"SBA" (space) message & send to 7575

کچھ تو کھاؤ…

اس کہانی کا آغاز فرانس کے شاہی خاندان سے ہوا۔
شاہی خاندان فرانس کا ہو یا لاہورکا، اسے شغلیہ طرزِ حکومت ہی راس آتا ہے۔ ایسا دربار جس میں بھانڈ، مراثی اور خوشامدی اونچے ''منچ‘‘ پر بیٹھتے ہیں۔ اسی لئے شغلیہ نظام میں قوم کو ریلیف کے بجائے تکلیف اور فائدے سے زیادہ جُگت ملتی ہے۔ ایسی ہی ایک جُگت باز ملکہ میری اینٹینٹی (Marie Antoinette) فرانس میں برسرِ اقتدار تھی۔ بھوک کے مارے لوگوں نے روٹی کے لئے جلوس نکالا۔ ملکہ کو محل کے اندر کی خوشحالی کی وجہ سے حیرانی ہوئی کہ لوگ احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔ اس نے کسی جُگت باز بھانڈ سے پوچھا: عوام کیا کہتے ہیں۔ جگت باز بولا: ملکہ‘ عوام کہہ رہے ہیں‘ ان کو روٹی نہیں ملتی۔ ملکہ بولی: روٹی نہیں ملتی تو پھر کیک کھا لیں۔ پاکستانی دربار کے اعلیٰ ترین جگت باز نے بھی پاکستانی قوم کو یہی مشورہ دیا۔ اس مشورے کے بعد فیس بک، وٹس ایپ، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور ٹی وی پر مشوروں کے ڈھیر لگ گئے۔
وزیر خزانہ نے کچھ اور پھلجھڑیاں بھی چھوڑی ہیں۔ پہلے کہا: جو لوگ بھاری قرضے لینے کی مخالفت کرتے ہیں‘ وہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ امید ہے اگلی تقریر میں وہ ملک دشمنوں کی فہرست بھی جاری کریں گے۔ بظاہر قرض کی مخالفت معروف صحافی، معاشی تجزیہ کار، انویسٹیگیٹیو رپورٹنگ کرنے والے رپورٹر، اپوزیشن ارکان اور پاکستان کے بھوکے شہری کرتے ہیں۔ سمدھی صاحب کے تلخ لہجے سے ایک اور شعلہ بھی پھوٹا۔ کہا: قرض نہیں ملے گا تو کیا پا ک چائنہ راہداری بند کر دیں؟ سمدھی صاحب کو چاہیے فوری طور پر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے وہ معاہدہ قوم کو دکھا دیں جس کے تحت ''سی پیک‘‘ کے لئے قرضہ لیا گیا۔ ایسا نہ تو کوئی معاہدہ ہوا ہے اور نہ سی پیک کے لئے کوئی قرضہ ملا۔ سب قرضے میگا کمیشن کے لئے میگا پروجیکٹس پر لگائے جا رہے ہیں۔ جو کچھ بچ جائے گا وہ وزیر اعظم ہاؤس میں کروڑوں کی لاگت سے باتھ روم کے میک اپ، نئے قالین، شاہانہ ڈائننگ ٹیبل اور بادشاہی کرسیوں جیسے اہم قومی منصوبوں پر خرچ ہو گا۔ اہم اس لئے کہ صبر کی کوئی حد ہوتی ہے۔ آخر 3 سال تک ایک جیسا فرنیچر، کرسیاں اور ٹونٹیاں دیکھ دیکھ کر بندہ بور تو ہو ہی جاتا ہے۔ قومی اس لئے کہ ان کرسیوں پر قوم برادری کے لوگ ہی آ کر بیٹھتے ہیں۔ اور منصوبہ اس لئے کہ پاکستان بنا ہی شغلیہ بادشاہوں کی خدمت کرنے کے لئے ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ پیروڈی آج کل ہِٹ ہے۔
اے وطن کے بدعنوانو
سارے قرضے تمہارے لئے ہیں
تم نے جو بھی ہے لوٹا وطن سے
ایک دن وہ گواہی بنے گا
منہ چھپاؤ گے تم جس کفن میں
چہرے کی وہ سیاہی بنے گا
اے عبرت کی زندہ مثالو
سب جہنم تمہارے لیے ہیں
ڈار والا مشورہ فرانس کی ملکہ کے مشورے کی طرح سمدھی صاحب سے '‘چپک‘‘ کر رہ گیا‘ لیکن دال کھانے والوں کا تجربہ کہتا ہے‘ ایک کلو مرغی میں سے گوشت آدھا کلو نکلتا ہے۔ دال پاؤ بھر ہو تو بھی مرچیں پانی ڈال کر پورا گھرانہ اس پر گزارہ کر لیتا ہے۔ ڈار نے کہا: دال مہنگی ہے تو مرغی کھاؤ۔ مغلیہ طرز کی شغلیہ جمہوریت غریب عوام سے کہہ رہی ہے روٹی مہنگی ہے، تو گھاس کھاؤ۔ دودھ مہنگا ہے تو پانی پیو۔ نمک مہنگا ہے تو پتھر چاٹو۔ مرچیں مہنگی ہیں تو مرچیں آنکھ میں ڈالو‘ اور سرمہ سالن میں۔ پتا نہیں کس نشے میں مخمور شاعر نے بھی کہہ رکھا ہے۔ ع
شراب سیخ پر ڈالی، کباب شیشے میں
فرانس کی ملکہ والی کہانی رکنے پر ہی نہیں آ رہی۔ کسی دل جلے نے یہ مشورہ بھی داغ دیا کہ آمدن نہیں ہے‘ تو قرضہ لے لو۔ بے روزگار ہو تو سیاست میں حصہ لو۔ سیلاب آئے تو اورنج ٹرین کی سواری کرو۔ انصاف نہیں ملتا تو خود کشی کر لو۔ بے روزگاری ہے تو ڈاکے مارو۔ کام چوری سے جی بھر گیا ہے تو جیبیں کاٹا کرو۔ جوتے نہیں ہیں تو پاؤں سر پر رکھ لو۔ کپڑا نہیں تو پتے پہنو۔ مکان نہیں ہے تو نیک اعمال کرکے جنت میں جلدی پہنچو۔ پولیس ایک تھپڑ مارے تو دوسرا گال پیش کرو تا کہ نہ تمہاری لِترول ہو اور نہ ہی پٹائی کی ویڈیو انٹرنیٹ پر پہنچے۔ سبزی مہنگی ہے تو درخت کی چھال اتار لو۔ پکوڑا افورڈ نہیں کر سکتے تو اپنے جگر کے کباب بنا لو۔ گیس نہیں آتی تو کاٹھ کی ہنڈیا چڑھا لو۔ لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی ہے‘ تو خادمِ اعلیٰ والا پنکھا منگوا لو۔ پینشن میں اضافہ کروانا ہے تو 85 سال کی عمر پوری ہونے کا انتظار کرو۔ تنخواہ بڑھنے کا مطالبہ چھوڑ کر اوپر کی کمائی پر گزارا کیا کرو۔ غیر قانونی تارکِ وطن ہو تو پاکستان چلے آؤ۔ اہلِ وطن کو ایک شناختی کارڈ ملے گا‘ تم تین لے لو۔ ٹیبلٹ نہیں ملتی تو بلٹ کھاؤ، جان چھڑاؤ۔ ڈگری کسی کام نہیں آئی تو صومالیہ چلے جاؤ‘ جینے کا گر سیکھ جاؤ گے۔ محلے کا گٹر بند ہے تو اس کا ڈھکن چوری کر لو۔ ویگن میں جگہ نہیں تو خواتین والی سیٹ میں گھس بیٹھو۔ عدم تخفظ کا شکار ہو تو رات کو گھر کے دروازے کھول کر رکھو تاکہ کوئی تو تمہاری چیخ سن سکے۔ اور بتاؤ لذیذ ہم وطنو... تمہاری کیا خدمت کی جائے...؟ ارے! مرغی والی بات پر ناراض کیوں ہوتے ہو۔ کچھ تو کھائو!
ویسے تمہارا بھلا اسی میں ہے تم کچھ مت کھاؤ۔ نہ کھانے سے کوئی بیماری نہیں لگتی۔ کھانے سے گنٹھیا، شوگر، دل کے امراض اور ہائی بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔ سمارٹ نظر آنا چاہتے ہو تو سال بھر کے روزے رکھو۔ کھجور مہنگی ہے تو عیاشی چھوڑ دو، نمک سے روزہ کھولو، فقر سیکھ جاؤ گے۔ اڑوس پڑوس کا ہمیشہ خیال رکھو‘ خاص طور پر جب اہلِ خانہ گھر سے باہر چلے جائیں۔ کو ئی دستی گھڑی مانگے تو اسے کیمرے کے سامنے اتار کر دے دو، بعد میں سپیکر صاحب گھڑی واپس کر دیں گے۔ ترقی دیکھنی ہے تو رائے ونڈ چلو‘ محل دیکھنا ہے تو جاتی امرائ۔ بادشاہ دیکھنا ہے تو لندن چلو۔ شہزادے آدھے آدھے ہیں۔ چھوٹے دبئی میں اور ''بڑے‘‘مے فیئر میں۔ اخلاق سیکھنا ہے تو وزارت برقیات سے سیکھو۔ سچ جاننا چاہتے ہو تو سرکاری ٹی وی دیکھو۔ مہنگائی ختم کرنی ہے تو زمین و آسمان کے رب سے دعا مانگو۔ لوٹ مار اور ذخیرہ اندوزی سے جی اور جیب بھر چکی تو آخری عشرے میں زیارت کے لئے چلے جاؤ‘ عبادت میں دل لگاؤ۔ گھریلو خاتون ہو تو میاں کے لئے ''کڑا‘‘ جیب میں ڈال کے رکھو۔ ورکنگ ویمن ہو تو جوڈو کراٹے سیکھ لو۔ جرائم سے بچنا چاہتے ہو تو تھانیدار رشتہ دار کو لگواؤ۔ اس کہانی کا آغاز فرانس کے شاہی خاندان سے ہوا۔
شاہی خاندان فرانس کا ہو یا لاہورکا، اسے شغلیہ طرزِ حکومت ہی راس آتا ہے۔ ایسا دربار جس میں بھانڈ، مراثی اور خوشامدی اونچے ''منچ‘‘ پر بیٹھتے ہیں۔ اسی لئے شغلیہ نظام میں قوم کو ریلیف کے بجائے تکلیف اور فائدے سے زیادہ جُگت ملتی ہے۔ ایسی ہی ایک جُگت باز ملکہ میری اینٹینٹی (Marie Antoinette) فرانس میں برسرِ اقتدار تھی۔ بھوک کے مارے لوگوں نے روٹی کے لئے جلوس نکالا۔ ملکہ کو محل کے اندر کی خوشحالی کی وجہ سے حیرانی ہوئی کہ لوگ احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔ اس نے کسی جُگت باز بھانڈ سے پوچھا: عوام کیا کہتے ہیں۔ جگت باز بولا: ملکہ‘ عوام کہہ رہے ہیں‘ ان کو روٹی نہیں ملتی۔ ملکہ بولی: روٹی نہیں ملتی تو پھر کیک کھا لیں۔ پاکستانی دربار کے اعلیٰ ترین جگت باز نے بھی پاکستانی قوم کو یہی مشورہ دیا۔ اس مشورے کے بعد فیس بک، وٹس ایپ، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور ٹی وی پر مشوروں کے ڈھیر لگ گئے۔
وزیر خزانہ نے کچھ اور پھلجھڑیاں بھی چھوڑی ہیں۔ پہلے کہا: جو لوگ بھاری قرضے لینے کی مخالفت کرتے ہیں‘ وہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ امید ہے اگلی تقریر میں وہ ملک دشمنوں کی فہرست بھی جاری کریں گے۔ بظاہر قرض کی مخالفت معروف صحافی، معاشی تجزیہ کار، انویسٹیگیٹیو رپورٹنگ کرنے والے رپورٹر، اپوزیشن ارکان اور پاکستان کے بھوکے شہری کرتے ہیں۔ سمدھی صاحب کے تلخ لہجے سے ایک اور شعلہ بھی پھوٹا۔ کہا: قرض نہیں ملے گا تو کیا پا ک چائنہ راہداری بند کر دیں؟ سمدھی صاحب کو چاہیے فوری طور پر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے وہ معاہدہ قوم کو دکھا دیں جس کے تحت ''سی پیک‘‘ کے لئے قرضہ لیا گیا۔ ایسا نہ تو کوئی معاہدہ ہوا ہے اور نہ سی پیک کے لئے کوئی قرضہ ملا۔ سب قرضے میگا کمیشن کے لئے میگا پروجیکٹس پر لگائے جا رہے ہیں۔ جو کچھ بچ جائے گا وہ وزیر اعظم ہاؤس میں کروڑوں کی لاگت سے باتھ روم کے میک اپ، نئے قالین، شاہانہ ڈائننگ ٹیبل اور بادشاہی کرسیوں جیسے اہم قومی منصوبوں پر خرچ ہو گا۔ اہم اس لئے کہ صبر کی کوئی حد ہوتی ہے۔ آخر 3 سال تک ایک جیسا فرنیچر، کرسیاں اور ٹونٹیاں دیکھ دیکھ کر بندہ بور تو ہو ہی جاتا ہے۔ قومی اس لئے کہ ان کرسیوں پر قوم برادری کے لوگ ہی آ کر بیٹھتے ہیں۔ اور منصوبہ اس لئے کہ پاکستان بنا ہی شغلیہ بادشاہوں کی خدمت کرنے کے لئے ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ پیروڈی آج کل ہِٹ ہے۔
اے وطن کے بدعنوانو
سارے قرضے تمہارے لئے ہیں
تم نے جو بھی ہے لوٹا وطن سے
ایک دن وہ گواہی بنے گا
منہ چھپاؤ گے تم جس کفن میں
چہرے کی وہ سیاہی بنے گا
اے عبرت کی زندہ مثالو
سب جہنم تمہارے لیے ہیں
ڈار والا مشورہ فرانس کی ملکہ کے مشورے کی طرح سمدھی صاحب سے '‘چپک‘‘ کر رہ گیا‘ لیکن دال کھانے والوں کا تجربہ کہتا ہے‘ ایک کلو مرغی میں سے گوشت آدھا کلو نکلتا ہے۔ دال پاؤ بھر ہو تو بھی مرچیں پانی ڈال کر پورا گھرانہ اس پر گزارہ کر لیتا ہے۔ ڈار نے کہا: دال مہنگی ہے تو مرغی کھاؤ۔ مغلیہ طرز کی شغلیہ جمہوریت غریب عوام سے کہہ رہی ہے روٹی مہنگی ہے، تو گھاس کھاؤ۔ دودھ مہنگا ہے تو پانی پیو۔ نمک مہنگا ہے تو پتھر چاٹو۔ مرچیں مہنگی ہیں تو مرچیں آنکھ میں ڈالو‘ اور سرمہ سالن میں۔ پتا نہیں کس نشے میں مخمور شاعر نے بھی کہہ رکھا ہے۔ ع
شراب سیخ پر ڈالی، کباب شیشے میں
فرانس کی ملکہ والی کہانی رکنے پر ہی نہیں آ رہی۔ کسی دل جلے نے یہ مشورہ بھی داغ دیا کہ آمدن نہیں ہے‘ تو قرضہ لے لو۔ بے روزگار ہو تو سیاست میں حصہ لو۔ سیلاب آئے تو اورنج ٹرین کی سواری کرو۔ انصاف نہیں ملتا تو خود کشی کر لو۔ بے روزگاری ہے تو ڈاکے مارو۔ کام چوری سے جی بھر گیا ہے تو جیبیں کاٹا کرو۔ جوتے نہیں ہیں تو پاؤں سر پر رکھ لو۔ کپڑا نہیں تو پتے پہنو۔ مکان نہیں ہے تو نیک اعمال کرکے جنت میں جلدی پہنچو۔ پولیس ایک تھپڑ مارے تو دوسرا گال پیش کرو تا کہ نہ تمہاری لِترول ہو اور نہ ہی پٹائی کی ویڈیو انٹرنیٹ پر پہنچے۔ سبزی مہنگی ہے تو درخت کی چھال اتار لو۔ پکوڑا افورڈ نہیں کر سکتے تو اپنے جگر کے کباب بنا لو۔ گیس نہیں آتی تو کاٹھ کی ہنڈیا چڑھا لو۔ لوڈ شیڈنگ بڑھ گئی ہے‘ تو خادمِ اعلیٰ والا پنکھا منگوا لو۔ پینشن میں اضافہ کروانا ہے تو 85 سال کی عمر پوری ہونے کا انتظار کرو۔ تنخواہ بڑھنے کا مطالبہ چھوڑ کر اوپر کی کمائی پر گزارا کیا کرو۔ غیر قانونی تارکِ وطن ہو تو پاکستان چلے آؤ۔ اہلِ وطن کو ایک شناختی کارڈ ملے گا‘ تم تین لے لو۔ ٹیبلٹ نہیں ملتی تو بلٹ کھاؤ، جان چھڑاؤ۔ ڈگری کسی کام نہیں آئی تو صومالیہ چلے جاؤ‘ جینے کا گر سیکھ جاؤ گے۔ محلے کا گٹر بند ہے تو اس کا ڈھکن چوری کر لو۔ ویگن میں جگہ نہیں تو خواتین والی سیٹ میں گھس بیٹھو۔ عدم تخفظ کا شکار ہو تو رات کو گھر کے دروازے کھول کر رکھو تاکہ کوئی تو تمہاری چیخ سن سکے۔ اور بتاؤ لذیذ ہم وطنو... تمہاری کیا خدمت کی جائے...؟ ارے! مرغی والی بات پر ناراض کیوں ہوتے ہو۔ کچھ تو کھائو!
ویسے تمہارا بھلا اسی میں ہے تم کچھ مت کھاؤ۔ نہ کھانے سے کوئی بیماری نہیں لگتی۔ کھانے سے گنٹھیا، شوگر، دل کے امراض اور ہائی بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔ سمارٹ نظر آنا چاہتے ہو تو سال بھر کے روزے رکھو۔ کھجور مہنگی ہے تو عیاشی چھوڑ دو، نمک سے روزہ کھولو، فقر سیکھ جاؤ گے۔ اڑوس پڑوس کا ہمیشہ خیال رکھو‘ خاص طور پر جب اہلِ خانہ گھر سے باہر چلے جائیں۔ کو ئی دستی گھڑی مانگے تو اسے کیمرے کے سامنے اتار کر دے دو، بعد میں سپیکر صاحب گھڑی واپس کر دیں گے۔ ترقی دیکھنی ہے تو رائے ونڈ چلو‘ محل دیکھنا ہے تو جاتی امرائ۔ بادشاہ دیکھنا ہے تو لندن چلو۔ شہزادے آدھے آدھے ہیں۔ چھوٹے دبئی میں اور ''بڑے‘‘مے فیئر میں۔ اخلاق سیکھنا ہے تو وزارت برقیات سے سیکھو۔ سچ جاننا چاہتے ہو تو سرکاری ٹی وی دیکھو۔ مہنگائی ختم کرنی ہے تو زمین و آسمان کے رب سے دعا مانگو۔ لوٹ مار اور ذخیرہ اندوزی سے جی اور جیب بھر چکی تو آخری عشرے میں زیارت کے لئے چلے جاؤ‘ عبادت میں دل لگاؤ۔ گھریلو خاتون ہو تو میاں کے لئے ''کڑا‘‘ جیب میں ڈال کے رکھو۔ ورکنگ ویمن ہو تو جوڈو کراٹے سیکھ لو۔ جرائم سے بچنا چاہتے ہو تو تھانیدار رشتہ دار کو لگواؤ۔ 
ہر کہانی کا ایک انجام ہوتا ہے۔ فرانس کی ملکہ کا مشورہ اس کی قوم نے نہیں مانا۔ کیک کھانے کی بجائے بھوک سے تنگ بپھرے ہوئے عوام نے ملکہ کو کھینچ کر محل سے باہر نکالا اور اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
پاکستانیو... رب کی عدالت میں دیر ہے اندھیر نہیں۔

 

ہر کہانی کا ایک انجام ہوتا ہے۔ فرانس کی ملکہ کا مشورہ اس کی قوم نے نہیں مانا۔ کیک کھانے کی بجائے بھوک سے تنگ بپھرے ہوئے عوام نے ملکہ کو کھینچ کر محل سے باہر نکالا اور اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔
پاکستانیو... رب کی عدالت میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں