بیرسٹراسلام خان ایک ہفتے سے سوئٹزر لینڈ چھٹیاں گزارنے گئے تھے۔بات ہوئی تو واپس چلے آئے۔تھوڑی دیر بعد بہاولنگر کے بیرسٹر وٹو ،اور محلہ اصغر مال راولپنڈی کا وقار زیدی عرف لندن والا وکی بھی آ گیا۔
بیرسٹر وٹو کا اصرار تھا ان کی لگژری کار میں بیٹھاجائے ۔میں نے لندن کی مشہور ِزمانہ ''بلیک کیب‘‘ کو اشارہ کیا۔سیاہ ٹیکسی لندن اور خاص طور سے اندرونِ لندن'' سینٹرل لندن‘‘ کے لیئے سب سے اچھی سواری ہے۔نہ زیر زمین ٹرین تک پہنچنے اور پھر ہر طرح کی تلاشی علیحدہ ۔نہ ٹکٹ لینے کے لیئے لائن میں لگنے کا جھنجھٹ۔نہ سرخ ڈبل ڈیکر کے ڈنڈے سے لٹک کر دھکم پیل اور جھٹکے۔کالی ٹیکسی میں5عدد سواریوں کی گنجائش ہے۔تین لوگ کھلے ڈلھے ایک ہی سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں۔جبکہ سامنے دو چھوٹی سیٹیں الگ الگ۔ڈرائیور کا شیشے سے بنا کیبن ہے۔ فرنٹ سیٹ پراس کا سامان پڑا رہتا ہے۔بلیک کیب میں فرنٹ سیٹ پر مسافر بٹھانے کی اجازت نہیں۔بلیک کیب کا میٹر عین چھت کے ساتھ لگا ہوا۔جس پر علیحدہ لائٹ لگی ہے۔جونہی مسافر بیٹھا ڈرائیور لائٹ آن کر کے اسے2:60کے ہندسے دکھاتا ہے۔جس کا مطلب ہے۔سفر کاپہلا میل شروع ہو گیا ۔ ڈرائیور گورا ہو یا کالا اس سے فرق نہیں پڑتا دونوں سیدھے چلتے ہیں۔خاموشی کو ہزار نعمت جان کر ڈرائیونگ ہوتی ہے۔دیسی سواری اگر پوچھے آپ کا تعلق کہاں سے ہے توڈرائیور صرف اتنا کہتا ہے۔جی میرا تعلق بلیک کیب کمپنی سے ہے۔اس لیئے ڈرائیور سے علیک سلیک کے شوقین اس میں سفر نہ کریںتو بہتر ہے۔
ہم چانسری لین پہنچے جہاں سڑک پر30/25بیرسٹر اور سولسٹر خواتین و حضرات کھڑے تھے۔ملاقات ،تعارف کے بعد سیلفیاں شروع ہو گئیں۔چند منٹ بعد ہمارا استقبالی گروپ لاء سوسائٹی آف یوکے کی کئی سو سالہ پرانی شاندار عمارت کے آڈیٹوریم میں پہنچا۔ محل نما ہال لکڑی کی بہترین سجاوٹ اونچے دروازوں اورقیمتی پردوں سے مزین تھا۔اچھی کرسیاں دونوں طرف سلیقے سے رکھی تھیں۔مجھے سیدھا سٹیج پر لے جایا گیا۔ میرے ساتھ لاء سوسائٹی یو کے کی قائم مقام چیئرمین کرسٹیا بلیکس لاء بیٹھی تھی۔دوسری جانب پاکستانی نژاد برٹش ایم پی ناز شاہ اور دیگر عہدیدار۔یورپی بیرسٹر سٹیج سیکرٹری تھے۔انہوں نے میرا نام لے کر پکارا،ساتھ کہا مسٹربابر کوئٹہ کے وکیلوں کی شہادت پر خطاب کے بعد دعا بھی کروائینگے۔200سے زیادہ یورپی ، انگلش قانون دانوں،ارکان پارلیمنٹ اور کوئین کونسلز کا اجتماع پاکستان کا مقدمہ لڑنے کے لیے مجھے بہترین فورم لگا۔ پاکستان کے مین سٹریم ٹی وی ،اخبارات کے کیمرے اور نمائندے بھی پہنچے ہوئے تھے۔انگریزی میڈیا بھی موجود ۔میں نے پاکستانی وکیلوں اور کچہریوں پر حملوں کے ذکر کے بعد کہا،جناب والا یقین کریں پاکستانی اتنے ہی تہذیب یافتہ ہیں جتنے کسی مہذب ترین ملک کے لوگ ہو سکتے ہیں۔ہم نہ تو غار میں جنم لیتے ہیں۔نہ ہی کسی اونچے درخت کے گھونسلے میںپروان چڑھتے ہیں۔عالمی امن میںہمارا حصہ ہماری قربانیوں کے پیمانے سے ناپا کریں۔کہا،مجھے خوشی ہوتی ہے جب مغربی دنیا کے لیڈر اس وقت ریلی نکالتے ہیں جب مغرب میں گولی چلتی ہے یا بم پھٹتا ہے۔مگر میں حیران ہو جاتا ہوں کہ یہی لیڈر تب بکھر ے بکھرے اور خاموش دکھائی دیتے ہیں جب پاکستان ان کا اتحادی ہونے کی قیمت ادا کرتا ہے۔اور کوئٹہ میں61وکیل خاک میں مل جاتے ہیں۔مغربی کارپوریٹ میڈیا اس خبر کو اپنی آخری ترجیح کے طور پر'' ٹریٹ‘‘ کرتا ہے۔پھر میں نے سامعین سے پوچھا بات ختم کروں یا مزید سمع خراشی کی اجازت ہے۔ اس گزارش کا جواب زور دار تالیوںسے ملا۔صاحبزادہ جہانگیر عرف چیکو بھائی اور دیگر مہمانوں نے زور دیا۔بولو۔بولو۔ورنہ یہ لندن ہے۔یہاں کوئی بھی یک طرفہ اور اپنی مرضی کا خطبہ ارشاد نہیں فرما سکتا۔ہر کوئی تقریر میں سوال اٹھانے اور مداخلت کرنے کا حق بنیادی رکھتا ہے۔
آخری بات یوں تھی۔معزز آف شور قانون دانو...اس پر برملا قہقہہ پڑ گیا۔عرض کیا ،جناب والا اس کا مطلب سیاسی نہیں، کہنے کا مطلب تھا''سمندر پار‘‘۔عرض کیا تقریباً3عشرے پہلے ویزہ ،سفر،امیگریشن ،شہریت سب کچھ جتنا سادہ تھا۔آج ہم سب نے اسے اتنا ہی پیچیدہ بنا دیا۔برطانیہ کا نظامِ حکومت ، قانون، طرزِزندگی سب کچھ آپ کی مرضی سے تشکیل پایا۔اس میں کسی بیرونی طاقت کا کوئی عمل دخل نہیں ۔مسائل تب شروع ہوئے جب ہم نے دوسروں کی سرزمینوں پر اپنی مرضی کی ''حکومت‘‘ بنانے کی کوشش کی۔اس کا نقطہء آغاز دیکھ لیں۔آج انجام سب کے سامنے ہے۔کروڑوں بے گھر، یتیم، زخمی، مہاجر، سسکتی انسانیت اسی سوچ کا تحفہ ہے۔پھر بھی ایک جگہ بادشاہ اچھا ہے۔ساتھ والے ملک میں ڈکٹیٹر شپ اس کی دائیں جانب مذہبی پاپائیت اور بائیں طرف جمہوریت کے نام پر نازی ازم ۔
آئیے آگے چلیں...ماضی کی بجائے مستقبل میں جینا سیکھیں۔آئیے دوسرے ملکوںکی چھاتی پر دوڑنے والے ٹینک واپس بلائیں۔ اسلحہ کے سوداگر انسانیت کے مستقبل کے ضامن نہیں ہو سکتے۔اگر ہم اتحادی ہیں تو ایک دوسرے پر اعتبار کرنا ہوگا۔ ورنہ لاقانون اکٹھے ہوں گے اور امن کی خواہش رکھنے والے ہر جگہ تنہا، اکیلے اور بلاشبہ کمزور بھی۔
میرے لیے لندن کی سب سے بڑی تفریح ہائیڈ پارک میںصبح کی سیر اور شام کی واک ہوتی ہے۔رات کا کھانا کھانے کے لیے لوگ اکثر پاکستانی ریستورانوں کے رش میں اضافہ کرتے ہیں۔آپ لندن جائیں تو ایسا مت کریں کیونکہ دیسی کھانے آپ واپسی پر بھی کھا سکتے ہیں۔لیکن ٹیمز (Thames River) کو آپ یقیناََ مِس کردیں گے۔دریا پر اتوار کا پریمیئر کلاسک لنچ اور رات کا ڈنرآپ کو جادونگر ی میں لے جائے گا۔کئی کمپنیوں کے مشہور بجرے(Cruise) پر لائیو جاز موسیقی،کھڑکی کے ساتھ والا ٹیبل اور طے شدہ مینو کا ہلکا پھلکا کھانا آپ کو دوبارہ ٹیمز کی لہروں سے ملاقات پر مجبور کر دے گا۔شام کی چائے والے کروز پر نگر نگر کے رنگ برنگے مسافروں کے درمیان اگست میں برفانی ہوا کے جھونکے اور سنگل گٹارسٹ۔ساتھ ٹیمز کی ہائی ٹی کا لطف ہی کچھ اور ہے۔
ٹیمز کے عین درمیان پہنچ کرمجھے اپنے پنج دریا یاد آئے۔مغلِ اعظم کے زمانے کا راوی، شہر کے بیچوں بیچ ٹیمز کا پنجابی دادا دریا نظر آتا ہو گا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور تک ایسا ہی تھا۔پھر لندن پلان ایسٹ انڈیا کمپنی کے روپ میں آ پہنچا۔آج لاہور جنگلے کا جنگل اور دریائے راوی کنکریٹ کی سنگلاخ چٹانوں کے درمیان بہنے والا گندہ نالاہے۔
شام سابق صدر آصف زرداری صاحب نے چائے پر مدعو کیا۔میں اور عبداللہ پیدل ان کے اپارٹمنٹ پہنچے۔صدارت کے زمانے میں ان کے اے ڈی سی ملک جلال نے نیچے آکر استقبال کیا۔جلال نے قبل ازوقت فراغت لے لی۔اب وہ مستقلاً آصف صاحب کے ساتھ ہیں۔آصف پہلے سے تندرست نظر آئے۔جاگنگ ٹریک میں تھے ۔ بتلایاابھی45منٹ واک کر کے آیاہوں۔گھنٹوں لمبی نشست کا احوال بھی دلچسپ تھا۔مجھ سے فرمائش کر کے شعر سنے۔میں نے اپوزیشن کو اکھٹا کرنے،بلاول بھٹو کو پارلیمنٹ میں لانے اور پی پی پی کا کھویا ہوا سیاسی وقار بحال کرنے کی بات کی۔اسی دوران بی بی سی اردو سروس سے فون آیا۔کہا سیر بین پروگرام کے لیئے آپ سے ا نٹر ویو کرنا ہے۔
ہم واپس چلے،آٖصف زرداری نے پوچھا عبداللہ تمہاری عمر کتنی ہے...؟پھر خود ہی کہا ہاں بلاول سے5سال کم۔شاید یہ پیپلز پارٹی کی واپسی کی ڈیڈ لائن کی طرف اشارہ تھا۔ہم دونوں ہائیڈ پارک میں انسانوں،درختوں اور آکسیجن کے جنگل میں گم ہو گئے۔ (جاری)