر لیں۔ کے پی کے، کے گورنرکی فاٹا میں مداخلت غیر آئینی ہے۔ آئین کے آرٹیکل نمبر1 میں واضح طور پر لکھا ہے، فاٹا ایک علیحدہ وفاقی یونٹ ہے۔ چیئر مین سینیٹ نے کہا ہم ایوان کے آئینی اختیار پر ہتھیار نہیں ڈالیںگے۔
اگلا سوال پھر فاٹا کے بارے میں تھا۔ وزیر منصوبہ بندی نے بتایا، فاٹا میں جنگ سے کیا نقصانات ہوئے۔ پہلے سوال پر ہی ان کا جواب بڑا گول مول تھا۔ میں نے اٹھ کر سیدھا سوال کیا، آپ بتائیں جنگ سے کتنے سکول متاثر ہوئے؟حکومت نے کتنے دوبارہ تعمیر کیے۔ جنگ سے تباہ شفا خانے کون کون سے ہیں؟ آپ نے ان کی بحالی کے لئے کتنی رقم خرچ کی۔ وزارتِ 'نہ منصوبہ اور نہ بندی‘ کے انچارج وزیر نے پتلی گلی سے نکلنا چاہا۔ چیئرمین سینیٹ پھٹ پڑے۔ دردِ دل کے ساتھ بے سمت وزیروں کا قبلہ درست کرنے کی کوشش کی۔ اسی دوران وزیر منصوبہ بندی ایوان سے یہ جا وہ جا ہو گئے۔ وقفہ سوالات کے شروع میں ہی اسی وزارت کا ایک سوال وزیر کی غیر موجودگی کی وجہ سے چیئر مین سینیٹ نے(Kept Aside)کے ضابطے کے تحت زیر التوا رکھا۔ میں پھر اٹھا اور چیئرمین صاحب سے کہا، جناب وزیر اعظم سینیٹ کا اصلی قائدِ ایوان ہے۔ وزیر اعظم نے پڑوس کے ایوان میں آ کر پتلی گلی تلاش کر لی۔ وزیروں کے پاس ہرکام کے لئے وقت ہے مگر غریب عوام اور وفاق کے ایوان کے لئے ٹائم نہیں۔ اس بے رحمانہ غیر سنجیدگی اور مجرمانہ غفلت پر ہم واک آؤٹ کرتے ہیں۔ اس واک آؤٹ کے دوران حکومت کے اتحادیوں نے بھی اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ مشاہد اللہ منانے آگئے مگر ہمارے ایوان میں داخلے کے ساتھ ہی چیئرمین نے فرحت اللہ بابر کی ایک تحریک پر حکومت سے دریافت کیا،کیا حکومت تحریک کی مخالفت کرتی ہے۔ ایوان میں موجود وزیر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ پھر ایجنڈا آئٹم کی تلاش شروع کر دی تاکہ جان سکیں چیئرمین سینیٹ نے کیا کہا ہے؟مجھے پھر اٹھنا پڑا۔ عرض کیا جناب چیئر مین! یہ باکمال جمہوریت کے لاجواب وزیر ہیں، ہر سوال پر نہ تیار ہوتے ہیں نہ جواب دینے کے قابل ہیں، جو بھی جو اب دیتے ہیں اس کا سوال سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ وہ کسی کی سمجھ میں آتا ہے۔ اس پر چیئرمین سینیٹ نے ایوان کی کارروائی دس منٹ کے لئے معطل کر دی۔کسٹوڈین آف دی ہاؤس کی حیثیت سے پریزائیڈنگ افسر کی کرسی خالی چھوڑ کر ایوان سے چیمبرکا رخ کیا۔ ایک باہمت آدمی سے ایسے ہی ردِ عمل کی توقع ہونی چاہیے۔
چند دن پہلے کی بات ہے، نیوزی لینڈ کی اسمبلی کے سپیکر نے اپنے ملک کے وزیر اعظم کو اسمبلی سے نکال باہر پھینکا کیونکہ وزیر اعظم کا رویہ غیر سنجیدہ تھا۔ ہمارے سینیٹ کے چیئرمین نے گڈگورننس کے منہ پر مہذب تمانچا مارا۔ مگر ایسی طرزِ حکمرانی میں کسی کی بے عزتی نہیں ہوتی۔ دیہاتی وسیب کا مقولہ ہے بے عزتی ہونے کے لئے عزت کا ہونا ضروری ہے۔
نظامِ سرمایہ داری کے حاشیہ بردار اور آگے ان کے ادنیٰ درجے کے ملازم قوم کو قرض دلوا سکتے ہیں یا پاناما لیکس کا طعنہ۔ قوم کیا چاہتی ہے یہ ان کا مسئلہ نہیں:
یہ اپنے پیشروؤں سے، نہ کچھ بھی سیکھ سکے
یہ تخت بنتا ہے تختہ، یہی صداقت ہے
وہ ظلم کرتے ہیں پھر بھی خموش ہیں سارے
ہمارے حق میں نہ منصف، نہ یہ عدالت ہے
ہر ایک فرد وطن کا، شعور رکھتا ہے
گماں ہو جھوٹ پہ سچ کا، تو یہ ذہانت ہے؟