ہجرتِ رسولﷺ کی نسبت سے آغاز کا اعزاز حاصل کرنے والے کیلنڈرنے اپنے 1437سال مکمل کر لیے۔ہرنئے ہجری سال دلِ درد آشنا سے ہوک اٹھتی ہے کہ، مجھے کچھ سوچنے دے!!
مثال کے طور پر اس نئے سال میں محسنِ انسانیتﷺ کی تربیت میں تیار ہونے والی ٹیم کا کوئی صحابی حیات ہوتا تو آج کی دنیا کیسی ہوتی؟طاقت کے نشے میں چور، شمرذی الجوشن کا تلوار والا ہاتھ کسی نے پکڑ لیا ہوتا تو مسلمانوں کی طاقت کس قدر ہوتی؟اگر مسلم سر زمینوں میںملوکیت یا بادشاہی نے جنم ہی نہ لیا ہوتا تو خلافت کی برکات کیا ہوتیں؟اگر مسلمانوں میں فرقے نہ بنے ہوتے تو ہماری مسجدوں کی رونق کیسی ہوتی؟اگر ہر آدمی اپنے حصے کی نصاب کردہ زکوٰۃ ادا کر دیتا تو ہماری معاشی زندگی کا رنگ کیا ہوتا؟اگر ہر مسلمان اپنے اناج، فصل، پھل،فروٹ،خشک میوہ جات،مونگ پھلی، دال، آلو،پیاز ،ٹماٹر میں سے عشر(دس فیصد ) حصہ حق داروں میں تقسیم کر دیتا تو ہمارے چولہوں کی لذت کہاں پہنچ چکی ہوتی؟اگر ہم میں سے ہر مسلمان کسی بھی ضرورت مند، محتاج، مسافر، قیدی، یتیم اور اپنے ماں باپ سے سلوک کرتے وقت یہ سوچتا کہ رسول ؐ اللہ نے ان سب سے کیسا سلوک روا رکھا یا اس کی تاکید فرمائی تو انسانی رشتے کیسے ہوتے؟
میں یہ بھی سوچتا ہوں ، اگر دولت کی تقسیم سورۂ بقرہ کی آیت نمبر3 کے مطابق ہوتی،دولت کا ارتکاز ختم ہو جاتا ۔ہر دولت مند دولت پر سانپ بن کرذرائع آمدن پر قبضہ نہ کر لیتا تو غریب کون ہوتا؟اگر سارے لوگ ظالم کا ہاتھ روکنے والے بن جاتے تو ظلم کرنے کی ہمت کس میں ہوتی؟ اگر انصاف کرتے وقت منصف یہ فرمانِ رسولؐ یاد رکھتے کہ (قاضی دو قسم کے ہیں ایک جہنمی اور دوسرا وہ جو قیامت کے دن 2عدد کھجوروں کے مقدمے میں فیصلے کے بارے میں کہتا:کاش یہ فیصلہ میں نے نہ کیا ہوتا۔) PLDمیںرپورٹ شدہ ۔
ہر سال مجھے آغاشور ش کا شمیری کی یاد بھی آتی ہے۔شورش پکے احراریے تھے، تنگ دل اور نہ ہی تنگ نظر ۔گولڑہ شریف کے عنوان سے شاہکار نظم میں شورش نے دینِ اسلام کو اپنے اپنے برانڈ میں ڈھالنے والوں کو یوں مخاطب کیا۔
پیرِ مغاں کے ہاتھ میں ریشِ فقیہہ و شیخ
نرغہ میں مغبچوں کے جمال و کمالِ دیں
میں رند ہوں معاف کریں اہلِ مدرسہ
قدرت نے ان سے چھین لیا اعتقادِ دیں
میرے لئے ہے گولڑہ سجدہ گہِ نیاز
''سر سیکڑوں جہاں میں سروں کی کمی نہیں
اس آستاں کی خیر ہو وہ آستاں رہے‘‘
محرم الحرام کا آغاز ہی دل میں گہرا چرکا لگاتا ہے۔جب قبلۂ اول بیت المقدس کے فاتح ،مرادِ رسول،ؐ سیدنا عمرؓ کی شہادت ہوئی۔ساتھ ہی عشرۂ آلِ پیمبر ؐ شروع ہوجاتا ہے۔شورش نے اس کربناک موضوع کو ''دوشِ رسولؐ کا سوار میدانِ کربلا میں‘‘کہہ کر دل کے پھپھولے ان لفظوں میں جلائے۔
صبر و رضا و عشق کا پیکر بَنا ہوا
چاروں طرف سے ابنِ علیؓ ہے گِھرا ہوا
نرغے میں شِمر کے ہے مدینے کی آبرو
کوفہ میں قاتلوں کا ہے جھنڈا گڑا ہوا
اب کس مقام پر ہیں یزیدانِ عَصرِ نو
شورشؔ غمِ حسینؓ میں ماتم سرا ہوا
رسول ِآخر الزمانؐ اور آپؐ کی آل سے شورش نے درد کا رشتہ بیان کیا اور'' اتباعِ حسینؓ ‘‘ کے نا م سے عشق میں ڈوبے ہوئے یہ اشعار تخلیق کیے۔
درد کا خُطبۂ اوّل ہیں گلابی آنسو
عشق کی آنچ میں ہے بیتِ غز ل روحِ سخن
لالہ و گل کے نشیمن پہ خزاں کا پہرہ
دستِ صیاد میں توقیرِ صبا نقدِ چمن
کربلا وادیٔ سینا سے بہت آگے ہے
اس کے ذرّات پہ قربان ہیں پروین و پرن
ہر گھڑی اس کو مدینے سے پہنچتا ہے سلام
یہ و ہ مشہد ہے کہ ہے ابنِ علیؓ کا مدفن
ایک اورمقام پر کوفہ کے بیوفاؤں کے بارے میں شورش شکوہ کرتا ہے۔نظم کا عنوان رکھا گیا''حسین ؓ کربلا میں‘‘۔شورش نے مصائب میں گِھری عفت مآب خواتینِ اہلِ بیت کا درد یوں محسوس کیا۔
اک آفتابِ عرش ہے، غبار میں اٹا ہوا
حسین ؓ ہے یزیدیوں کے سامنے ڈٹا ہوا
گھری ہوئی ہیں کوفیوں میں فاطمہؓ کی بیٹیاں
کہ جیسے کاروانِ گل بہار سے کٹا ہوا
شورش جتنا جاندار بولنے والا مقرر تھا اس سے اچھا تخلیق کار ،محرر۔ شورش اپنی ذات کے سفر میں بارگاہِ امام شہدا میں بھی جا پہنچا۔اور اپنی آہِ نا رسا ان لفظوں میں کھول کر رکھ دیتا ہے۔
حسینؓ! ہم کہ ترے بندگان ناز و نیاز
تری شہادتِ عظمیٰ کے محرمانِ راز
کمالِ فہم بھی ہو تو سمجھ نہیں سکتے
حسینؓ! تیری حقیقت کو بند گا نِ مجاز
حسینؓ! تیرے تصور سے جاگ اٹھتا ہے
وہ دل کہ جس کی متاعِ عزیز سوز و گداز
حسینؓ ! تیری روا یت کی ہمنوائی میں
مری حقیر شجاعت کے ولولے ہیں دراز
حضورِ سرورِ کونینؐ پر فدا ہونا
یہی ہے میری عبادت یہی ہے میری نماز
قسم خدا کی فقط اہلِ بیتؓ کا صدقہ
کلامِ شورشِ شعلہ نوأ کا رنگِ حجاز
محرم الحرام میں تاریخِ اسلام کے کرب و بلا کا سب سے بڑا سانحہ شورش جیسے مردِ حر کو زندگی بھر رلاتا رہا۔''حسین ؓ ابنِ علیؓ‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی منقبت میں شورش کااپنا علیحدہ ہی لہجہ بولتاہے۔
کون ناموسِ رسالتؐ کا نگہباں ہو گیا
کس کا سر نیزے کو پہنچا کون قرباں ہو گیا
کس کے آنسو چہرۂ نوروز کی رونق بنے
کس کا خوں اسلام کی صبحِ درخشاں ہو گیا
کس کی نعش ِ خوں چکاں تشہیر کو لائی گئی
کس کا پرچم چادرِ گورِ غریباں ہو گیا
کس نے کی مرگِ ملوکیت کی صبحِ اولیں
کون شمعِ ظلمتِ شامِ غریباں ہو گیا
کون تڑپایا گیا تھا کربلا کی خاک پر
کس کا ماتم، ماتمِ تاریخِ انساں ہو گیا
محرم الحرام اور سانحہ کربلا کے تناظر میں شورش کا ایک خاص موضوع'' عصرِ حاضر کے یزید‘‘ کے عنوان سے ملتا ہے۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سانحہ کربلا، نواسہ ء رسول ؐ کی لازوال جراء ت اور بے مثال قربانی آزاد منش انسانوں کے مستقبل کا روڈ میپ ہے۔شورش نے'' محرم الحرام‘‘ کے عنوان سے اس مضمون کے ساتھ پورا انصاف کیا۔
میں نہیں کہتا حسینؓ ابن علیؓ کے نام پر
عشرہ ماہِ محرّم میں عزاداری نہ کر
شہ رگ شبیرؓ سے ہے کربلا کی آبرو
عصرِ حاضر کے یزیدوں کی طرفداری نہ کر
امام ِحسین ؓ کا عزم اور جبر کے خلاف لافانی کردار شورش کے نزدیک نوجوان نسل کا فکری اثاثہ ہے۔یہ اثاثہ ہر خوف کی نفی اور ہر ظلم سے انکار کا مسلسل سبق بھی ہے۔''حسین ؓ ‘‘ کے عنوان سے آج کے مظلوم انسان کا نوحہ یہ ہے۔
حسین ؓ کرب و بلا سے نکل کے دیکھ ہمیں
یزیدِ عصرِ رواں سر اٹھائے جاتے ہیں
مرے و طن کے جوانانِ انقلاب آور
ستانے والوں کے ہاتھوں ستائے جاتے ہیں
حسینؓ! پرچمِ عباسؓ کی اڑانوں پر
نشانہ باز نشانہ لگائے جاتے ہیں
لاؤڈ سپیکروں کا شور،لیکچر،بات بات پر جھگڑے،حوصلہ پِدی کے کلیجے جتنا جبکہ دعوے سات آسمانوں جیسے بلند۔تقسیم در تقسیم کے ذریعے امتِ مرحوم کو مقتول اور مدفون امت میں تبدیل کرنے والوں سے شورش نے دلیرانہ خطاب کیا۔
اے مری قوم ! ترے حسنِ کمالا ت کی خیر
تو نے جو کچھ بھی دکھایا وہی نقشا دیکھا
یہ سبھی کیوں ہے؟ یہ کیا ہے؟ مجھے کچھ سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے ؟ مجھے کچھ سوچنے دے