کینیڈا، آسٹریلیا، یورپ، امریکہ، مڈل ایسٹ اور انگلستان میں مقیم پاکستانی تارکینِ وطن کی ایک عادت مشترک ہے۔ وہ ہے کھانے پینے کی عادت۔ خاص طور پر مہمانوں کی دعوت کے معاملے میں ہمیشہ پاکستانی یا بنگالی ریستوران کا انتخاب کرتے ہیں۔ میرے گھر میں عربی نما سادہ کھانے پکتے ہیں، یا پوٹھوہاری ساگ اورکڑھی۔
لندن پلان کے دوران بھی ہم سب نے تقریباً سارے کھانے لبنانی ہی کھائے۔ بچوں نے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے برگرز کا سہارا لیا‘ پھر خود ہی پیچھے ہٹ کر واپس لبنانی ذائقے پر آ گئے‘ لیکن مانچسٹر میں بحث مباحثے کے شوقین کچھ صحافیوں اور اہلِ قلم نے مجھے بنگالی کھانا کھلانے پر زوردار اصرار کیا۔ میں نے میزبانوں کی خوشی کے لیے بادلِ نخواستہ نواز شریف کی پسندیدہ سینکڑوں ڈشوں میں سے ایک ڈش ''تَوا تلی‘‘ مچھلی کھانے پر اتفاق کر لیا‘ لیکن بنگالی ریسٹورنٹ میں جانے کا تجربہ بہت خوشگوار ثابت ہوا۔ زبانِ حال سے یوں۔ ؎
میرے ماضی کے اے سرسبز لہو
پلٹ آؤ کہ تنہا رہ گیا ہوں
میری سکولنگ پنڈی اور کہوٹہ کے بعد اسلام آباد میں ہوئی۔ اس دور میں اسلام آباد، یو پی، سی پی کے مہاجرین کے لیے 3 لحاف کی سردی کا شہر تھا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بنگالیوں کے لیے صرف دو عدد سیکٹروں رمنا 6 اور رمنا 7 کا شہر۔ رمنا 7 یعنیG-7۔ خالصتاً رہائشی علاقہ جس میں صرف ایک کلاس تھری شاپنگ سینٹر تھا‘ جبکہ G-6 یا رمنا 6 میں شہریوں کے لیے کئی دلچسپیاں موجود تھیں۔ ان میں سب سے بڑی میلوڈی سینما‘ جہاں روزانہ فلم کے تین شو چلتے تھے۔ پہلا اردو فلم کا، دوسرا پنجابی یا بنگالی فلم کا جبکہ تیسرا شاہکار انگریزی فلموں کا رات گئے 9 سے 12 بجے والا شو۔
1970ء والے عشرے کے آغاز میں پیر مہر علی شاہ کے گولڑہ شریف اور شاہ عبدالطیف کے بری امام کے درمیانی علاقے میں ننھے منے سے اسلام آباد میں بنگالیوں کی اکثریت تھی۔ ہماری رہائش گاہ میلوڈی سینما کے سامنے گلی نمبر38 کے پرائیویٹ گھروں والے علاقے میں تھی۔ بنگالی طلبا و طالبات، اساتذہ اور پڑوسیوں سے قریبی تعلق کی وجہ سے بولنے کی حد تک مجھے بنگالی زبان پر80 فیصد سے زیادہ دسترس حاصل ہو گئی۔ اس لیے جب مانچسٹر کے بنگالی ریسٹورنٹ میں بنگالی زبان میں نام لے کر پکارا گیا تو اس خوش کن آواز سے ذہن میں ماضی کے کئی دریچے کھل گئے۔ میں نے ہوش و حواس سے یہ جملہ سنا: اپنار نوم بابر اعوان آچھے۔ (ترجمہ: آپ کا نام بابراعوان ہے؟) میرے سکول کے استاد ارشادالحق صاحب سامنے کھڑے تھے۔ ارشاد صاحب بینجو بجانے کے ماہر تھے۔ بینجو پرانے ٹائپ رائٹر کی شکل والا کی بورڈ سے مزین آلہ موسیقی ہے۔ جس طرح خیبر پختونخوا میں رباب اور پنجاب میں ڈھول دیہی کلچرکا حصہ ہیں‘ اسی طرح بینجو بنگالی موسیقی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
ارشادالحق صاحب کا تعلق چٹاگانگ سے ہے۔ مجھے گلے لگا کر رونے لگ گئے۔ کہنے لگے: اسلام آباد کو بہت مس کرتا ہوں۔ اپنے گرائیں ناظم الدین‘ جو گریڈ 18 کے بیوروکریٹ تھے، کا پوچھا۔ پرانے زمانے کی ''کیفے ارم‘‘ ''مارگلہ ہلز‘‘ اور اپنی پڑھائی ہوئی آخری کلاس کے طالب علموں کا حال بھرپور محبت سے دریافت کیا۔ کہتے رہے: بہت غلطیاں ہوئیں۔ مشیر کاظمی نے انہی غلطیوں کے اعتراف میں کہا تھا:
کچھ ہماری سیاست کی مجبوریاں
کچھ تمہاری سیاست کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں بڑھتی گئی دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر
تری رسوائیاں بھی گوارا نہیں
پھول لے کر گیا، آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبرِ اقبال ؒ سے آ رہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں...
انگلستان آج کل کئی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ ایک تبدیلی تو وہ ہے جس کے بارے میں پاکستان کی جدید سیاسی ''لُغت‘‘ کہتی ہے، تبدیلی آ نہیں رہی... تبدیلی آ گئی ہے۔ یہ تبدیلی یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کی وجہ سے آئی۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں یورپی یونین کے ملکوں سے تعلق رکھنے والے بڑے تاجر اور انویسٹر بے یقینی کا شکار ہیں۔ اسی لیے اہم تاجر اپنی سرمایہ کاری کو برطانیہ سے یورپی یونین کے ملکوں میں واپس لے جا رہے ہیں۔ انگلستان میں یورپی باشندوں کی جائیدادوں کو ای یو پراپرٹی کہتے ہیں۔ لندن سے ڈبلن تک اس پراپرٹی کے پورے پورے محلے ہیں‘ جن کو میونسپل کمیٹی کے قانون میں زون کہتے ہیں۔ یورپی ممالک کے انگلستانی انویسٹرز کی پریشانی کی وجوہ جائز ہیں۔ مثلاً پہلے انہیں یو کے آتے وقت ویزہ امیگریشن جیسے مراحل سے گزرنے کا استثنا حاصل تھا۔ اسی طرح ان کے لیے لندن وغیرہ میں بینک اکاؤنٹ کھولنا، پیسے، سرمایہ کاری کی رقمیں لانا بھی آسان تھا۔ اب وہ برطانوی حکومت کے لیے غیر ہو گئے ہیں، بالکل ہماری طرح کے۔ ہو سکتا ہے سپین، جرمنی اور یورپی یونین کے دوسرے ممبر ملکوں میں برطانوی سرمایہ کاروں کو بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہو‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ بدلتے ہوئے جغرافیائی حالات اور معاشرتی موسم کا تغیر برطانوی نظام کو سرپرائز نہیں دے سکے گا‘ جس کی عملی مثال ہانگ کانگ سے برطانیہ کے انخلا میں ملتی ہے۔ ہانگ کانگ پر 100سالہ قبضے کے بعد برطانیہ نے اسے چین کے حوالے کیا تو اس سے پہلے سنٹرل لندن سے بذریعہ ٹرین 40 منٹ کے فاصلے پر ایک نیا شہر آباد کر لیا۔ پورا شہر سگنل فری ٹریفک والا ہے۔ ملٹن کِین کا شہر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ''مِنی ماڈل‘‘ ہے‘ جہاں اے کلاس انفراسٹرکچر اور سہولتیں پہلے دی گئیں۔ جوں جوں ہانگ کانگ سے انخلا کا وقت قریب آتا گیا برطانیہ کے شہریوں کو ہانگ کانگ سے ملٹن کِین لا کر دکھایا گیا کہ ان کے لیے نیا شہر تیار ہے۔ اس طرح وہ اربوں، کھربوں کا سرمایہ‘ جو ہانگ کانگ سے نکل کر کسی اور ملک میں جا سکتا تھا‘ گورے اسے کھینچ کر برطانیہ لے آئے۔
اس کے مقابلے میں ایک اور افسوسناک منظرنامہ دیکھیے۔ اس وقت برطانیہ میں مقیم ہمارے لاکھوں شہری ایسے ہیں جن کی جائیدادیں، پلاٹ اور زمینیں میرپور سے ملتان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ایسے سینکڑوں وکیل ہیں جو برطانیہ میں نہ سولسٹر ہیں نہ بیرسٹر ان کا کام سوشل میڈیا اور سوشل تقریبات میں ایسے مقدمات ''بک‘‘ کرنا ہے‘ جس میں قبضہ گروپ کے پاس پھنسی ہوئی پاکستانیوں کی جائیدادیں ہیں۔ مقدمہ بک ہوتا ہے۔ فیس طے ہوتی ہے ۔ پاکستانی وکیل کو پاکستان آنے جانے، رہائش وغیرہ کے اخراجات ملتے ہیں اور پھر اکثر کیسوں میں پھنسے ہوئے پاکستانی تارکینِ وطن اپنی پھنسی ہوئی جائیداد سے جان چھڑانے کے لیے خریدار ڈھونڈتے ہیں۔ ظاہر ہے سات سمندر پار بیٹھ کر خریدار کہاں سے ملے گا؛ چنانچہ یہ جائیدادیں مؤکل پر ''رحم‘‘ کرتے ہوئے خود وکیل صاحب خریدنے پر ''مجبور‘‘ ہو جاتے ہیں۔ یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ مالک کے پاس جس جائیداد کا قبضہ نہ ہو‘ بیچتے وقت اس کی ''کاغذی‘‘ قیمت لگتی ہے‘ یعنی جائیداد کے کاغذوں پر ٹرانسفر ہو جاتی ہے‘ وہ بھی کروڑوں کی جائیداد کوڑیوں کے بھاؤ۔
سات سمندر پار پاکستانیوں کے اس گمبھیر مسئلے نے کئی فٹ پاتھیے ارب پتی بنا دیے۔ (جاری)