سیانے کہہ گئے ہیں خوشبو وہ ہے جو خود بولے، اس کی پہچان کرانے کے لیے خوشبو بیچنے والے کو چیخنا نہ پڑے۔ پاکستان کی70 سالہ تاریخ میں ایک حقیقی خادمِ اعلیٰ پیدا ہوا، جس نے88 سال کی عمر پائی۔ ساری دنیا میںکروڑوں سے بھی زیاد لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ جس میلی اور بوسیدہ شلوار قمیض میں جان اپنے رب کے سپرد کی اسی میں وطن کی مٹی اوڑھ کر مالکِ اعلیٰ کے حضور مطمئن روح کے ساتھ حاضر ہوگیا ؎
قیس سا پھر نہ جنا ، کوئی بنو عازم میں
فخر ہوتا ہے قبلیے کا سدا، ایک ہی شخص
مالکِ دو جہان کا فرمان ہے: ''زمین پر جتنے ہیں سب کو فنا ہے اور باقی ہے تمہارے رب کی ذات عظمت اور بزرگی والا، (سورۃ رحمن آیت نمبر 26 تا 27)
عبدالستار ایدھی عجیب آدمی تھا۔ تقریباً 30 سال پہلے میں ایدھی صاحب سے پہلی بار ملا۔ تب وہ مہربان تاجر چوہدری افضل مرحوم کے ہاں تھے۔ آبپارہ ہاکی سٹیڈیم کے سامنے ان سے ملاقات ہوئی۔ استری کے بغیر ملیشیا کے کپڑے ، سلیپر نما چپل، کلائی اور چھاتی کے بٹن کھلے ہوئے۔ ان دنوں وہ جی ٹی روڈ پر ایمرجنسی سنٹرز بنا رہے تھے۔گفتگو سے بے نیاز اور عجز کا چلتا پھرتا پہاڑ، انسانی روپ میں خال خال ہی ملتا ہے۔
عبدالستار ایدھی برطانوی راج کے دوران ویسٹرن انڈیا سٹیٹ ایجنسی حالیہ گجرات میں جنوری 1928ء کو پیدا ہوئے۔ ایدھی صاحب کے والد عبدالشکور ایدھی سفید پوش انسان تھے۔ والدہ کا نام غرباء ایدھی جو اکثر بیمار رہتی تھیں۔ بعد ازاں فالج سے فوت ہوگئیں۔ تب عبدالستار ایدھی کی عمر محض 19سال تھی۔ شدید بیماری کے دوران والدہ کی تیمارداری کا ذاتی تجربہ ایدھی کے دل میں انسانیت کی خدمت کا دیا جلا گیا۔ چنانچہ ایدھی نے سینئر شہریوں، دماغی طور پر معذور لوگوں اور شفقت سے محروم بچوں کی خدمت کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔1947ء میں عبدالستار ایدھی کراچی پہنچے۔ چند سال بعد فری ڈسپنسری قائم کر دی۔ بعد ازاں اسی ڈسپنسری کو ایدھی فاؤنڈیشن ٹرسٹ کا نام ملا۔ ایدھی فاؤنڈیشن محض 5000 روپے کے سرمائے سے قائم ہوئی۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس چلاتی ہے۔ اس کے فری نرسنگ ہومز ہیں۔ یتیم خانے، میڈیکل کلینکس، عورتوں کے شیلٹرز، منشیات سے تباہ حال نوجوانوں کی بحالی کے مراکز، دماغی معذوروں کے لیے علاج گھر، نومولود بچوں کے لیے جھولا سروس، میتوں کی تدفین اور ہر وہ کام جو اپنے پیاروں کے مر جانے پر ان کی جائیداد وصول کرنے والے رشتہ دار اور قریبی نہیں کر سکتے وہ ایدھی سنٹر والے کرتے ہیں۔
عبدالستار ایدھی کے چلے جانے کا نقصان محض پاکستان اور مسلمانوں تک محدود نہیں۔ اس ناتواں مگر باہمت آدمی نے برِ اعظم افریقہ، مڈل ایسٹ، کاکسس ریجن، مشرقی یورپ حتیٰ کہ امریکہ میں بھی انسانیت کی خدمت کی، جہاں نیو اورلین میں سال2005ء کے تباہ کن طوفان ِبادو باراں کے متاثرین کو ایدھی نے بچانے اور آباد کرنے میں بھر پورمدد دی۔
ایک انٹرویو میں ایدھی کے قریبی دوست نے حیران کن واقعہ سنایا۔کہا، اس نے زندگی میں پہلی دفعہ عبدالستار ایدھی کو مناسب کپڑے اور جوتے پہنے دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے؟ آج کپڑے بدل گئے؟ ایدھی نے بتایا یہ کپڑے ایک لاوارث لاش کے بدن پر تھے۔ مردے کے اترے ہوئے کپڑے کوئی اور پہننے کو تیار نہیں ہوا، میں نے اپنے پھٹے ہوئے کپڑے دھو کر ٹرنک میں رکھے اور یہ والے پہن لیے۔ ایدھی کی زندگی عالمی جد و جہد سے عبارت ہے۔ 1980ء کے عشرے میں صابرہ اور شطیلہ کے مظلوم فلسطینیوں کی خبر گیری کے لیے لبنان میں داخل ہوتے وقت اسرائیلی فوج نے ایدھی کو گرفتارکر لیا۔ 2006ء میں کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں عبدالستار ایدھی کو گرفتار کر کے 16گھنٹے تفتیش کی گئی۔ بالکل ایسا ہی واقعہ جے ایف کینیڈی ایئر پورٹ نیو یارک پر بھی پیش آیا۔ عبدالستار ایدھی کو 8 گھنٹے تفتیش کے پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑا۔ ایک مغربی صحافی نے پوچھا آپ اکثر گرفتار ہو جاتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ ایدھی کا جواب دلچسپ تھا۔ کہنے لگے میری داڑھی اور میرا لباس ۔ مغربی صحافی بولا تو آپ حلیہ تبدیل کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا بھلا کوئی اپنا پاسپورٹ یا اپنی شناخت بدلتا ہے؟
عبدالستار ایدھی نے نہ محل بنائے، نہ ٹاور، نہ پروٹوکول اور ہٹو بچو کی آوازیں لگوائیں۔ نہ لندن، امریکہ، دبئی جا کر عیاشی کی زندگی گزاری۔ مگر انہیں خالص دیہاتی نما پاکستانی حلیے میں بھی عالمی پذیرائی اور اتنے ایوارڈ ملے جن کے ذکر کے لیے ایک علیحدہ کالم درکار ہے۔ ان میں سے چند اہم ایوارڈ یہ ہیں: رومن پبلک ایوارڈ، لینن امن انعام، پول ہیرس فیلو، روٹری انٹرنیشنل ایوارڈ، امریکن ایوارڈ، گینیز بک ایوارڈ سال2000، انسانی میڈیکل سروسز، انٹرنیشنل بلز ان پرائز، برادر ہڈ ایوارڈ اٹلی، گاندھی پیس ایوارڈ، ساؤتھ کوریا ایوارڈ، یونیسکو ایوارڈ، کالج آف فزیشن اینڈ سرجن ایوارڈ، برصغیر سوشل ورکر ایوارڈ، نشانِ امتیاز، خدمت ایوارڈ، یورپ اور انسانی حقوق ایوارڈ پاکستان قابلِ ذکر ہیں۔ دو دفعہ عبدالستار ایدھی کا نام نوبل انعام کے لیے تجویز ہوا۔
500 سے زائد ایمبو لینس گاڑیاں اور 3 ہیلی کاپٹر وں کے مالک کی زندگی میں سادگی کا ایک اور پہلو حیران کن تھا۔ عبدالستار ایدھی نے ساری عمر ایمبولینس کے علاوہ کوئی دوسری گاڑی نہیں چلائی۔ پاکستان ایسے کھرب پتی اور ارب پتی لوگوں سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے ڈھیروں قرضے معاف کروائے اور ڈالروں کے کنٹینر بھر کر ملک سے باہر بھجوادیے۔ میں نے ایک بہت بڑے آدمی کا مقدمہ لڑا۔ مجھے وہ کہنے لگا تمہارا بلڈ پریشر، شوگر اور پیٹ کس طرح کنٹرول میں رہتا ہے؟ میں نے کہا بہت سادہ بات ہے، جو مل جاتا ہے اس پر مالک کا شکر ادا کرتا ہوں، جو نہیں ملتا اس کی کوشش جاری رکھتا ہوں۔ رب کی رضا اور اپنے مقدر پر مطمئن ہوں ۔کہنے لگا مجھے مشورہ دو۔ عرض کیا، کالی کمائی کے ڈالر، پاؤنڈ اور ریال کے ایسے کنٹینرزکا کیا فائدہ جنہیں رکھ کر آدمی کبھی کہے اللہ کی قسم یہ میرے نہیں ہیں اور کبھی کہے اللہ کے فضل و کرم سے سب حلال کی کمائی ہے۔ یہ راستہ مشکل نہیں اس پر چلنے کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ ریلوے لائن کی طرح ساتھ ساتھ چلنے والی ان دو پٹریوں کی نشاندہی شاعرِ مشرق نے یوں کرر کھی ہے ؎
دل کی دنیا بادشاہی اور شکم سامانِ موت
فیصلہ تیرا ، تیرے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم ؟