مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی تازہ لہر 58 سے زائد شہیدوں کے لہو سے مہک رہی ہے۔ تین ہفتے میں بھارتی فوج کا قتلِ عام بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرائم (war crimes) کے زمرے میں شامل ہو گیا۔ ایسے جرائم جن میں بوسنیائی مسلمانوں کے قاتل اور افریقہ میں نہتے شہریوں کو مارنے والے جرنیل اور ان کے حکمران وار کرائمز ٹربیونل (war crimes tribunal) سے سزائیں بھی پا چکے۔ انسانیت کے کچھ دوسرے مجرموں کے مقدمات ابھی لٹکے ہوئے ہیں۔ یہ کہتے کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ان جنگی جرائم پر پاکستان میں کشمیری تاجروں کی حکومت خاموش ہے۔ کچھ دوست اصرار کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام پاکستان میں برسرِ اقتدار انجمنِ تاجرانِ کشمیر کے طرزِ عمل سے بہت خوش ہیں۔ یہ دعویٰ کتنا درست ہے آئیے مختصراً دیکھ لیں۔
اول: ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی بہت سی بین الاقوامی تنظیموں نے بھارت کے ہاتھوں کشمیریوں کے مظالم کو ''قتلِ عام‘‘ قرار دیا۔ پاکستان کے موجودہ حکمران اس قتلِ عام کو بھی مفاہمت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسی لیے ابھی تک وزیر اعظم، وزیر دفاع، وزارتِ خارجہ‘ جو کہ وزیر اعظم خود ہی ہیں یا حکومت کے ترجمان نے اس قتلِ عام کو جنگی جرائم کہا نہ قتل عام‘ کیونکہ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹ واچ کے بیانات کو بنیاد بنا کر سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل سفیر بھارت کے خلاف مضبوط کیس کھڑا کر سکتے ہیں۔ یہ موقع جان بوجھ کر ضائع کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔
دوئم: بھارت نے 68 سال میں پہلی دفعہ کشمیر کی نہتی سویلین آبادی کی تحریک آزادی کے خلاف جنگی لڑاکا طیارے کشمیر میںجمع کر لیے۔ اس اشتعال انگیز کارروائی پر بھی پاکستان کی برسرِ اقتدار کاروباری اشرافیہ کا سکوت نہ ٹوٹ سکا۔
سوئم: مقبوضہ کشمیر میں بغیر کسی استثنا اور بغیر کسی وجہ کے سارے پاکستانی چینل بند کر دیے گئے۔ مقبوضہ کشمیر اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین بلیک آؤٹ اور ناکہ بندی کا شکار ہے۔ کئی ہفتوں سے پبلک ٹرانسپورٹ، اخبارات، ٹیلی ویژن سیٹ، موبائل فون، ٹویٹر، فیس بک، سوشل میڈیا، وٹس ایپ اور ایس ایم ایس خاموش کر دیے گئے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ اقدامات آزادیء اظہار کے خلاف مسلمہ جرائم میں شمار ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام مسئلہ کشمیر کے ازخود وکیل ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی میڈیا کی بھاری اکثریت مقبوضہ کشمیر کے مظلوموںکی آواز ہے اور کاروباری طرزِ حکمرانی والی حکومت، ذاتی سوچ اور شخصی کاروبار سے اوپر اٹھنے کے لیے تیار نہیں۔
اس تناظر میں پہلا سوال تو یہی ہے کہ بھارت سارے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی ٹیلی ویژن اداروں کی نشریات بند کر سکتا ہے تو پھر درجنوں بھارتی چینل آزاد کشمیر اور پاکستان میں کیوں دکھائے جا رہے ہیں؟ کیا پی ٹی اے کو ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ بھارت نے کشمیر میں پاکستانی چینل بند کرکے ان کی نشریات پر پابندی لگا دی ہے؟ اگر ہم بھارت کی پاکستان دشمنی ایک طرف رکھ دیں‘ محض دو ریاستوں کے مابین برابری کے برتاؤ کا اصول مدِنظر رکھیں‘ تب بھی پاکستان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ فوری طور پر ملک بھر میں بشمول آزاد کشمیر بھارتی چینلز کی نشریات پر پابندی لگائے۔ بین الاقوامی قانون کسی بھی ریاست کو اپنے ساتھ ہونے والے مخالفانہ سلوک پر جوابی کارروائی کرنے کا حق دیتا ہے۔ اگر موجودہ حکومت مودی کو ناراض کرنے کی سکت رکھتی ہے تو اسے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی چینلوں کی نشریات پر پابندی کا فوری جواب دینا ہو گا۔
افسوسناک صورت یہ ہے نواز حکومت مودی نواز دوستانہ ماحول خراب کرنے پر تیار نہیں۔ اسی ہفتے اس پالیسی کے دو بڑے مظاہر دیکھنے کو ملے۔ اس کا پہلا مظاہرہ سرکاری طور پر منایا گیا یومِ سیاہ تھا‘ جس کا مقصد یومِ الحاق کشمیر کے موقع پر حکومت نے کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی بتلایا‘ جو بظاہر اچھی بات تھی‘ لیکن یہ یومِ سیاہ منایا کیسے گیا‘ اس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان سے نکل کر کئی وکلا کے ہمراہ سینیٹ پہنچا‘ جہاں پورے ہاؤس آف فیڈریشن کا کمیٹی اجلاس منعقد ہوا‘ جس کا مقصد پاک امریکہ تعلقات پر غور و فکر تھا۔ پارلیمنٹ کے دروازے سے لے کر لفٹ تک‘ پارلیمانی لابیوں سے شروع کرکے دفاتر تک‘ ہر جگہ نچلے درجے کے سرکاری ملازمین نے بازوؤں پر کالی پٹی باندھ رکھی تھی۔ کسی شعبے کے سربراہ، وزیر اور سرکاری پارلیمنٹیرینز نے کلف لگے سفید لباس پر ملیشیا کی سیاہ پٹی باندھنے کو شایانِ شان نہیں سمجھا۔ ہم نے ایک جگہ رک کر سیاہ پٹی والے دوستوں سے گفتگو بھی کی۔ ایک نے کہا: سر جی! وزیروں اور بڑوں نے تو پٹیاں نہیں باندھی‘ ہم تو دل سے یومِ سیاہ منا رہے ہیں اور کشمیر ی آزادی پسندوں کے ساتھ ہیں‘ لیکن یومِ سیاہ کا اعلان کرنے والے شاہانہ سفید لباس میں گھوم پھر رہے ہیں۔
دوسرا یہ کہ آزاد کشمیر اور پاکستان میں سرکاری طور پر انتخابی جلسے ہوتے رہے‘ لیکن اس دن سرکار نے اپنے اعلان کردہ یومِ سیاہ کا کوئی جلسہ منعقد کرنا پسند نہ کیا۔ ایک بے ضرر سے اجلاس میں‘ جو اسلام آباد تھانے کے ایک بغلی کافی شاپ نما ہال میں منعقد ہوا‘ ایک غیرت مند نے اپنی قمیض پھاڑ کر احتجاجی پرچم بلند کر دیا‘ لیکن اس ہال میں بیٹھے حکومتی اکابرین کو عوامی جذبات کے اظہار کا یہ طریقہ سخت ناگوار گزرا۔
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی موجودہ لہر کے تین ''لینڈ مارک‘‘ ہیں۔
پہلا، آج کشمیر کے ہر شہید کے گھر پر اس کے رشتہ دار اور چاہنے والوں نے پاکستان کا پرچم لہرا رکھا ہے۔
دوسرا، ہر ریلی، ہر جلسے اور جلوس میں سرزمین پاک کا پرچم قیادت کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے سارے معروف اکابرین گھروں اور جیلوں میں بند ہیں۔ نئی پود نے آزادی کی نئی لہر کو اجتماعی قیادت دے دی۔ ساتھ اس اجتماعی شعور نے اپنی منزل بھی متعین کر ڈالی‘ لہٰذا لاٹھیوں‘ گولیوں اور آنسو گیس کی بوچھاڑ میں مظاہرین کی پہلی صف کی علامتی شناخت پاکستان کا پرچم ہے۔
تیسرا‘ ہر اجتماع میں‘ جو ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اکٹھا ہوتا ہے‘ دو فلک شگاف نعرے لگتے ہیں: ''جیوے جیوے پاکستان‘‘ اور ''پاکستان سے رشتہ کیا... لاالہ الاّاللہ‘‘۔
موجودہ حکمرانوں کا خیال ہے کشمیر کو آزادی سے زیادہ سریا پُل اور جنگلہ بس سروس کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے عوام کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے تھے، دھڑکتے ہیں اور دھڑکتے رہیں گے‘ تاوقتیکہ کشمیر آزاد ہو اور مظلوموں کو ان کے دیرینہ خواب کی تعبیر ملے۔
سلام اے دل فگار لوگو!
سلام اے اشکبار لوگو!
تمہی نے اپنا وطن بچایا
تمہی نے باطل کا سر جھکایا
بجھا کے شمعِ حیات اپنی
وفا کی راہوں کو جگمگایا
مگر یہ دل رو کے کہہ رہا ہے
بجھے بجھے ہیں دیار لوگو!
وہی ہے شب کا حصار لوگو
سلام اے اشکبار لوگو