راوی کا اصرار ہے، وفاق کے سب سے بڑے گھر کے تہ خانے میں آج کل 2 آرڈیننس تیار ہو رہے ہیں۔ ایک آرڈیننس جھگڑا بڑھانے کے لیے جبکہ دوسرا جھگڑا نمٹانے کے لیے۔
کسی زمانے میں صدر ہاؤس سے جاری ہونے والے آرڈیننس، صدارتی آرڈیننس فیکٹری سے آتے تھے‘ اب عارضی قانون سازی کو ''ٹاپ سیکرٹ‘‘ رکھا جاتا ہے۔ پاناما لیکس سے جان چھڑانے کے لیے پہلے آرڈیننس کی تجویز کا مقصد پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی کو غیر مؤثر کرنا ہے۔ وہ بھی اس صورت میں جب اس کے ٹی او آرز غیر مفاہمتی یا حسبِ منشا نہ ہوئے۔ سرکار کے معاشی ہرکارے سمجھتے ہیں پچھلی منی لانڈرنگ کو برقعہ پہنانا ضروری ہے۔ ان کے خیال میں 1992ء کا قانون عام نہیں‘ بلکہ ''شٹل کاک‘‘ برقعہ ہے۔ دوسرے آرڈیننس کو ''حساس قانون‘‘ (Sensitive Ordinance) کا کوڈ نیم دیا گیا ہے۔ راوی کہتا ہے اس کا مقصد مستقل دباؤ سے باہر نکلنا ہے‘ تاکہ نومبر سے پہلے آنے والا ستمبر کا مہینہ ''ستم گر‘‘ ثابت نہ ہو۔
انصاف سے محروم غریبوں پر ستم گری کی ایک دلخراش داستان میرے دیرینہ بزرگ دوست شاہ سعود ساحر نے سنائی۔ سعود ساحر صاحب پیر کے دن جاری ہونے والے لنگر میں اہتمام سے شرکت کرتے ہیں۔ اگلے روز خوانین، سرداروں اور سرمایہ داروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے غریب اور بے نوا لوگ زیرِ بحث آ گئے۔ شاہ صاحب نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے ان کا بیٹا بلوچستان کے ضلع لورالائی میں کمانڈر کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ انہیں تھوڑے دن بیٹے کے پاس لورا لائی میں رہائش رکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران ان کا بیٹا روزانہ پٹھان کوٹ نامی قصبے جاتا۔ شاہ صاحب نے بھی بیٹے کے ساتھ جا کر قصبہ دیکھا‘ جہاں مختلف سمتوں سے 5 چشمے بہتے ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے فرنگی راج میں پانچوں چشموں سے پانی کا بہاؤ‘ ایک بڑا ذخیرہ بنا کر اس میں جمع کیا گیا۔ کمانڈر صاحب اس ذخیرے پر ڈیوٹی دینے والوں کو روزانہ چیک کرنے جاتے۔ وجہ انہوں نے والد کو یہ بتائی کہ اس علاقے میں آج تک کسی بیوروکریٹ یا ڈپٹی کمشنر نے آنا پسند نہیں کیا۔ سعود صاحب کی صحافتی چھٹیاں ختم ہوئیں تو وہ جہاز پکڑنے اپنے بیٹے کے ہمراہ کوئٹہ ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ پٹھان کوٹ کے راستے میں انہیں ایک انتہائی لاغر سفید ریش بابا جی نظر آئے۔ شاہ صاحب کی ضد پر ان کے بیٹے نے بابا جی کو گاڑی میں بٹھا لیا۔ پوچھا: ''بابا جی کہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘ بابا جی نے بتایا کہ آج سے 21 دن بعد کوئٹہ کچہری میں تاریخ پیشی ہے اور وہ پیشی پر پیدل جاتا اور پیدل واپس آتا ہے۔ جب بابا جی ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھے تو انہیں فوراً نیند آ گئی۔ گاڑی تقریباً دو گھنٹے میں کوئٹہ پہنچی اور کوئٹہ ڈسٹرکٹ کورٹ کمپلیکس کے سامنے جا رکی۔ بزرگ کو جگایا گیا‘ تو انہوں نے دریافت کیا: ''میں کہاں ہوں؟‘‘۔ ساتھ پوچھا: اتنی ٹھنڈ کیوں ہے؟ بابا جی کو شاہ صاحب نے بتایا کہ سامنے کچہری کا دروازہ ہے‘ آپ کوئٹہ پہنچ چکے ہیں۔ بابا جی نے بے اختیار کہا: مجھے دھوکہ مت دو۔ پھر حیرت کے سمندر میں ڈوبے ہوئے بابا جی نے گاڑی کا دروازہ کھولا‘ زمین پر پاؤں رکھا‘ اور کچہری کی عمارت کو پہچاننے کی کوشش کی۔ بابا جی حیرانی اور پریشانی کے درمیان والی کیفیت میں دھڑام سے زمین پر گر گئے‘ اور بے ہوش ہو گئے۔ واہ انصا ف واہ۔ گُڈ گورننس‘ واہ جی واہ۔
پچھلے دنوں وزیر اعظم نے سوات کے جلسے میں لوگوں سے کہا: اچھی حکمرانی یا تبدیلی دیکھنی ہے‘ تو وہ پنجاب میں دیکھیں‘ یا بلوچستان میں۔ بلوچستان کے پٹھانکوٹ والے بابا جی کے واقعہ کے ذریعے بلوچستان کے نظامِ انصاف میں تبدیلی کے بارے میں آپ پڑھ چکے‘ پنجاب میں تبدیلی کا نظارہ کرنا ہو تو جہلم کے علاقے ''ٹِلہ جوگیاں‘‘ کا پُل دیکھ لیں۔ 9 نومبر 2014ء کے دن شہباز شریف صاحب نے اس پل کا افتتاح اپنے ہاتھوں سے کیا تھا۔ یہ عظیم الشان پل تبدیلی کی تیز ہوا سے اس قدر متاثر ہوا کہ سونامی کا انتظار کیے بغیر ہی اپنی افتتاحی تختی سمیت شب برات کے دن زمین پر سجدہ ریز ہو گیا۔ تبدیلی کے مزید کئی ثبوت بھی ہیں۔ سب سے بڑا ثبوت بھارت کے پٹھانکوٹ ڈرامہ والی ایف آئی آر ہے‘ جبکہ بھارتی کمانڈر کلبھوشن کی گرفتاری پر سرکاری خاموشی یا موت جیسا سکوت اس کا دوسرا ثبوت۔
وفاق کے سب سے بڑے محل میںایسے درباری‘ جنہیں راج بھون میں متواتر ''پرساد‘‘ ملتی ہے‘ ہر روز ایک نئی عالمی سازش کا نیا خاکہ پیش کرتے ہیں‘ جس میں سارے ملکی ادارے بادشاہ سلامت کے دشمن، جبکہ پڑوس اور دور دیش کے ''راج نیتائوں‘‘ کو دوست اور ہمدرد مان کر ان سے مزید کمک کی فریاد ہوتی ہے۔ پاکستان کی باعزت ریاست کو باغیرت اور بااختیار قیادت فراہم کرنے کے دعویدار صرف بھارتی پٹھانکوٹ حملے پر غصہ اور ردِ عمل ظاہر کر سکتے ہیں۔ پاک سرزمین کی شاہراہ پر ڈرون حملے کی اطلاع کے بعد وزیر اعظم کی لندن یاترا کیوں ضروری تھی؟ وہ کہانی بھی پردے میں نہیں رہے گی۔ گوگل ارتھ تک رسائی کے بعد کون نہیں جانتا کہ جرمنی اور لندن کا فضائی فاصلہ کتنے ایروناٹیکل میل کا ہے۔ اگر وزیر اعظم کا جہاز سڑک پر ہوتا تو جرمنی میں پنکچر لگوانے کا بہانہ ہو سکتا تھا۔ پاکستان اس قدر خود مختار ہو گیا ہے کہ یہاں ''حکمران شرفاء‘‘ اقتدار کی ہر ایک رات کے لیے یورپ اور امریکہ کے محتاج ہیں۔
بہرحال، عرب دنیا سے ہمارے تعلقات اب محض تاجرانہ رہ گئے۔ کچھ لے لو اور کچھ دے دو کی بنیاد پر قائم یہ تجارتی رشتے دنیا کی مہنگی ترین ''قطر گیس‘‘ ڈیل پر شروع ہوئے۔ یہ جمہوری ڈیل اور اس کا پھل‘ فروٹ ہضم کرنے کے بعد بادشاہ سلامت آج کل متحدہ عرب امارات سے اس سے بھی مہنگا پٹرول خریدنے پر آنکھ لگائے بیٹھے ہیں۔
کسی زمانے میں پاکستان تیسری دنیا کا لیڈر تھا۔ اسی عشرے میں غیر وابستہ تحریک کے ممالک پاکستان کو امید اور تحسین کی نظر سے دیکھتے تھے۔ تیونس کے حبیب بو رقیبہ سے لے کر لیبیا کے معمر قذافی تک، سعودی عرب کے شاہ فیصل سے ایران کے رضا شاہ پہلوی‘ اور امارات کے شیخ زید بن سلطان النہیان تک پاکستان کے ساتھ تعلقات پر فخر کرتے۔ پٹھانکوٹ کی ہمدرد جمہوریت کے دور میں مودی نے دبئی کے پہلے جلسہء عام سے خطاب کرنے کا ریکارڈ بنایا۔ سعودی عرب کے بادشاہ نے اسی بت پرست اور بت فروش کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا۔ مودی ایران کے علاقے چاہ بہار میں بیٹھا تھا۔ اسی وقت امریکی ڈرون بلوچستان میں حملہ آور ہوا۔
ہمارے پٹھانکوٹ کا بابا اللہ کے حوالے ہے۔ اس کے لیے انصاف نہ سستا ہے‘ نہ ہی پٹھانکوٹ کے دروازے کے آس پاس۔ مودی کا پٹھانکوٹ خوش بخت ہے‘ جسے انصاف دینے کے لیے گجرانوالیہ تھانیدار تڑپ اٹھا‘ اور فوراً ایف آئی آر درج کر ڈالی۔
اے وطن کیسے یہ دھبے، در و دیوار پہ ہیں؟
کس شقی کے یہ طمانچے، ترے رخسار پہ ہیں؟