انیل چوہدری کا فون آیا کہ وہ کافی پینے ہوٹل آ رہے ہیں۔ انیل بھائی بھارتی فلم اسٹار انیل کپورکے ساتھ مشترکہ فلم سازی بھی کرتے ہیں۔ انیل کپور ہالی وڈ اور بالی وڈ کے فلم اسٹار اور پروڈیوسر ہیں۔ اس سال ان کی بیٹی کی کامیاب فلم میں پاکستانی اداکار کو مسز انیل چوہدری '' مہر بھابھی‘‘ کی سفارش پر کردار ملا۔
انیل بھائی نے بتایا کہ یوکے میں ہر سال ڈھائی لاکھ گھروں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ 1.50 لاکھ تعمیر ہو پاتے ہیں۔ اس عظیم پاکستانی نژاد نوجوان بلڈر کے پانچ ہزار سے زائد گھر اس سال بھی زیر تعمیر ہیں۔ ان کے حالیہ منافع کا پورٹ فولیو 150ملین پاؤنڈ سے زیادہ ہے۔ ملکہ برطانیہ، شہزادہ چارلس، برطانوی وزیراعظم اور آرمی چیف کی ہر تقریب میں انیل بھائی موجود ہوتے ہیں۔ ایک ہزار سے زیادہ کارکنوں کو روزگار اور برطانوی خزانے کو اربوں روپے سالانہ ٹیکس دینے والے انیل بھائی اور ان جیسے دوسروں کو برطانوی جمہوریت '' لاڈلا بچہ‘‘ سمجھ کر پالتی ہے۔
ایسی ہی بات بی بی سی اردو کے دوستوں کے ساتھ، انٹرویو دینے کے بعد، آف دی ریکارڈ سیشن میں ہوئی۔ بی بی سی اردو زبان کے علاوہ بھی 29 عالمی زبانوں میں پروگرام پیش کرتا ہے۔کئی سال پہلے مجھے بی بی سی کے جس ہیڈ کوراٹر میں جانے کا اتفاق ہوا وہ اب پرانا بی بی سی کہلاتا ہے۔ اس تک پہنچنے کے لئے آکسفورڈ سٹریٹ کی بغلی سڑک تقریباً سیدھا راستہ بنتا ہے۔ بی بی سی نے اپنا نیا ہیڈ کوارٹر پرانے ہیڈ کوارٹر سے تھوڑا ہٹ کر بنایا ہے۔ استقبالیہ دفتر پر شاہ زیب نے میرا اور عبداللہ کا استقبال کیا۔ پھر ہمیں دفتر کے مختلف سٹیشن دکھائے گئے۔ میڈیا ٹیکنالوجی کے استعمال میں بی بی سی کے ہیڈ کوارٹر کو ''خبر کے لیڈر‘‘ کا جی ایچ کیو کہنا چاہیے، جہاں لائیو فیس بک نشریات، سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ، سیر بین اور دوسرے ان گنت شعبے قائم ہیں۔ پروگراموں کی منصوبہ بندی حیران کر دینے والی ہے۔ مثال کے طور پر اگلے سال2017ء میں پاکستان کے یومِ آزادی (14اگست) پر کیا پروگرام نشر ہوں گے۔ بی بی سی نے ایک سال پہلے اس کا پلان تیار کر لیا ہے۔ اردو سروس میں پہنچ کر پنڈی اور لاہور کے کئی شناسا عدالتی کارروائی کی کوریج کرنے والے رپورٹرز سے بھی ملاقات ہوئی۔ آفریدی صاحب نے انٹر ویو لیا۔ وہ بتا نے لگے کہ محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کی واپسی کے وقت اکثر مجھ سے انہی کی بات ہوتی تھی۔ اچھے سوالات کیے جائیں تو صحافی کو معیاری جواب مل جاتا ہے۔ انٹرویو مجھے پر لطف لگا اور بامعنی بھی۔
برادرم شفعی نقی جامعی مغربی دنیا میں صحافت کی سب سے معروف آواز ہیں۔ ہمارا ان کے ساتھ زمانۂ طالب علمی سے تعلق ہے۔ ہمیشہ گلے لگ کر ملتے ہیں اور لندن پہنچنے کے بعد اطلاع نہ دی جائے تو ہلکا پھلکا ناراض ضرور ہوتے ہیں۔ اس دفعہ بھی آمد کی قبل از وقت اطلاع نہ دینے کا بجا طور پر شکوہ کیا۔ بی بی سی ہیڈ کوارٹر سے واپس نکلے تو میں نے گاڑی والے دوستوں سے معذرت کر لی اور پیدل چلنے کا فیصلہ کیا۔
لندن کے بلیو ایریا، ایجویئر روڈکے لبنانی ریسٹورنٹ میں لندن پلان کے گھریلو کردار کھانا کھانے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ترکش گرین خوشبو والی چائے، تندور میں ٹراؤٹ مچھلی کو تیار کرنا، سبز سلاد کا پلیٹر بنانا کوئی لبنانی ریسٹورنٹ چلانے والوں سے سیکھے۔کھانا کھا کر باہر آئے تو 12,10بار افراد جن میں دو فیملیز اور بچے بھی شامل تھے فوٹو/ سیلفی اور ملاقات کے لئے کھڑے پائے۔ اجنبی ملکوں میں اپنے ہم وطنوں سے ملنے والی محبت صحرا میں سایۂ دیوار سے کم نہیں ہوتی۔ لیکن وطن کی محبت کسی بدبخت کے حصے میں نہیں آ تی، خواہ وہ ملک کے اندر ہو یا وطن اور اہلِ وطن سے دور سمندر پارکا پناہ گزین کوئی شخص۔
ایسی ہی ہرزہ سرائی کے خلاف لندن میں پاکستانیوں نے اپنے جذبات کا بھرپور مظاہرہ کیا جس میں وکلا، صحافی، اہلِ دانش اور سیاسی کارکن بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ وطن سے دور رہ کر خاکِ وطن سے محبت کرنے والوں نے احتجاجی مظاہرے کے لئے -10 ڈاؤننگ سٹریٹ کا انتخاب کیا تھا۔ یہ برطانوی وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ ہے،جس کا کل رقبہ یقینا ہمارے بادشاہ سلامت کے محلاتی باتھ روم سے چھوٹا ہی ہو گا۔ اس مظاہرے میں بڑی تعداد میں عام شہری پاکستانی پرچم لائے تھے۔ مظاہرے کے شرکاء رکاوٹی جنگلوں کے پیچھے کھڑے ہو کر پرامن مظاہرہ کرتے رہے۔ مظاہرین نے نعرے لگائے ''مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو‘‘ ، ''گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو‘‘۔ مظاہرین کا خیال تھا پاکستان میں ملک مخالف سب آوازیں مودی ازم کی پیروکار ہیں۔ لندن مظاہرے میں اس وقت بد مزگی پیدا ہوئی جب مبلغ تین عدد سرکاری نمائندے مظاہرین کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے ان کے آگے آ کھڑے ہوئے۔ وہ یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ یہ مظاہرہ انہی شیروں کی وجہ سے ہو پایا۔ مظاہرین بپھر گئے؛ چنانچہ مظاہرے کے شرکاء نے بڑے ترنم سے ''گو نواز گو‘‘ کا مشہورِ زمانہ نعرہ لگانا شروع کر دیا۔ انگریزی پریس پریشان ہواکہ یہ کون سا میوزیکل نعرہ ہے۔
پاکستان کے اندر پرچم ِوطن اور پاک سرزمین کے لئے جو جذبات پائے جاتے ہیں لندن اور سمندر پار مقیم پاکستانیوں میں وہ جذبات کم نہیں بلکہ زیادہ ہیں۔ اسی لئے امریکہ سے افریقہ اور سپین سے جاپان تک ہر جگہ ہر چھوٹی بڑی تقریب میں پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگتے ہیں۔ ان نعروں کے ذریعے سمندر پار مقیم پاکستانی وطنِ عزیز کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ مارتے ہیں۔ لندن کے کسی بھی کونے میں پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی کرنے والوںکو کسی نے لفٹ نہیں کرائی۔ پاک سرزمین کے خلاف اس لندن پلان کا ''لوٹا‘‘ چوراہے کے بیچ ٹوٹا اور اس کا گند کرہ ٔ ارض کے طول و عرض میں باعثِ نفرت ٹھہرا۔
ہماری یہ پاک دھرتی بہت خوش قسمت ہے ۔ میر ادل کہتا ہے اسے کسی کی دعا بھی ہے، اسی لئے جب بھی پاکستان کے خلاف سازش تیار ہوتی ہے اس کا فوری نتیجہ پاکستان میں وطن پرستی کی شدید لہر کی صورت میں سامنے آ جاتا ہے۔ آج پاکستانی ہر جگہ دل و جان سے پکار رہے ہیں ؎
اے وطن خون میں ڈوبے تیرے پرچم کی قسم
تو نے جینا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
ایسے ہی پر جوش نعرے مانچسٹر کے پاکستان کمیونٹی ہال میں بھی لگے۔ (جاری)