بڑے بڑے سودے بازوں کے لندن پلان کی وارداتیں آپ نے سن رکھی ہیں۔ آج میں آپ کو ''وکھری ٹائپ‘‘ کے لندن پلان کا راز کھول کر سناؤں گا۔
جو لوگ میری طرح فیملی اور نئی پود کے ساتھ بیٹھ کر بچوں کے کارٹون شوق سے دیکھتے ہیں‘ ان کو یہ لندن پلان فوراً سمجھ آ جائے گا‘ بلکہ جو زیادہ سمجھدار ہیں وہ اگلی بار لندن پلان کا حصہ بننا زیادہ پسند کریں گے۔ ان میں سے ایک کارٹون ہالی وڈ کا ''بلاک بسٹر‘‘ کہلاتا ہے۔ کارٹون کا مرکزی کردار ''والی گیٹر‘‘ کے نام سے پوری دنیا کے بچوں میں مشہور ہے۔ ایلی گیٹر کو تو آپ سب جانتے ہی ہیں۔ معصوم شکل والا، پتلا سا منہ مگر مضبوط جبڑے والا مگر مچھ‘ جو ہر بار تاک کر حملہ کرتا ہے اور شکار کو ہڑپ کرنے میں چند لمحے سے زیادہ وقت ضائع نہیںکرتا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر لذیذ شکار کی یاد میں مگرمچھ کے آنسو بہائے بغیر نہیں جی سکتا۔ اس تصوراتی ''والی گیٹر‘‘ کے کردار کا حلیہ بھی خالص معصومانہ ہے۔ دو چھوٹی ٹانگیں، شتر مرغ جیسی اونچی گردن، لمبوترہ منہ، چہرے پر مسکراہٹ۔ وہ ہر روز نیو یارک کے مرکزی چڑیا گھر سے فرار کا شاندار پلان بناتا ہے۔ پھرکسی نہ کسی طرح پنجرہ توڑ کر یا گارڈ کو دھوکہ دے کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ شہر والے اکثر اسے اس قدر مایوس کر دیتے ہیں کہ وہ بھاگنے کا کامیاب منصوبہ ادھورا چھوڑ کر ازخود پنجرے میں واپس آ جاتا ہے۔ اس تمہید کی وجہ یہ تھی کہ میرے بچے اور شریک حیات ہمیشہ میرے سالانہ چھٹیوں کے پلان کو ''والیگیٹر‘‘ پلان کہہ کر مجھے چھیڑتے ہیں‘ لیکن اس دفعہ میرے چھوٹے صاحبزادے عبدالرحمن کے ساتھ مل کر میں نے کامیاب لندن پلان بنایا۔ اس کے لا کالج میں داخلے کی خوشی میں سب لوگ والی گیٹر والی کہانی بھول گئے۔
ہم شہید بے نظیر بھٹو ایئر پورٹ پہنچے‘ جہاں وی آئی پی لاؤنج ویران مگر منظم تھا۔ سری لنکا سے حال ہی میں ڈیل لیز پر لیا گیا ایئربس طیارہ کھڑا تھا۔ ہوائی جہاز تک پہنچنے کے لیے وین نما کھٹارہ آیا۔ اسے دیکھ کر یوں لگا:
ٹوٹے کواڑ اور کھڑکیاں
چھت کے ٹپکنے کے نشان
پرنالے ہیں، روزن نہیں
یہ ہال ہے آنگن نہیں
بھارت کے ہندووانہ یومِ آزادی کے دن فلائٹ تھی۔ اس 15 اگست کو سکھ برادری نے عالمی سطح پر خالصتان کے یومِ آزادی اور ہندو ریاست کے نام یومِ سیاہ کے طور پر منایا۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی 70 سالہ تاریخی لڑائی میں حالیہ 15 اگست یوم بربریت تھا یا پھر روزِ وحشت۔
میں اور عبدالرحمن جہاز کی پریمیئر کلاس میں داخل ہوئے۔ پہلی مرتبہ خوشگوار حیرت ہوئی۔ مناسب انگریزی بولنے والے عملے کے رکن نے استقبال کیا‘ جس میں صرف مسکراہٹ کی کمی تھی۔ خیال آیا‘ شاید بے چارہ واحد قومی ایئرلائن کے مستقبل سے خوفزدہ تھا۔ خوف نے بے چارے کے چہرے سے مسکراہٹ تک چھین لی۔ مگر جلد ہی راز کھل گیا کہ جہاز کا سینئر پرسر پی آئی اے کا نہیں سری لنکن ایئرلائن کا ملازم ہے۔ حسبِ عادت اور حسبِ معمول ایک ادنیٰ درجے کے بیوروکریٹ نے پی آئی اے کی پرواز PK.785 کو پورے 27 منٹ یرغمال بنائے رکھا۔ مسافر اکتا کر اِدھر ادھر دیکھتے رہے۔ جہاز نے اڑان بھری تو میرے ٹیلی فون پر یہ ایس ایم ایس آیا۔ لیجیے آپ بھی پڑھ لیجیے:
SRILANKAN...welcome on board. stay connected with discounted Rates on inflight Wi-Fi and standard roaming rates on phone services.Enjoying the flight.
ترجمہ: ''سری لنکن پرواز پر ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ فلائٹ کے دوران ہمارے فضائی وائی فائی نیٹ ورک سے رابطہ کر لیں‘ جس پر آپ کو رعایتی ریٹ چارج ہو گا‘ اور سٹینڈرڈ رومنگ فون سروس کے نرخ بھی دینا ہوں گے۔ آپ پرواز انجوائے کریں‘‘۔
پھر کپتان کی آواز سنائی دی۔ نام انگریزی مگر انگلش بولنے کا لہجہ خالصتاً ہندوستانی تھا۔ یکدم میری خوشی ہوا میں بکھر گئی۔ یاخدا... یہ کیا ماجرا ہے؟ یہ وہی سری لنکا ہے‘ جو کبھی سیلون تھا‘ جہاں سیدنا آدم علیہ السلام کے قدم کے نشان کی عظمت والا پہاڑ سراندیپ ہے۔ احتراماً اس پہاڑ کو ''آدم پیک‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ رام کی لنکا نے ایسی دہشت و وحشت کو شکست دی‘ جسے بھارت نے جنم دیا، پروان چڑھایا۔ ڈٹ کر اس کی سہولت کاری بھی کی۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کے پاس شہروں پر نشانے لگانے کے لیے دیسی ساختہ جہاز بھی تھے۔ یہ خانماں خراب لوگ اخلاقیات سے کتنے عاری ہیں۔ انہوں نے ایشین ٹائیگر کا ذرہ برابر لحاظ نہ کیا۔ ان کی قومی ایئرلائن کہاں اور ایشین ٹائیگر کے جہاز کہاں؟ پھر دھیان نجانے کیوں سری لنکا کے جہازوں کی لیز کی طرف مڑ گیا۔ فی الحال میرے پاس اس (Wet lease) کے ساتھ ساتھ (Aercap) ڈالرز اور 12 سال کی داستان پہنچی ہے‘ جس پر کالم پھر سہی۔ شاید کل کلاں کوئی تفتیش کار رپورٹر اس ڈیل کی تفصیل بھی سری لنکا جیسے ایشین ملک سے ڈھونڈ نکالے۔ یہ لائنیں لکھتے لکھتے پرواز ترکمانستان کے اوپر جا پہنچی۔ یہاں کی بہت مشہور جھیل ''قراقم لیک‘‘ دور تک پھیلی نظر آ رہی ہے۔
میں نے ارد گرد نظر دوڑائی۔ بادلوں کا ایک پہاڑ نیچے تھا اور ہر طرف نیلگوں آسمان۔ کائنات کتنی وسیع ہے اور کتنی بڑی کوئی نہیں جانتا۔ اس میں کتنے ستارے، کتنے سیارے اور کتنی کہکشائیں بلکہ مزید کیا کیا ہے‘ یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ میرے تخیل کی پرواز نے اڑان بھری۔ کرہ ارضی پر اڑنے لگا۔ کئی براعظموں والے اس کرہ ارضی پر کتنے جنگل، کتنے صحرا، کتنے دریا، کتنے پہاڑ اور کتنی مخلوقات ہیں۔ چرند، پرند، حیوان، کیڑے مکوڑے نظر آنے والے اور نہ نظر آنے والے حشرات الارض۔ پھر خیال آیا‘ اتنی ساری ان گنت دنیاؤں میں سے ایک دنیا اور ان گنت زمینوں میں سے ایک پاک سرزمین۔ اس کے ان گنت شہروں میں سے ایک شہر اسلام آباد۔ اور اس کے ان گنت لوگوں میں سے ایک میری ہستی۔ یہ سوچ کر مجھے بندے کی حیثیت سے اپنی اوقات یاد آئی۔ وہ بندے ہی تھے جنہوں نے خالق کی بندگی سے انکار کیا تھا۔ لاکھوں، کروڑوں انسانوں کی لاشوں پر اقتدار کے محل تعمیر کیے‘ مگر بڑی سے بڑی تعمیر بھی تخریب کے نشانے پر ہے۔ اسی لیے خالق کائنات نے اپنے بندے کے لیے اس کے ساتھ ہی کہہ رکھا ہے: ''اور دنیا میں سیر کرو اور دیکھو تم سے پہلے آنے والوں کی عاقبت کیسی ہوئی‘‘۔
سوچ کے سمندر میں اس وقت دخل در ''ماکولات‘‘ آئے‘ جب فضائی میزبان نے لنچ کا نیا ''مینو‘‘ میرے سامنے رکھا۔ قومی ایئرلائن کی لمبی پرواز پر اکثر ایسا مینو دیکھ کر ذہن میں مظلوم گدھے آ جاتے ہیں۔ مگر کھانا رام کی لنکا اور سبزی خوروں والا زیادہ نکلا۔
پھر لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر آنکھ کھلی۔ وسیم نقوی المعروف بورے والا ایکسپریس، وکیل اور صحافی مبین راشد، برٹش سولسٹر کلب کے سربراہ سمیت دوستوں کے ہمراہ لنکاسٹر پہنچے۔ ہوٹل کے سامنے لمبا چوڑا ہائیڈ پارک اور اس کے ارد گرد پاناما لیکس سے بننے والی قیمتی جائیدادیں ایستادہ ہیں۔ اکثر مسلمان ملکوں کے غریب عوام پر حکومت کرنے والے دنیا کے امیر ترین حکمرانوں کی ملکیت۔ (جاری)